زندہ انسانوں کے پھیپھڑوں میں ’پلاسٹک‘ کی موجودگی کا انکشاف

0
27

حال ہی میں سائنسدانوں نے انسانی خون میں پلاسٹک کے ننھے ذرات کو پہلی بار دریافت کیا تھا اور اب مائیکرو پلاسٹک آلودگی پھیپھڑوں کی گہرائی میں پہلی بار دریافت ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔

باغی ٹی وی : برطانوی اخبار دی گارجئین کے مطابق سائنسی جریدے ’سائنس آف ٹوٹل انوائرنمنٹ‘ میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ پہلی بار زندہ لوگوں کے پھیپھڑوں میں گہرائی میں مائیکرو پلاسٹک آلودگی پائی گئی ہے، اس سلسلے میں جتنے نمونے تجزیے کے لیے لیے گئے تھے، تقریباً تمام نمونوں میں یہ ذرات پائے گئے ہوا گزرنے کے راستے انتہائی تنگ ہونے کی وجہ سے پہلے اس کو ناممکن سمجھا جاتا تھا۔

مائیکرو پلاسٹک اس سے پہلے انسانی کیڈور پوسٹ مارٹم کے نمونوں میں پائے گئے، لیکن یہ پہلی تحقیق ہے جس میں یہ زندہ لوگوں کے پھیپھڑوں میں دکھائی دیئے ہیں۔

یونیورسٹی آف ہل اور ہل یارک میڈیکل سکول کے محققین نے جن 13 مریضوں کے نمونوں کی جانچ پڑتال کی، لگ بھگ ان سب میں پلاسٹک کے ننھے ذرات کو پھیپھڑوں کی گہرائی میں دریافت کیا گیا۔

سائنسدانوں نے کہا کہ پلاسٹک کے ننھے ذرات کی آلودگی اب دنیا بھر میں اس حد تک پھیل چکی ہے کہ انسانوں کے لیے اس سے بچنا ممکن نہیں رہا اور صحت کے حوالے سے خدشات بڑٖھ رہے ہیں۔

اس تحقیق کے دوران سرجری کے عمل سے گزرنے والے 13 مریضوں کے پھیپھڑوں کے ٹشوز کی جانچ پڑتال کی گئی اور 11 میں پلاسٹک ذرات کو دریافت کیا گیا۔

سائنسدانوں نے کہا کہ ان اعداد و شمار سے فضائی آلودگی، مائیکرو پلاسٹک اور انسانی صحت کے شعبے میں ایک اہم پیش رفت ہوئی ہے جو ہمیں معلوم ہوئی ہیں ان اقسام کی خصوصیات اور مائیکرو پلاسٹک کی سطح اب صحت پر اثرات کا تعین کرنے کے مقصد سے لیبارٹری میں تجربات کے لیے حقیقت پسندانہ حالات سے آگاہ کر سکتے ہیں۔‘

مائیکرو پلاسٹک کی اقسام اور سطحوں کی کردار سازی اب صحت کے اثرات کا تعین کرنے کے مقصد سے لیبارٹری ایکسپوزر تجربات کے لئے حقیقت پسندانہ حالات سے آگاہ کر سکتی ہے۔

ایسٹ یارکشائر کے کیسل ہل ہسپتال کے سرجنوں نے پھیپھڑوں کے زندہ ٹشو فراہم کیے۔ یہ ٹشو مریضوں پر کیے گئے سرجیکل طریقہ کار سے حاصل کیے گئے تھے جو ابھی تک زندہ تھے، یہ ان کی معمول کی طبی دیکھ بھال کا حصہ تھا۔ اس کے بعد یہ انہیں دیکھنے کے لیے فلٹر کیا گیا کہ ان میں کیا ہے۔.

جن مائیکرو پلاسٹک کا پتہ چلا ان میں سے 12 اقسام ایسی تھیں جو عام طور پر پیکیجنگ، بوتلوں، کپڑے، رسی اور بہت سے مینوفیکچرنگ کے عمل میں پائی جاتی ہیں خواتین کے مقابلے میں مرد مریضوں میں مائیکرو پلاسٹک کی تعداد کافی زیادہ تھی۔

تحقیق میں شامل ایک محقق لورا ساڈوفسکی کا کہنا تھا کہ ہمیں پھیپھڑوں کے نچلے حصوں میں سب سے زیادہ ذرات یا اس سائز کے ذرات ملنے کی توقع نہیں تھی۔

تحقیق سے پتہ چلا کہ پھیپھڑوں کے اوپری حصے میں 11 مائیکرو پلاسٹک، وسطی حصے میں 7 اور پھیپھڑوں کے نچلے حصے میں 21 مائیکرو پلاسٹک پائے گئے جو ایک غیر متوقع دریافت تھی۔

انہوں نے کہا کہ یہ حیرت کی بات ہے کیونکہ پھیپھڑوں کے نچلے حصوں میں ہوا گزرنے راستے چھوٹے ہوتے ہیں اور ہمیں توقع تھی کہ پھیپھڑوں کے اندر اتنی گہرائی میں جانے سے پہلے اتنے بڑے ذرات فلٹر ہوجائیں گے یا پھپھڑوں پھنس جائیں گے۔

مارچ میں محققین نے انسانی خون میں پہلی بار پلاسٹک کے ننھے ذرات کو دریافت کیا تھا ان نتائج سے ثابت ہوا تھا کہ یہ ذرات خون کے ذریعے جسم میں سفر کرسکتے ہیں اور اعضا میں اکٹھے ہوسکتے ہیں ان ذرات سے صحت پر مرتب ہونے والے اثرات کے بارے میں تو ابھی معلوم نہیں مگر لیبارٹری تجربات میں ان ذرات سے انسانی خلیات کو نقصان پہنچنا ثابت ہوچکا ہے اسی طرح فضائی آلودگی کے ذرات کے بارے میں پہلے ہی علم ہے کہ وہ جسم میں داخل ہوکر ہر سال لاکھوں اموات کا باعث بنتے ہیں۔

اس سے قبل لاشوں کے پوسٹ مارٹم کے دوران اس طرح کے نتائج سامنے آئے تھے۔

2021 میں برازیل میں ہونے والی ایسی ایک تحقیق میں 20 میں سے 13 لاشوں کے نمونوں میں پلاسک کے ننھے ذرات کو دریافت کیا گیا۔1998 میں امریکا میں ہونے والی ایک تحقیق میں بھی 100 نمونوں میں پلاسٹک اور کاٹن ذرات کو دریافت کیا گیا تھا۔

اس سے قبل اکتوبر 2020 میں آئرلینڈ کے ٹرینیٹی کالج کی تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ ننھے بچے فیڈنگ بوتلوں کے ذریعے پلاسٹک کے لاکھوں کروڑوں ننھے ذرات نگل لیتے ہیں تحقیق میں زور دیا گیا کہ اس حوالے سے مزید جانچ پڑتال کرنے کی ضرورت ہے کہ پلاسٹک کے ان ننھے ذرات سے انسانوں پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

ایک اور حالیہ تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ پلاسٹک کے ننھے ذرات خون کے سرخ خلیات کی اوپری جھلی سے منسلک ہوکر ممکنہ طور پر آکسیجن کی فراہمی کی صلاحیت کو محدود کرسکتے ہیں۔

Leave a reply