آفتاب جو غروب ہوا ۔۔۔ محمد طلحہ سعید

وہ ہمت جرات غیرت کا پیکر مجسم تھا۔وہ سعادت کی زندگی اور شہادت کی موت کا متلاشی تھا۔وہ نور کرنوں میں لپٹا چہرا ہزاروں دلوں کی امیدوں کا محور تھا۔وہ صحابہ کرام کے رستوں پر چلنے والا ایک مرد مسلم تھا۔وہ خزاں کے دور میں بہار کی آخری امید تھا۔وہ لاکھوں بہنوں ،ماؤں اور بیٹیوں کی عفت و عصمت کا محافظ تھا۔وہ فتح علی بن حیدر علی ٹیپو تھا۔
                          اس نے بچپن سے ہی شیروں سے کھیلنا سیکھا تھا۔اس نے بچپن سے ہی اپنے باپ سے عزت کی زندگی گزارنا سیکھا تھا۔اس نے بچپن سے ہی انگریزوں اور مرہٹوں سے ان ہزاروں لاکھوں خون کے قطروں کا انتقام لینے کا عزم کیا ہوا تھا جو بنگال کی مٹی پی گئی تھی۔اس نے بچپن سے ہی مسلمانوں کو انگریزوں کے خلاف آخری قلعہ سمجھا تھا۔اس نے بچپن سے ہی طاقت و جرات کے غیر معمولی جوہر سیکھے تھے۔
        سلطان کی عمر ابھی کم ہی تھی کہ انہیں ان کے والد نے مختلف محاذوں مرہٹوں اور انگریزوں کے خلاف بھیج دیا۔سلطان معظم کی بہادری اور جرات کے اوپر سارا میسور رشک کرتا تھا۔پھر ایک تاریک رات میں،ایک ٹمٹماتا چراغ بھج گیا۔میسور کی عزت کا محافظ اور سلطان ٹیپو کے والد نواب حیدر علی وفات پاگئے۔جنگی صورتحال تھی۔میسور ایک وقت میں مرہٹوں، میر نظام علی اور انگریزوں کے خلاف مد مقابل تھا۔ایسی صورتحال میں جب حیدر علی وفات پاگئے، میسور کو انتہائ خطرناک نتائج مل سکتے تھے لیکن سلطان فتح علی حیدر ٹیپو کی مدبرانہ پالیسی نے میسور کے گرتے قلعے کو سنبھالا۔
     اس اولوالعزم مجاہد نے ہندوستان کے مسلمانوں کے دور انحتاط میں محمد بن قاسم کی غیرت،محمود غزنوی کے جاہ و جلال اور احمد شاہ ابدالی کے عزم و استقلال کی یاد تازہ کر دی تھی۔ہندوستان کے مسلمانوں پر جب مایوسی و بے بسی چھا رہی تھی، تب سلطان ٹیپو کی ریاست میں امیدوں اور ولولوں کی نئ دنیا آباد ہورہی تھی۔جب ہندوستان پر مسلمانوں کے قلعے مسمار کیے جارہے تھے تب میسور میں سرنگا پٹم، چتل ڈرگ اور منگلور میں سلطنت خداداد کے معمار نئے قلعے اور حصار تعمیر کر رہے تھے۔
                       سلطان ٹیپو کا تمام دور عہد جنگوں میں گزری۔سلطان کے خلاف تین طاقتیں تھی۔مگر جس ایک طاقت سے سلطان لڑنا نہیں چاہتا تھا وہ میر نظام علی کی طاقت تھی۔تاریخ گواہ ہے کہ میر نظام علی ہی وہ حکمران تھا جو مسلمانوں کے چراغ بھجا رہا تھا اور انہیں غلامی کی تاریکیوں میں دھکا دے رہا تھا۔اس حکمران نے اپنے مفاد، فقط اپنے مفاد کیلیے لاکھوں عزتوں کا سودا کیا۔سلطان ٹیپو اس سے اس لیے نہیں لڑنا چاہتے تھے کہ اس کے ساتھ فوج مسلمان تھی۔سلطان ہرگز یہ نہیں چاہتے تھے کہ ان کی فوج کے ہاتھ مسلمان کے خون سے رنگے جائیں۔تاریخ گواہ ہے سلطان معظم نے ہر ممکن کوشش کی کہ اگر ان کا ساتھ حاصل نہ ہوسکے تو کم از کم انہیں میدان جنگ میں نہ لایا جائے۔مگر میر نظام علی کا تو مقصد صرف خزانے بھرنا تھا۔
              بالآخر ٹیپو کی ایک ریاست، تین دشمنوں کے ساتھ محو جنگ ہوئ۔اب یہ ایک فیصلہ کن جنگ تھی۔سلطان ٹیپو اس جنگ کو فتح کرسکتے تھے مگر ایمان فروشوں نے سلطان کی مخبریاں کرکے اسے شکست دلوائ۔میر صادق، پورنیا، میر قمر الدین اور میر معین الدین جیسے غداروں نے صرف میسور کا ہی سودا نہیں کیا تھا بلکہ تمام ہندوستان کے  مسلمانوں کی عزت کا سودا کیا تھا۔تاریخ گواہ ہے کہ اس سودے سے انکے اپنے گھر محفوظ نہ رہے۔جنگ جیتنے کے بعد انگریزوں نے انکی اپنی بہنوں،بیٹیوں کو نہیں چھوڑا تھا۔
                            ٹیپو سلطان 4 مئی 1799ء کو انگریزوں کے خلاف فیصلہ کن معرکہ لڑنے میدان میں آئے۔سلطان نے میسور کے  ہراول دستوں کیساتھ لڑا۔سلطان معظم پر ایک انگریز نے گولی چلائ۔مگر سلطان نے زخم کی فکر نہ کی۔سلطان کے جسم نے خون نکل رہا تھا مگر سلطان معظم اس خون سے سرنگاپٹم کی زمین کو سیراب کرنا چاہتے تھے۔سلطان پر ایک اور گولی لگی اور سلطان پر نقاہت کے آثار ظاہر ہونے لگے مگر وہ لڑتے رہے۔جب زخموں کھ باعث سلطان کی ہمت جواب دینے لگی تو سلطان کے باڈی گارڈ دستے نے سلطان سے کہا "عالی جاہ!اب اس کے سوا کوئ چارہ نہیں کہ آپ اپنے آپ کو دشمن کے حوالے کردیں”
  سلطان نے جواب دیا؛ "نہیں______میرے لیے شیر کی زندگی کا ایک لمحہ گیدڑ کی ہزار سالہ زندگی سے بہتر ہے!”
                              سلطان کے گھوڑے پر ایک گولی لگی تو اس نے گرتے ہی دم توڑ دیا۔گھوڑے کیساتھ گرتے وقت سلطان کی دستار ان سے علحیدہ ہوگئ۔سلطان نے اٹھنے کی کوشش کی مگر ایک گولی سلطان کے سینے پے لگی۔پاس ہی ایک انگریز نے سلطان کی کمر سے مرصع پیٹی اتارنے کی کوشش کی۔لیکن سلطان میں ابھی زندگی کے چند سانس باقی تھے۔انہوں نے یہ توہین برداشت نہ کی۔سلطان نے اچانک اٹھ کر تلوار بلند کی اور پوری شدت کیساتھ اس پر وار کیا۔انگریز نے اپنی بندوق آگے کی۔اس کے ساتھ ہی سلطان کی تلوار ٹوٹ گئ۔اس کے ساتھ ہی ایک اور انگریز نے اپنی بندوق کی نالی کا سرا سلطان کی کنپٹی کے ساتھ لگاتے ہوئے فائر کردیا اور وہ آفتاب جس کی روشنی میں اہل میسور نے آذادی کی حسین منازل دیکھی تھیں، ہمیشہ کیلیے غروب ہوگیا۔اس آفتاب کے روپوش ہونے کے ساتھ ہی ہندی مسلمانوں کے اوپر ایک تاریک دور آگیا۔
                            اگلے روز سلطان کا جنازہ جب محل سے نکلا تو سرنگاپٹم کا ہر بچہ اس جنازے میں شریک ہوا۔ہر چشم سلطان کے غم میں پرنم تھی۔اس روز شدید آندھی کے آثار آسمان پر تھے۔جیسے ہی سلطان کے مقدس جسم کی تدفین ہوئ ویسے ہی بادلوں نے اشک جاری کردیے۔
                       تاریخ گواہ ہے کہ اس دن اتنی بارش ہوئ کہ سرنگاپٹم کی گلیاں بازار ندیوں کا منظر پیش کر رہے تھے۔
                            دیکھنے والوں نے دریائے کاویری کی طغیانی دیکھی۔کاش وہ غدار جنہوں نے قوم کے مستقبل کا سودا کیا تھا، ایک دن اور انتظار کرلیتے تو دشمن کی فوج اسی دریا میں ڈوب جاتی______کاش،
                       سلطان معظم!
                        قوم کی جس آذادی کا آپنے خواب دیکھا تھا،وہ آذادی ایک ایسی قوم کو ملی ہوئ ہے جس کو دنیا پاکستانی کے نام سے جانتی ہے۔جو ریاست میسور آپنے قائم کی تھی، اور جو پورے ہند کے مسلمانوں کی محافظ تھی، آج اس جیسی ایک اور ریاست قائم ہے جسے دنیا پاکستان کے نام سے جانتی ہے۔اور یہ ریاست تمام عالم اسلام کی محافظ ہے۔قوم کے جو رضاکار آپکے قافلے میں شامل تھے، وہی رضاکار اس قافلے میں شامل ہیں۔یہ آفت و مصیبت کے وقت، یہ زلزلے اود سیلاب کے وقت امداد کی ناقابل یقین داستانیں رقم کردیتے ہیں۔اور میدان جنگ میں وہ افواج کے دوش دبدوش لڑتے ہیں۔اگر اس ریاست میں کہیں باغیانہ شعور بیدار ہو تو یہ رضاکار اٹھتے ہیں اور لوگوں کی اصلاح کیلیے چل دوڑتے ہیں۔مصائب جھیلتے ہیں، آہنی چٹانوں کو سر کرتے ہیں، اپنے لوگوں کے طعنے سنتے ہیں مگر آپکی طرح،آپکے رضاکاروں کی طرح،آپکی قوم کی طرح یہ لوگ اپنے حوصلے کم نہیں ہونے دیتے،اپنے منشور میں پیچھے نہیں ہٹتے۔
                         سلطان معظم!
                                       جس طرح آپکی ریاست اہل کفر اور انکے ہاتھوں میں کھیلتے نام نہاد مسلمانوں کی آنکھوں میں کھٹکتی تھی اسی طرح یہ ریاست کفار اور ان کے چیلے نام نہاد مسلمانوں کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح کھٹکتی تھی۔
                                              جس طرح آپ کی فوج کم تعداد ہوتے ہوئے بھی دشمن پر غالب رہتی تھی،اسی طرح اس ریاست کی فوج بھی بہادری کے جوہر دکھاتی ہے۔دشمن یہ سوچ کر ان پر حملہ کرتا ہے کہ یہ سو رہے ہوں گے، مگر یہ بیدار رہتے ہیں اور دشمن کو ایسا سبق سکھا جاتے ہیں کہ وہ کبھی بھول نہ پائے۔
                      سلطان معظم!
                                 جس طرح آپکی ریاست میں غدار تھے جو آپکی ریاست کی بنیادوں کو کھوکھلا کرنے کی کوششیشیں کر رہے تھے اسی طرح اس ریاست میں بھی غدار پائے جاتے ہیں۔کچھ پہلے حکمران بن کر آتے ہیں،کچھ  الگ بھیس میں آتے ہیں-مگر پھر آفریں کہ اس ریاست کی چاک و چوبند افواج اور اس کے ساتھ ساتھ اس ریاست کی عوام ان غداروں کو انجام تلک پہنچاتے ہیں۔
               اس ریاست کے لوگ اے سلطان معظم! آپکو بہت یاد کرتے ہیں۔اس ریاست کے لوگ آپ کو اپنی انسپائریشن سمجھتے ہیں۔اس ریاست کے لوگ آپکے ہی اس قول پر یقین رکھتے ہیں کہ:
  "شیر کی ایک لمحہ کی زندگی،گیدڑ کی ہزار سالہ زندگی سے بہتر ہے۔”
             اللہ سلطان معظم اور انکے ساتھیوں کے درجات بلند فرمائے جو آج کے دن یعنی 4 مئی کو انگریزوں کے خلاف لڑتے لڑتے شہید ہوئے اور ہماری اس ریاست پاکستان میں ان جیسے حکمران پیدا فرمائے۔
اللہ پاکستان کا حامی و ناصر۔
آخر میں علامہ اقبال کے کچھ اشعار:
آں شہیدان محبت را امام
آبروئے ہند و چین و روم شام

نامشں از خورشید و مہ تابندہ تر
خاک قبرش از من و تو زندہ تر

ازنگاہ خواجہ بدر و حنین
فقر سلطان وارث جذب حسین ؓ

Leave a reply