فلم پالیسی کو بہت جلد عملی جامہ پہنایا جائے گا، قائمہ کمیٹی تعاون کرے گی: سینیٹر فیصل جاوید
باغی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق ایوان بالا کی قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات ونشریات کا اجلاس چیئرمین کمیٹی سینیٹر فیصل جاوید کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقد ہوا۔
قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں وزارت اطلاعات و نشریات سے پرائیوٹ چینلز کے اشتہارات کے واجبات کی ادائیگی،میڈیا ورکرز اور صحافیوں کی تنخواہوں کی ادائیگی میں تاخیر کے علاوہ ڈیجیٹل میڈیا ونگ کے کام کے طریقہ کار اور اسٹرکچر، سینیٹر مصدق مسعود ملک کے 8 جون2020 کو سینیٹ اجلاس میں اٹھائے گئے عوامی اہمیت کے معاملہ برائے پاکستان کا غلط نقشہ براہ راست نشریات میں چلانے، سینیٹر رحمان ملک کے 28 ستمبر2018 کو سینیٹ اجلاس میں اٹھائے گئے عوامی اہمیت کے معاملہ برائے پاکستان پیپلز پارٹی کے لیڈر کی الیکٹرانک میڈیا پر کرادر کشی، سینیٹر رحمان ملک کے 14 جنوری2020 کو سینیٹ اجلاس میں اٹھائے گئے عوامی اہمیت کے معاملہ برائے پی ٹی وی ٹاک شوز میں سیاسی جماعتوں کی یکساں نمائندگی، شالیمار ٹی وی کی کارکردگی، پروگرامز اور اسٹرکچر، ڈائریکٹوریٹ آف الیکٹرانک میڈیا اینڈ پبلکیشنز کی کارکردگی کے معاملات کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔
قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں وزارت اطلاعات و نشریات سے پرائیوٹ چینلز کے اشتہارات کے واجبات کی ادائیگی،میڈیا ورکرز اور صحافیوں کی تنخواہوں کی ادائیگی میں تاخیرکے معاملے کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔ سیکرٹری وزارت اطلاعات ونشریات اکبر حسین درانی نے کمیٹی کو تفصیلات سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ معاملہ کیبنٹ میں بھی اٹھایا گیا تھا۔2013 سے2018 تک کی 1.15 ارب روپے ادائیگی میں سے 1.004 ارب روپے ادا کر دیئے گئے ہیں، 99 فیصد ادائیگی ہو چکی ہے۔
کمیٹی کو بتایا گیا کہ متعلقہ ایڈورٹائزنگ ایجنسیاں 15 فیصد کٹوتی کے بعد 85 فیصد متعلقہ میڈیا ہاؤسز کو ادائیگی کر دیتے ہیں۔میڈیا ورکرز کو ادائیگی کے حوالے سے بھی کیبنٹ اجلاس میں تفصیلی جائزہ لیا گیا ہے۔ڈائریکٹر جنرل پی آئی او نے کمیٹی کو بتایا کہ میڈیا ورکرز کی طرف سے تنخواہوں کے حوالے سے شکایات آر ہی تھیں تمام ایڈورٹائزنگ ایجنسیوں سے معاہدہ کرایا ہے کہ جو پیسے دیئے جا رہے ہیں ورکرز کی تنخوہواں کی ادائیگی کی جائے۔
انہوں نے کہا کہ وزیراعظم پاکستان کی طرف سے ایک رعائیت بھی دی گئی تھی کہ اسٹیٹ بنک آف پاکستان آسان اقساط پر قرض فراہم کرے گا، جس پر نامی گرامی نیوز پیپرز کے اداروں نے بھی قرض لیا ہے اور ہم نے تمام میڈیا اداروں کو خطوط بھی لکھے ہیں کہ ورکرز کی تنخواہوں کی ادائیگی کی جائے اور وارننگ بھی دی ہے کہ اگر ورکرز کو تنخواہوں نہیں دی گئی تو آئندہ اشتہار نہیں دیا جائے گا۔
سینیٹر انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ اس حوالے سے جو قانونی سقم ہیں ان کو دور کیا جائے اور میڈیا ورکرز کی تنخواہوں کی ادائیگی کے حوالے سے موثر میکنزم بنایا جائے اور بغیر معاہدے کے ورکرز کو تقرر نہ کیا جائے۔ادائیگی کے عمل کو تیز کیا جائے۔ وزارت اطلاعات ونشریات اس حوالے سے ایف بی آر کے ساتھ اقدامات اٹھائے۔
ڈیجیٹل میڈیا ونگ کے کام کے طریقہ کار اور اسٹرکچرکے حوالے سے کمیٹی اجلاس میں معاملے کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔ چیئرمین کمیٹی سینیٹر فیصل جاوید نے کہا کہ ہمسائیہ ملک ڈیجیٹل کے حوالے سے بہت آگے ہے۔ یہ ڈیجیٹل کا دور ہے۔ پاکستان کے متعلق خبروں کو پوری دنیا میں پہنچانا چاہیے۔
سینیٹر روبینہ خالد نے کہا کہ کمیٹی کو بتایا جائے کہ ادارے کے سسٹم کی ڈیجیٹلائزیشن کیا ہو چکی ہے۔جس پر سیکرٹری اطلاعات و نشریات نے کہا کہ ڈیجیٹلائزیشن کرنا وزارت آئی ٹی کا کام ہے آئندہ اجلاس میں متعلقہ ٹیکنیکل افراد سے کمیٹی کو بریف کرا دیا جائے گا۔ چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ جو معلومات فراہم کی گئی ہیں وہ کافی نہیں ہیں آئندہ اجلاس میں اسٹرکچر، رولز اور کام کے طریقہ کار بارے کمیٹی کو بریف کیا جائے تب تک معاملہ موخر کر تے ہیں۔
سینیٹرمصدق مسعود ملک کے 8 جون2020 کو سینیٹ اجلاس میں اٹھائے گئے عوامی اہمیت کے معاملہ برائے پاکستان کا غلط نقشہ براہ راست نشریات میں چلانے کے حوالے سے کمیٹی اجلاس میں معاملے کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔ سینیٹر مصدق مسعود ملک نے کہا کہ پی ٹی وی قومی ادارہ ہے اور اس چینل پر کچھ ایسی چیزیں نشر کی گئی جو پریشان کن تھیں۔پی ٹی وی کے دو پروگراموں میں پاکستان کے غلط نقشے نشر کیے گئے جس میں آزاد کشمیر کے کچھ علاقوں کو مقبوضہ کشمیر کے ساتھ دکھا یا گیا۔
انہوں نے کہا کہ پی ٹی وی نے سات مختلف تاریخوں میں یہ پروگرام نشر کیے اور سوشل میڈیا پر شدید احتجاج ہونے پر معاملہ اٹھایا گیا، نہ ہی پیمرا نے اس حوالے سے کوئی اقدام اٹھایا۔سینیٹر انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ اگر کسی کو اثر ورسوخ کی وجہ سے بچانے کی کوشش کی گئی تو بہت مشکل ہو گی۔ متعلقہ لوگ لاکھوں میں تنخواہیں لیتے ہیں مگر کارکردگی کچھ نہیں۔ پاکستان کے علاقے کو دشمن ملک کے ساتھ دکھانا بہت بڑا جرم ہے۔
سینیٹر پرویز رشید نے کہاکہ متعلقہ افراد کی کوتاہی کے خلاف پی ٹی وی نے کب نوٹس لیا۔ تفصیلات فراہم کی جائیں۔ جس پر ایم ڈی پی ٹی وی عامر منصور نے قائمہ کمیٹی کو تفصیلات سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ ایک پروگرام میں ایک بچہ نقشے کی افادیت سے آگاہ کر رہا تھا اور آبادی کے تناظر میں غلط نقشہ دکھایا گیا۔ پروڈیوسر نے ایس او پیز پر عملد رآمد نہ کرتے ہوئے اس کو 28 اکتوبر کے پروگرام میں پی ٹی وی ہوم پر نشر کر دیا۔ 5 جون کو یہ پروگرام پی ٹی وی نیو ز پر چلایا گیا، پھر رات کو لیٹ دوبارہ نشر ہوا۔ اگلے ہی دن اس کا نوٹس لیا گیا اور ایک جائزہ کمیٹی بنائی گئی جس کی سفارشات کی روشنی میں دو افراد کو نوکری سے فارغ کیا گیا اور تین افراد کو وارننگ لیٹر جاری کیے گئے۔
جس پر اراکین کمیٹی نے سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جب جرم ایک ہے اور کوتاہی کا ارتکاب کیا گیا تو سزا بھی یکساں ہونی چاہیے تھی، امتیازی سلوک کیوں اختیار کیا گیا ہے۔جن لوگوں نے پروگرام بنایا انہیں وارننگ دی گئی اور جنہوں نے دوبارہ ٹیلی کاسٹ کیا انہیں فارغ کر دیا گیا۔
اراکین کمیٹی نے کہا کہ جو انکوائری رپورٹ کیبنٹ کو فراہم کی گئی ہے وہ قائمہ کمیٹی کو فراہم کی جائے اور دونوں پروگراموں کے متعلقہ تمام افسران کو انکوائری میں شامل کیا جائے۔چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ کمیٹی کے آئندہ اجلاس میں اراکین کمیٹی کے سوالات کے تفصیلی جواب اور پی ٹی وی پروگرام کی مانیٹرنگ سسٹم کے حوالے سے تفصیلی بریف کیا جائے۔
قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں سینیٹر رحمان ملک کی کمیٹی اجلاس میں عدم شرکت کی وجہ سے ان کے ایجنڈے کو آئندہ اجلاس تک موخر کر دیا گیا۔قائمہ کمیٹی کو ڈائریکٹوریٹ آف الیکٹرانک میڈیا اینڈ پبلکیشنز کی کارکردگی، تاریخ، کام کے طریقہ کار،ملازمین کی تعداد اور فنگشنز بارے تفصیلی آگاہ کیا گیا۔
کمیٹی کو بتایا گیا کہ کل منظور شدہ اسامیوں کی تعداد 369 ہے جن میں سے 303 اسامیوں پر لوگ کام کر رہے ہیں۔کمیٹی کو بتایا گیا کہ فلم، میڈیا مانیٹرنگ، حکومتی اشتہارات، بریکنگ نیوز، وزیراعظم اور ورزاء کی نشریات اورٹاک شو کی بھی مانیٹرنگ کی جاتی ہے۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ مختلف اقسام کی پبلیکشنز بھی کی جاتی ہیں جس کیلئے مختلف مصنفوں کا ہائر کیا جاتا ہے۔ سینیٹر رخسانہ زبیری نے کہا کہ اوورسیز پاکستانیوں کی کارکردگی کو بھی مانیٹر کر نا چاہیے۔
چیئرمین کمیٹی سینیٹر فیصل جاوید نے کہا کہ اس ادارے کے کام اور کارکردگی بارے اتنی معلومات عوام کو میسر نہیں ہیں اس کی تشہیر ہونی چاہیے۔ قائمہ کمیٹی ادارہ برائے ڈائریکٹوریٹ آف الیکٹرانک میڈیا اینڈ پبلکیشنز کا دورہ کرکے مزید بریفنگ حاصل کرے گی۔انہوں نے کہا کہ ان تمام افراد کا ڈیٹا مرتب کیا جائے جنہوں نے پاکستان کی بہتری کیلئے کام کیا ہے ان پر کتابیں بھی لکھنی چاہیں اس سے پاکستان کا مثبت امیج اجاگر ہوگا۔انہوں نے کہا کہ یہ ادارہ آن لائن پورٹل بنائے جس میں نوجوانوں کو شامل کیا جائے جو پاکستان کی ہر ممکن مدد کیلئے تیار ہیں۔
چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ میڈیا اور فلم کو انڈسٹری کا درجہ دے کر بے شمار معاملات میں بہتری لائی جاسکتی ہے۔ فلم پالیسی کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں بے پناہ ٹیلنٹ موجود ہے مگر ہماری کسی بھی حکومت نے فلم سکیشن کو سپورٹ نہیں کیا۔فلم انڈسٹری قائم کر کے معاملات میں بہتری لائی جائے گی۔
قائمہ کمیٹی کو شالیمار ٹیلی ویژن نیٹ ورک کے کام کے طریقہ کار، پروگرامز اور اسٹرکچر بارے تفصیلی آگاہ کیا گیا۔قائمہ کمیٹی کو بتایا گیا کہ شالیمار ریکارڈنگ اینڈ براڈ کاسٹنگ 1974 میں کمپنی کے طور پر رجسٹرڈ کیا گیا۔1990 میں شالیمار ٹیلی ویژن نیٹ ورک کے طور پر لائسنس جاری ہوا۔ اس کے 20 نشریات کے اسٹیشن قائم کیے گئے۔1997 میں 12 ٹرانسمیشن اسٹیشن قائم کیے گئے۔ یہ ادارہ حکومت سے کوئی فنڈ حاصل نہیں کرتا اور2005 سے ATV کے نام سے کام کر رہا ہے۔ATV ایک تفریحی چینل ہے جس پر فیملی پروگرامز اور ڈرامے نشر کیے جاتے ہیں۔ پی ٹی وی اور ATV کے ڈراموں کے حوالے سے ایک معاہدہ بھی ہوا۔ کمیٹی نے معاہدہ کے کاپی طلب کر لی۔کمیٹی کو بتایا گیا کہ پی ٹی وی، پی بی سی، پی این سی اے اور پبلک اس کے شیئر ہولڈر ہیں۔7 فیصد شیئر پبلک کے ہیں۔
سینیٹر سید محمد صابر شاہ نے کہا کہ کچھ ٹی وی چینلنز کے ڈرامے بے حیائی اور بے ہودگی پھیلا رہے ہیں۔ پاکستان کے ڈرامے ہماری راوایات اور اقدار کے مطابق ہونے چاہیں۔چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ موجودہ دور کے ڈرامے صرف خواتین کیلئے بنائے گئے ہیں جن میں خواتین کے لڑائی جھگڑے اور سازشیں دکھائی جاتی ہیں۔ہمیں ہماری اسلامی تاریخ کے حوالے سے ڈرامے بنانے چاہیں۔انہوں نے کہا کہ قائمہ کمیٹی ATV کا دورہ کر کے مزید معلومات حاصل کرے گی۔
قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں پی ٹی وی اور اے پی پی ملازمین کو اعزازیہ نہ دینے کے معاملے کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ 2018-19 اور 2019-20 کے اعزازیے کے حوالے سے تین کمیٹیاں قومی اسمبلی، سینیٹ اور قومی اسمبلی کی حکومتی یقین دہانیوں کی کمیٹی بھی معاملے کو دیکھ رہی ہے۔کمیٹی کو بتایا گیا کہ ملازمین کے نام کی فہرستیں فراہم کر دی گئی تھیں۔جس پر اعتراض لگاکر واپس کیا گیا ہے کہ زیادہ لوگوں کے نام شامل کیے گئے ہیں وہ فہرستیں متعلقہ شعبوں کو بھیج دی گئی ہیں اور جلد نئی فہرستیں فراہم کر دی جائیں گی۔
قومی اسمبلی کی کمیٹی برائے حکومتی یقین دہانی کا اجلاس16 ستمبر کو منعقد ہوگا جس میں فہرستیں فراہم کر دی جائیں گی۔ اے پی پی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر نے کمیٹی کو بتایا کہ 2018-19 اور2019-20 کی سات بنیادی تنخواہیں اعزازیہ کا اعلان کیا گیا تھا جو 9 ملین روپے بنتے ہیں ستمبر میں ایک بنیادی تنخواہ دے دی جائے گی ادارہ اپنی آمدن سے یہ ادا کر رہا ہے باقی بھی اقسا ط میں فراہم کر دی جائے گی۔جس پر چیئرمین کمیٹی نے کہاکہ اگر اعلان کیا گیا ہے تو ادا کرنا پڑے گی۔ قائمہ کمیٹی وزارت خزانہ سے فنڈ کے اجرا کیلئے سفارش بھی کرے گی۔
صحافیوں نے کیا پنجاب اسمبلی سمیت دیگر سرکاری تقریبات کے بائیکاٹ کا اعلان
بلاول کا آزادی صحافت کا نعرہ، سندھ میں 50 سے زائد صحافیوں پر سنگین دفعات کے تحت مقدمات درج
فردوس عاشق اعوان نے سنائی صحافیوں کو بڑی خوشخبری جس کے وہ 19 برس سے تھے منتظر
پی ٹی وی میں اچھے لوگوں کو پیچھے اور کچرے کو آگے کر دیا جاتا ہے، ایسا کیوں؟ قائمہ کمیٹی
بسکٹ آسانی سے ہضم ہو جاتا ہے اس کے اشتہار میں ڈانس کیوں؟ اراکین پارلیمنٹ نے کیا سوال
میرے پاس کوئی اختیار نہیں، قائمہ کمیٹی اجلاس میں چیئرمین پیمرا نے کیا بے بسی کا اظہار
تحریک انصاف کے خلاف ن لیگ کے اشتہارات کی ادائیگی کس نے کی؟ فیصل جاوید کا انکشاف
حکومت کے حق میں آرٹیکلز لکھنے پر اشتہارات ملتے ہیں، قائمہ کمیٹی میں انکشاف
قائمہ کمیٹی کا اجلاس،تنخواہیں کیوں نہیں دی جا رہیں؟میڈیا ہاﺅسز کے اخراجات اور آمدن کی تفصیلات طلب
میں نے صدر عارف علوی کا انٹرویو کیا، ان سے میرا جھوٹا افیئر بنا دیا گیا،غریدہ فاروقی
فواد چودھری، تھپڑ کے بعد صحافیوں کو دھمکیاں، ،متنازعہ ترین بیانات،کیا واقعی کرائے کا ترجمان ہے؟
پی ٹی وی کے پاس پرانے کیمرے، سپیئر پارٹس نہیں ملتے،قائمہ کمیٹی اجلاس میں انکشاف
قائمہ کمیٹی کے آج کے اجلاس میں سینیٹرز انوارالحق کاکڑ، سید محمد صابر شاہ، ڈاکٹر غوث محمد خان نیازی، کامران مائیکل،پرویز رشید، روبینہ خالد، انجینئر رخسانہ زبیر ی اور مصدق مسعود ملک کے علاوہ وفاقی وزیر برائے اطلاعات ونشریات سینیٹر سید شبلی فراز، سیکرٹری اطلاعات ونشریات اکبر حسین درانی ، ایم ڈی پی ٹی عامر منظور، چیئرمین پیمرا محمد سلیم، ڈی جی پی آئی او، ڈی جی پی آئی، ای ڈی اے پی پی، کنڑولر ایس آر بی سی اور دیگر اعلیٰ حکام نے شرکت کی
پی ٹی وی سپورٹس پر اینکرز کی دس دس گھنٹے کی تنقید ، قائمہ کمیٹی نے تجزیوں کو غیر معیاری قرار دے دیا