پاکستان کی خودمختاری کا کبھی نہ سودا کیا ہے اور نہ کریں گے، شاہ محمود قریشی

0
53

ہم آگ لگانے نہیں آگ بجھانے میں اپنا کردار ادا کریں گے، شاہ محمود قریشی

باغی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق قومی اسمبلی میں مشرق وسطیٰ کی صورتحال پر پالیسی بیان اور مسلم لیگ (ن) کے خواجہ محمد آصف کی طرف سے اٹھائے گئے نکات کا جواب دیتے ہوئے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ خواجہ آصف خود اس عہدے پر تعینات رہے ہیں اور وہ اتنے بے خبر ہیں جس پر انہیں حیرت ہوئی ہے۔ پاکستان کی حکومت نے پاکستان کی خودمختاری کا کبھی نہ سودا کیا ہے اور نہ کرے گی۔ مسلم لیگ ن کے دور میں جو کچھ ہوا وہ سب جانتے ہیں۔ ہماری سمت واضح ہے۔

شاہ محمود قریشی نے مزید کہا کہ ہماری توجہ ہمسایہ ممالک پر ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ جب تک پڑوس میں امن و استحکام نہیں ہوگا ہماری اقتصادی ترقی اور استحکام کو یقینی نہیں بنایا جاسکتا۔ موجودہ حکومت نے 72سالوں سے چلے آرہے مسئلہ کشمیر کو بین الاقوامی فورم پر اجاگر کیا۔ وزیراعظم عمران خان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اس مسئلے کو شد و مد سے اٹھایا۔ 12 دسمبر کو میں نے سلامتی کونسل کے صدر کو اس ضمن میں ایک مکتوب بھی لکھا ہے۔ موجودہ حکومت نے افغانستان کے معاملے پر دنیا کو قائل کیا ہے کہ اس مسئلے کا فوجی حل نہیں ہے بلکہ سیاسی تصفیہ ہونا چاہیے اور دنیا قائل ہوئی ہے جس کے بعد گفت و شنید شروع ہوئی اور معاملات منطقی انجام تک آگے بڑھ رہے ہیں۔ سیاسی مفادات اور جملہ بازی کے لئے ملکی مفادات کے خلاف بات کرنے سے گریز کیا جانا چاہیے۔

شاہ محمود قیرشی نے مزید کہا کہ سی پیک پر قوم کی آنکھوں میں دھول نہ جھونکی جائے۔ یہ چین کی دیرینہ خواہش تھی اور اس میں پاکستان کا مفاد بھی ہے۔ موجودہ حکومت اس پر پیشرفت کر رہی ہے۔ سی پیک پر ہونے والی پیشرفت پر چین کی حکومت اور قیادت کو اعتماد ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے چین کا دورہ بھی کیا ہے۔ کوالالمپور میں ہونے والے اجلاس میں عدم شرکت کے معاملے پر پہلے بھی وضاحت دی جاچکی ہے۔ آج پھر وضاحت کرتے ہیں کہ یہ سمٹ ڈاکٹر مہاتیر محمد نے پہلے اپنی این جی اوز کے ذریعے چلائی جب وہ وزیراعظم بنے تو انہوں نے اسے باضابطہ بنانے کی خواہش کا اظہار کیا اور کہا کہ تین چار مسلمان ممالک اپنے وسائل بروئے کار لاتے ہوئے دوطرفہ معاونت سے اسے آگے بڑھا سکتے ہیں۔ اس ضمن میں اسلامو فوبیا اور اس سے منسلک خطرات کا بھی ذکر ہوا اور اس بات پر اتفاق ہوا کہ اس کا تدارک ہونا چاہیے۔

شاہ محمود قریشی کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان کے بعض دوستوں کو جو امہ کا حصہ ہیں‘ انہیں قائل کرنے کے لئے وقت درکار تھا۔ یہ دوست سمجھ رہے تھے کہ اس سمٹ سے امہ تقسیم ہو جائے گی۔ پاکستان نے اس غلط فہمی کو دور کرنے کی مقدور بر کوششیں کیں اور ہم نے اپنا کردار موثر طریقے سے ادا کیا۔ ہم نے مصلحت کا راستہ اختیار کیا ہے۔ ڈاکٹر مہاتیر محمد کو پاکستان کے فیصلے پر کوئی اعتراض نہیں اور نہ ہی ترکی کو کوئی اعتراض ہے۔ ترکی کے صدر عنقریب پاکستان کا دورہ کریں گے۔ اس وقت مشرق وسطیٰ کے خطے میں جو کشیدگی اور نازک صورتحال ہے وہ اس پر ایوان کو اعتماد میں لینا چاہتے ہیں۔ یہ پورے خطے کا چیلنج ہے۔ جس قسم کی آوازیں سنائی دے رہی ہیں اس کے اثرات خطے سے باہر تک جائیں گے۔ ہمیں ایک باوقار راستے کا تعین کرنا ہوگا۔ مشرق وسطیٰ میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کی ایک تاریخ اور یہ تاریخ کئی تنازعات کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔ جنرل قاسم سلیمانی کے جاں بحق ہونے کے بعد واقعات تیزی سے رونما ہو رہے ہیں اور صورتحال ابھی بن رہی ہے ۔ اونٹ نے کس کروٹ بیٹھنا ہے یہ ابھی طے ہونا ہے۔ ہمیں صورتحال پر گہری نظر رکھنی ہے۔ یہ مسئلہ ہمارا پیدا کردہ نہیں لیکن ہم اس سے متاثر ہو سکتے ہیں۔ ملک اور قوم کو جنگ کی چنگاریوں سے محفوظ کرنا ہماری اولین ترجیح ہے۔ اس ضمن میں اگر اپوزیشن کے پاس کوئی تجاویز ہیں تو وہ ملکی مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے پیش کریں‘ ہمیں خوشی ہوگی۔

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان صورتحال میں خاموش نہیں ہے۔ تین تاریخ کو جو کچھ ہوا اس صورتحال کے تناظر میں ہم نے پڑوسی مسلمان ممالک کے ساتھ رابطے کئے۔ ایران ہمارا برادر پڑوسی ملک ہے جس نے کشمیر پر بھی آواز اٹھائی۔ میں نے پہلا فون ایران کے وزیر خارجہ کو کیا اور انہیں پاکستانی قوم کے جذبات اور تاثرات اور حکومت پاکستان کا موقف پہنچایا۔ ایرانی وزیر خارجہ کے ساتھ بات چیت میں بھارت کی جانب سے غلط فہمیاں پیدا کرنے کی کوششوں کو درست کرنے کی کوشش بھی کی گئی۔ ایرانی وزیر خارجہ نے پاکستان کے حوالے سے کسی قسم کے منفی جذبات کا اظہار نہیں کیا۔ پاکستان نے کوئی سودا نہیں کیا ہے اور نہ ہی کوئی سودے بازی کی ہے۔ ہم ایسا کوئی قدم نہیں اٹھائیں گے جس سے پاکستان اور قوم کو شرمندگی ہو۔ ان کی متحدہ عرب امارات کے وزیر خارجہ سے بھی بات چیت ہوئی۔ امارات کے وزیر خارجہ بھی کشیدگی کو کم کرنے اور معاملات کو حل کرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ ترکی کے وزیر خارجہ سے بھی اس ضمن میں بات چیت ہوئی ہے۔

شاہ محمود قریشی کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان تنہا کوئی حکمت عملی اختیار نہیں کر سکتا۔ ہمیں خطے کے ممالک کے ساتھ مل کر معاملات کو سلجھانے کی کوشش کرنا ہوگی۔ صورتحال نازک ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے بھی کہا ہے کہ اگر فریقین نے ضبط و تحمل کا مظاہرہ نہیں کیا تو خطے میں جنگ ہو سکتی ہے۔ ہم نے واضح کردیا ہے کہ ہم کسی صورت کسی دوست یا ہمسایہ ملک کے خلاف استعمال ہونے کی اجازت نہیں دیں گے۔ یہ ہمارا موقف ہے۔ ہم آگ لگانے نہیں آگ بجھانے میں اپنا کردار ادا کریں گے۔ ہم یکطرفہ اقدام اور طاقت کے استعمال کے خلاف ہیں۔ ہم عالمی قوانین اور اقوام متحدہ کے چارٹر کا احترام چاہتے ہیں۔ امریکہ کی حکومت وہاں کے لوگوں نے منتخب کی ہے۔ ان کا مائنڈ سیٹ سب کے سامنے ہے۔ اوباما ایڈمنسٹریشن سے موجودہ امریکی ایڈمنسٹریشن کی سوچ مختلف ہے۔ فرانس‘ جرمنی اور برطانیہ سمیت یورپی یونین نے بھی تشویش کا اظہار کیا ہے۔ امریکہ کی سوچ یہ ہے کہ ہم نے حفظ ماتقدم کے طور پر یہ اقدام کیا ہے اور یہ بھی کہتے ہیں کہ ہم بات چیت کے لئے تیار ہیں۔ ساتھ یہ بھی کہتے ہیں کہ ایران نے کسی بھی ردعمل کا اظہار کیا تو سخت کارروائی کریں گے۔ تناﺅ بڑھ جانے سے تیل کی قیمتوں اور عالمی معیشت پر اثر ہوگا۔ ہم محسوس کرتے ہیں کہ یہ حملہ بہت سنجیدہ معاملہ ہے اور خطے کے امن پر اس کے منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ عراق اور شام مزید عدم استحکام کا شکار ہو سکتے ہیں۔ افغان امن عمل متاثر ہو سکتا ہے۔ حوثی باغی پھر متحرک ہوسکتے ہیں اور دوست ملک پر پھر حملے کر سکتے ہیں۔ ہمیں اس معاملے کو سنجیدگی سے لینا ہوگا ورنہ خطے میں بڑے پیمانے پر قتل وغارت ہوگی۔ اس سارے معاملے کی پیچیدگیوں کو ہمیں سمجھنا ہوگا۔

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا مزید کہنا تھا کہ پاک فوج نے قومی اتفاق رائے کے بعد دہشت گردی کا جوانمردی سے مقابلہ کیا اور اعداد و شمار کہتے ہیں کہ2019ءکا سال دہشت گردی کے حوالے سے 2006ءکے بعد سے لیکر اب تک سب سے پرامن سال رہا ہے۔ ہم کشمیر کے حوالے سے او آئی سی کو یکجا کرنا چاہتے ہیں۔ اس واقعہ سے ہمارا یہ اقدام بھی متاثر ہو سکتا ہے۔ ایل او سی پر مسلسل فائرنگ ہو رہی ہے۔ قیمتی انسانی جانوں کا ضیاع ہو رہا ہے۔ 2019ءکے سٹیزن ایکٹ نے پورے بھارت میں آگ لگا دی ہے۔ بھارت اس صورتحال سے توجہ ہٹانے کے لئے کسی مہم جوئی کا اقدام اٹھا سکتا ہے۔ ہمیں تمام چیلنجز اور پیچیدگیوں کو مدنظر رکھنا ہوگا۔ کسی بھی قسم کا عدم استحکام پاکستان کے مفاد میں نہیں ہوگا۔ ہم اس معاملے کو ٹھنڈا کرنے کے لئے سفارتی سطح پر آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔

واضح رہے کہ بغداد ایئر پورٹ پر امریکی فضائی حملے میں ایرانی جنرل سمیت 9 افراد ہلاک ہو گئے، فضائی حملے میں ہلاک جنرل قاسم سلیمانی القدس فورس کے سربراہ تھے، عراقی میڈیا کا کہنا ہے کہ دیگر ہلاک شدگان میں ایران نواز ملیشیا الحشد الشعبی کا رہنما بھی شامل ہے۔

بغداد میں امریکی حملے پر ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف نے ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ جنرل سلیمانی پر حملہ عالمی دہشت گردی ہے، امریکا کو اس حرکت کے نتائج بھگتنا ہوں گے۔ ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف نے اس حملے کو عالمی دہشت گردی قرار دیا ہے۔ ایران نے انتقام لینے کا اعلان کیا ہے، عراق نے بھی امریکا کی فوج کے انخلا کی قرار داد منظور کر لی ہے جس پر امریکہ نے عراق کو بھی دھمکی دی ہے، پاکستان نے خطے میں امن کے لئے بات چیت سے معاملہ حل کرنے کا کہا ہے، دیگر ممالک نے بھی بات چیت پر زور دیا ہے،

امریکی حملے میں ایران کے قاسم سلیمانی،عراقی ملیشیا کے کمانڈر جاں بحق، ایران نے دیا امریکہ کو سخت ردعمل

قاسم سلیمانی کو ٹرمپ کی ہدایت پر مارا گیا، پینٹا گون، ٹرمپ نے کیا کہا؟

ایرانی جنرل کو مارنے کے بعد امریکہ نے دی شہریوں کو اہم ہدایات

جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت، امریکہ نے خطے کا امن داؤ پر لگا دیا، ایسا کس نے کہا؟

ایرانی جنرل پر امریکی حملہ، چین بھی میدان میں آ گیا، بڑا مطالبہ کر دیا

تیسری عالمی جنگ، امریکا کے خطرناک ترین عزائم، سابق امریکی وزیر خارجہ کے انٹرویو نے تہلکہ مچا دیا

امریکا کے ایرانی جنرل قاسم سلیمانی پر حملے میں ہلاکت کے بعد مشرق وسطیٰ کے حالات کشیدہ ہیں، ایران نے انتقام لینے کی دھمکی دی ہے، امریکی صدر ٹرمپ بھی دھمکی آمیز بیانات دے رہے ہیں، امریکی وزیر خارجہ نے پاکستان اور سعودی عرب سے رابطہ کیا ہے، چین ،پاکستان نے دونوں ممالک کو پرامن رہنے کی اپیل کی ہے اور بات چیت سے معاملہ حل کرنے کا کہا ہے،اسرائیل بھی ہائی الرٹ ہے، امریکا نے چوبیس گھنٹے میں بغداد پر دوسرا حملہ بھی کیا ہے

مشرق وسطیٰ جنگ کی طرف، ہائی پروفائل قتل کا امکان،سعودی عرب پر بھی حملہ ہو سکتا ہے، قریشی

Leave a reply