انسان کواشرف المخلوقات کیوں کہا جاتا ہے تحریر: فروا منیر

انسان کواشرف المخلوقات کیوں کہا جاتا ہے تحریر: فروا منیر

انسان کو  اشرف المخلوقات کہا جاتا ہے کیونکہ انسان اور باقی تمام مخلوقات  میں واضح فرق فہم و فراست کا ہے۔

دنیا میں کم و بیش 18 ہزار مخلوقات ہیں ان میں سے انسان کو سب سے افضل بنایا گیا ہے انسان کو اشرف المخلوقات (سب مخلوقات میں سب سے اعلی) کہا گیا ہے۔ انسان کو دنیا میں بھیج کر اللہ پاک نے فرشتوں سے کہا میں نے روح زمین پے اپنا خلیفہ بھیجا ہے اور پھر اللہ پاک نے فرشتوں سے انسان کو سجدہ کرایا۔ وہ انسان آج اللہ پاک کے ہر حکم ہر بات کا انکار کر رہا ہے  جو انسان ایک سانس کا بھی محتاج ہے ایک سانس اندر لے تو اس کو یقین نہیں وہ باہر نکال سکے گا یا نہیں یوں تو  جانوروں کو دیکھا جائے تو وہ بھی کھاتے ہیں ، پیتے ہیں اور سوتے ہیں  مگر فرق  شعور کا ہے وہ شعور  جو انسان کے پاس  موجود ہے-

سورۃا لتین کی چوتھی آیت میں ارشاد ہے-
  لقد خلقنا السان فی احسن تقویم
"بلاشبہ انسان کو بہترین ساخت پر پیدا کیا گیا ہے”-

قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے خلیفہ کی اصطلاح انسان کیلئے عمومی طور پر استعمال کی ہے قرآن پاک کی آیت کا مفہوم ہے اللہ تعالیٰ فرشتوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ میں زمین پر اپنا خلیفہ بنانے جا رہا ہوں، تو اس کا ایک مفہوم تو یہ ہوا کہ ہرانسان عمومی طور پر اللہ تعالیٰ کا خلیفہ اور نمائندہ ہے۔ اسے لازمی طور پر اپنے اللہ کی عبادت اور اطاعت کرنی ہے اوراسکے احکام اپنے اوپر نافذ کرنے ہیں۔ پہلے احکامِ الٰہی خود اپنی ذات پر نافذ کرے، پھر اپنے زیر کفالت بیوی بچوں پر انہیں لاگو کرے، پھر اپنے اہل خانہ میں، پھر اپنے قرب و جوار میں دیکھے، اپنے علاقہ میں جہاں تک اس کی رسائی اور اثر ورسوخ ممکن ہو وہ اس کا پابند ہے کہ وہاں تک اپنے رب کے احکامات پہنچائے اور انہیں نافذ کروانے کی سعی کرے۔ عمومی خلیفہ اور خدا کا نمائندہ ہونے کے ناطے یہ فرداً فرداً ہر انسان کی بنیادی ذمہ داری میں شامل ہے۔

اللہ تعالی نےفرشتوں، جنوں اور انسانوں کو اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا اگر بات کی جائے انسان کی کیا صرف انسان کا دنیا میں آنے کا مقصد  صرف  اللہ تعالی کی عبادت ہے- ؟؟

اللہ تعالی نے انسان کو عقل و شعور عطا کیا اور اس دنیا میں بھیجا اور  قرآن مجید میں بھی کئی بار  بغور مشاہدہ کرنے کی تلقین کی ہے
انسان کے پاس عقل و شعور ہونا اس کو باقی تمام مخلوقات میں سے افضل بناتا ہے ہے مگر آج کے انسان کی بات کی جائے آئے تو شاید وہ بھول گیا ہے کہ اس کا شماراشرف  مخلوقات میں سے ہے۔

آج کے  اس دور  میں انسان انسان کا دشمن ہے اس دور میں معصوم بچیوں کو درندگی کا نشانہ بنایا جاتا ہے انسان نے تو  انسان بننا تھا تھا مگر افسوس وہ تو سب سے بڑا  درندہ نکلا۔ بھائی بھائی کا دشمن ہے ۔ کہیں جائیداد کے نام پر قتل و غارت کا سلسلہ جاری ہے ہیں تو کہیں غیرت کے نام پر ۔

ایسا محسوس ہوتا ہے  کہ انسانیت تو  تماشا بن کر رہ گئی ہے ہم تو وہ لوگ ہیں جو اسلامی تعلیمات کو بھلا کر یہ توقع کر رہے ہیں ہمیں ریاست مدینہ ملے گی ۔  تفرقوں اور نفرتوں  میں  میں اس قدر تقسیم ہو  کر رہ گئے ہیں  کہ اپنے مقصد  کو بھول چکے ہیں-

جیسا کہ علامہ اقبال نے فرمایا
فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں پر ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پنپنے  کی یہی باتیں ہیں
اللہ تعالی نے انسان کی اصلاح کے لیے ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر بھیجے   اپنی کتاب قرآن مجید کا موضوع بھی انسان کو قرار دیا مگر شاید انسان اس دنیا میں آکر  اس وعدے کو بھول چکا  ہے جو اپنے رب سے کر کے آیا تھا-
اے انسان
تبدیلی چہرے سے نہیں رویوں سے آتی ہے

تھی فرشتوں کو بھی حیرت کہ یہ آواز ہے کیا
عرش والوں پہ بھی کھُلتا نہیں یہ راز ہے کیا!
تا سرِ عرش بھی انساں کی تگ و تاز ہے کیا!
آگئی خاک کی چٹکی کو بھی پرواز ہے کیا!

فروا منیر

Farwawrites1214@gmail.com

Comments are closed.