ڈپٹی اسپیکر زاہد اکرم درانی کی زیرصدارت قومی اسمبلی کا اجلاس ہوا

اجلاس میں اراکین کی شرکت انتہائی کم رہی،3 سال کے دوران ملک بھر میں خواتین کے خلاف جرائم کی تفصیلات قومی اسمبلی میں پیش کر دی گئیں ,3 سال میں خواتین کے خلاف جرائم پر 63ہزار 367 کیس رجسٹر ہوئے، ملک بھر میں 2019 سے 2021 کے دوران 3 ہزار 987 خواتین کو قتل کیا گیا خواتین کے ساتھ زیادتی کے 10 ہزار 517 کیس رجسٹرڈ ہوئے تین سال کے دوران اجتماعی زیادتی کے 643 واقعات ہوئے،خواتین پر تشدد کے 5ہزار 171 واقعات پر مقدمات رجسٹر ہوئے، تین سال کے دوران ایک ہزار 25 خواتین کو غیرت کے نام پر قتل کیا گیا خواتین پر تیزاب پھینکنے کے 103 واقعات ہوئے،گھروں میں چولہے پھٹنے سے جھلسنے کے 38 واقعات ہوئے، ملک بھر میں خواتین کو اغوا کرنے کے 41 ہزار 513 کیس رجسٹر ہوئے،

دوران اجلاس،شیخ روحیل اصغر نے کہا کہ لابی میں متعلقہ سوالات کے جوابات کے لیے کوئی افسر ہے؟ ڈپٹی سپیکر نے استفسار کیا کہ کیا کوئی افسر وزارت توانائی سے لابی میں موجود ہے؟ لابی میں وزارت توانائی کا کوئی افسر بھی موجود نہ ہونے پر ڈپٹی اسپیکر برہم ہو گئے ڈپٹی اسپیکر زاہد اکرم درانی نے سیکریٹری وزارت توانائی کو طلب کر لیا اور کہا کہ آدھے گھنٹے میں سیکر یٹری توانائی نہ آئے تو ان کے خلاف کارروائی کریں گے، شیخ روحیل اصغر نے کہا کہ کوئی افسر نہیں اورنہ ہی کوئی وزیر ہے،

ایاز میر کے بیٹے کی خوفناک درندگی :سارہ انعام ،کینیڈین شہری،دبئی آئی،گاڑی خریدی ،مگرپھرکیاہوا؟ہولناک انکشافات

ایاز امیر کی بہو کا پوسٹمارٹم مکمل،سارہ کے قتل کی وجہ کا تعین نہ ہوسکا

پہلے مارا، گھسیٹ کر واش روم لے گیا،ایاز امیر کے بیٹے نے سفاکیت کی انتہا کر دی

سر پر ڈمبل مارا،آلہ قتل بھی خود برآمد کروایا،ایاز امیر کے بیٹے کیخلاف مقدمہ درج

قومی اسمبلی اجلاس میں وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ رستے ہوئے زخموں کو نظر انداز کرنا نقصان دہ ہے معاملات کا سیاسی حل نہیں نکالا جاتا تو یہ بہت گھمبیر ہوگا ،خوشی کی بات ہے سوات کے لوگ اکٹھے ہوئے ہیں سوات میں لگی آگ مجھ سمیت سب کے دامن تک پہنچ سکتی ہے،مسئلہ 50 کی دہائی سے شروع ہے ، بوجھ کو کب اپنے کندھوں سے اتاریں گے ایشوز کے حل کے لیے ہمیں سر جوڑ کر بیٹھنا چاہیے، سوات میں 13 سال بعد وہی سلسلہ شروع ہوگیاہے بلوچستان میں 50 کے دہائی سے ایک سلسلہ شروع ہوا، پھر سمجھوتے ہوئے، میں نے بلوچستان کی حکومت پر نقطہ چینی کی جسارت بھی کی تھی ہم بلوچستان گئے تو کہا گیا آپ کو نقطہ چینی نہیں کرنی چاہیے تھی،ہاؤس نے قانونی اور آئینی طریقے سے ایک حکومت کو ہٹایا،جن کی حکومت ہٹائی گئی وہ شخص ریاست کو یرغمال بنانا چاہتا ہے،سب کے ذمہ کوئی نہ کوئی گناہ ہے، اسے ماننا چاہیے، جو کہہ رہا ہوں وہ سنجیدہ ہے،ہاؤس کو بھی سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا چاہیے،ہم نے فاش غلطیاں کیں، حل ڈھونڈا جاسکتا تھا زخم بہہ رہا ہے، اس پر مرحم رکھنے کی ضرورت ہے، علاج کی ضرورت ہے، پاکستان کے قیام کے ایک ڈیڑھ سال بعد ایک مختلف رائے کو تسلیم نہیں کیا گیا، لیاقت باغ میں فائرنگ کے بعد لوگ دوسرے صوبوں میں چلے گئے، ایسی ہی صورتحال بلوچستان میں کئی دہائیوں سے ہے، اس کا حل ڈھونڈنا چاہیے سوا تین کروڑ پاکستانی کھلے آسمان تلے زندگی گزار رہا ہے،انہیں نہیں پتہ یہ زندگی کہاں لے جائے گی، سب کچھ لٹ چکا ہے، ملک کے موجودہ مسائل پر ہم سب کو مل کر کام کرنا ہوگا،

Shares: