اچھی زبان تھوڑا سا وقت…از.ساجدہ بٹ

0
73

آج کل ہم اپنی زندگیوں میں کس قدر کھو گئے ہیں کہ کسی دوسرے انسان کا ہمیں خیال ہی نہیں بس خود کے لیے جیتے ہیں۔
اسی لیے تو معاشرہ آج کل افرا تفری کا شکار ہے ہم بھول بیٹھے ہیں کہ مرنا بھی ہے اور جو مال و دولت اکٹھی کر رہے ہیں یہ سب دُنیا میں رہ جائے گی۔

ہمیں تو فخر ہونا چاہیے کہ ہم مسلمان ہیں اور ہماری اسلامی تعلیمات کس قدر اعلیٰ ہیں
آئیے ذرا آج بات کرتے ہیں حسن معاشرت پر۔۔۔۔۔۔۔

معاشرت ،باہم مل جل کر رہنے کو کہتے ہیں اور حسن معاشرت کا معنی ہے زندگی گزارتے ہوئے ایک دوسرے ساتھ نہایت عمدہ سلوک روا رکھنا۔

ایک دوسرے کے ساتھ مل کے زندگی گزارتے ہوئے اعلٰی اخلاق کا مظاہرہ کرنا۔

ایثار،خدمت،خیر خواہی،نیکی کے کاموں میں تعاون،ایک دوسرے کے لیے حُسنِ ظن رکھنا اور اس طرح کی دیگر اعلیٰ اقدار پر عمل کرتے ہوئے زندگی گزارنا۔

اسلام نے حُسنِ معاشرت کے قیام کے لیے احسان کی روش اختیار کرنے کو بنیاد بنایا ہے
احسان یہ کہ دوسرے کی ضروریات کا خود احساس کریں اس کی ضرورت کو خود محسوس کریں اور یہ سوچے بغیر کہ اس کی مدد کرنا ہماری زمداری تھی یا نہیں ۔۔۔۔۔
ہم ہم اس کی مدد کے لیے آگے بڑھیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہمارے پیارے محبوب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا

٫٫تم لوگوں کی دیکھا دیکھی کام کرنے والے نا بن جاؤ تم لوگوں نے اچھا سلوک کیا تو ہم بھی اچھا کریں گے اور اگر انہوں نے زیادتی کی تو ہم بھی زیادتی کریں گے بلکہ تم زیادتی نہ کرو
حُسنِ معاشرت کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ
معاشرتی زندگی میں الزام تراشی سے بچا جائے۔
الزام تراشي ایسی چیز ہے جو معاشرتی اور ذہنی سکون کا خاتمے کا سبب بنتی ہے
ہمارا عام رویہ ہے کہ ہم الزام لگانے میں بڑے بے باک ہو جاتے ہیں اور ہمارے ذہن سے یہ بات بالکل نکل جاتی ہے کہ اس سے کسی کی عزت پر کتنا منفی اثر پڑے گا۔
پھر یہ اِلزام تراشی اگر جنسی زندگی سے متعلق ہو تو معاملہ مزید سنگین ہو جاتا ہے۔اس سلسلے میں اسلام نے ہمیں بے اعتدالی سے بچانے کے لئے قذف کی سزا مقرر کی ہے۔
اس کی حکمت یہ ہے کہ اسلام نہیں چاہتا کہ جنسی زندگی اور بے حیائی کی گُفتگو لوگوں کی محفلوں کا موضوع ہو۔

اسی طرح حسن معاشرت کے حوالے سے اسلام نے بہت سی ہدایات دی ہیں
جیسے ایک دوسرے کے ہاں کھانے پینے سے باہم محبت پیدا ہوتی ہے

*اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآنِ مجید میں ارشاد فرمایا۔۔۔۔۔

لیس علیکم جناح ان تاکلوا جمعیا او اشتا نا
ترجمہ:
تم مل کر کھاؤ یا اکیلے اکیلے کھاؤ اس میں تم تم پر کوئی گناہ نہیں،،

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا

مل کر کھاؤ تنہا نہ کھاؤ برکت مل کر کھانے میں ہے
لیکن آج کل ہم کُچھ زیادہ ماڈرن ہو گئے صبح ناشتے کے لئے گھر کے افراد ہی اپنی زندگی میں اس قدر مصروف ہو گئے ہیں کہ جدید دور میں باپ الگ ناشتہ کرتا ہے۔
بچے الگ کرتے ہیں ایسا کیوں ہے؟؟؟؟؟؟؟
پھر عزیز و اقارب کی دعوت میں بھی ہم تکلف کا شکار ہیں۔
یا پھر ہم اپنے برابر کے لوگوں کی دعوت کرتے ہیں وہ بھی اپنے سٹیٹس اونچا کرنے کے لیے۔۔
افسوس کہ ہم ہر کام ہی محض اپنے لیے کرتے ہیں ۔
اللہ تعالی کی رضا کے لیے ہم کُچھ نہیں کرتے۔

پھر اسی طرح ہم بزرگوں کے ساتھ کس طرح کا رویہ اختیار کرتے ہیں؟؟؟
اپنے گھر کے بزرگوں کو کتنا وقت دیتے ہیں دیگر ہمارے سامنے کتنے عمر رسیدہ بزرگ ہمارے محلے گلی بازار،ہمسائیوں میں ملتے ہیں اُن سے ہمارا رویہ کیسا ہے؟؟؟؟؟
یقینا۔۔۔۔۔۔۔
بُرا رویہ
وہ اس طرح کے ہم اُنھیں وقت نہیں دیتے اُن سے مل بیٹھ کے بات نہیں کرتے انکی سنتے نہیں۔
بس اپنی سناتے ہیں ہم سمجھتے ہیں کہ چار جماعتیں پڑھ کر ہم بڑے سمجھدار اور پتہ نہیں سکولر بن گئے ہمیں کیا ضرورت ان کی نصیحتوں کی۔۔۔۔۔۔
ایسا بلکل نہیں یقین مانیے جو سکون اطمینان بزرگوں کے سائے میں ہے وہ کہیں نہیں
نا کسی سینما میں نا کسی فلم اور ڈراما میں اور نا ہی دوستوں کی فضول محافل میں بیٹھنے سے ہے۔

یہ تحریر لکھتے ہوئے مجھے اپنے یونیورسٹی کے ایک بہت قابل ٹیچر سر مختار صاحب ہیں اُن کی بات یاد آگئی۔
وہ ہمیں کچھ بھی پڑھاتے تو ساتھ کہا کرتے تھے۔

بیٹا میں مثال دیتا ہوں مثال سے بات سمجھ آتی ہے،،،
وہ مثال دیا کرتے تھے اور ہمیں واقعی ہی سمجھ آ جاتی تھی۔
میں بھی یہاں مختصر سا ایک واقع بیان کرنے کی کوشش کرتی ہوں شاید قارئین کو میری بات بھی سمجھ آجائے
میں اپنی آپ بیتی کہانی سناتی ہوں۔
مجھے دراصل بزرگوں سے کہانیاں سننے کا شوق ہے تاریخی واقعات جو ان سے پیش آئے ہوں وہ دلچسپی سے سنتی ہوں۔
اپنی امی ابو سے کہانیاں سننے کی عادت ابھی بھی ہے۔
ایک دن ایسا ہوا کہ میں ہمسائیوں کے گھر گئی ویسے ہی فارغ تھی سوچا اُن سے مل آؤں۔
اُن کے گھر کے افراد میں دو بچے اور اُن کی ماں رہتے ہیں اور شوہر کام کے سلسلے میں گاؤں سے دور رہتے ہیں۔
اس لیے میں کبھی کبھی چلی جاتی ہوں چونکہ وہ میری ہم عمر ہے تو اچھی گپ شپ ہو جاتی ہے۔
ایک دن ایسا ہوا کہ میں گئی اُن کے ہاں تو اس بہن کے والدین آئے ہوۓ تھے جو کہ کافی عمر رسیدہ بزرگ تھے۔
بہن کے والد صاحب تقریباً 80 برس کے تھے اُن کی نظر بھی کمزور اور سماعت بھی کمزور تھی۔
مجھے چونکہ کہ بزرگوں سے بات چیت کرنے میں کہانیاں سننے میں مزا آتا ہے۔
تو حسب معمول اُن سے بھی حال احوال پوچھنے لگی۔۔۔۔
بات چیت کرنے کے بعد محسوس ہوا وہ کافی پریشان ہیں بیٹوں کے تلخ رویے کے وجہ سے اور اُن کا اپنے والدین کو وقت نا دینا۔
اُنھیں تکلیف دیتا ہے۔
خیر چلو یہ بات ایک طرف رہی۔
وہ جتنے دِن یہاں رکے میں روز جاتی اُن سے ملتی کوئی واقع کوئی کہانی کوئی اسلامی بات سُننے کی فرمائش کرتی۔
یقین مانیے میں الفاظ میں بتا نہیں سکتی کہ مجھے کس قدر دلی سکون ملتا اُن کو خوش دیکھ کے۔
وہ بڑے شوق سے باتیں سناتے کبھی قرآن کریم میں موجود واقعات سناتے کبھی قیامت کا ذکر ہوتا۔
کبھی جنگوں کا ذکر کرتے۔
وہ مجھے ڈھیر ساری دعائیں دیتے اور خوش ہوتے ۔
ایک دن گھر کی مصروفیات کی وجہ سے میں اُن کے گھر نا جا سکی۔
انہوں نے باقاعدہ اپنی بیٹی کو بھیجا کہ

وہ بیٹی جو روز آتی ہے آج کیوں نہیں آئی اُسے بلا کے لاؤ اُس کی خیریت معلوم کرو وہ ٹھیک تو ہے۔
پھر اب جب وہ واپس اپنے گھر چلے گئے وہاں جا کر بھی اپنی بیٹی سے میری خیریت معلوم کرتے ہیں ڈھیر ساری دعائیں دیتے ہیں جی خوش ہوتا ہے سن کے
بات ذرا مختصر کرتے ہیں کہ۔
اُن بزرگوں سے بات کر کے محسوس ہوا کہ انہیں کچھ نہیں چاہیئے صرف وقت چاہئے اپنے بچوں کا جو شائد وہ دینا بھول گئے ہیں اور سمجھتے ہیں شاید وہ کبھی بوڑھے نہیں ہوں گے
اُن پہ اس طرح کی کیفیت طاری نہیں ہو گی۔
ایسا نہیں ہے۔۔۔۔۔
بلکہ ہم سب کو اس طرح کے حالات سے گزرنا پڑے گا اگر ہمیں بھی ہمارے بچوں نے کسی فالتو چیز کی طرح پھینک دیا تو کیا ہو گا ہمارے دل پے کیا گزرے گی۔۔۔۔؟؟؟
اور اللہ تعالیٰ کا عذاب اُن لوگوں کے لیے کتنا ہے جو والدین کی نافرمانی کرتے ہیں اُنہیں بے سہارا چھوڑ دیتے ہیں۔
یہ ساری کہانی میں نے اس مقصد کیلئے بالکل بھی نہیں سنائی کہ میں نا چیز کُچھ ہوں۔
محض اس لیے آپ بیتی سنائی کہ بزرگوں کے سائے میں رہنا کس قدر سکون دیتا ہے ہماری پریشانیوں کا حل،ہماری بے چینیوں کا حل بزرگوں کے پاس ہے ۔
اُن بزرگوں کے لیے نہ صحیح ہمیں اپنے لیے ہی سہی لیکن بزرگوں کی محفل میں ضرور بیٹھنا چائیے۔
زندگی گزارنے کے بہترین اصول ہمیں سیکھنے کو ملتے ہیں جو شائد بڑی بڑی کتابوں میں بھی ہمیں نہ ملیں۔۔۔
یہ تحریر لکھنے کا مقصد صرف اتنا سا ہے کہ ہم صرف خود کے لیے نہ جیئیں معاشرے کے لئے جئیں دوسروں کے لیے بھی کُچھ کریں۔
یہ ہی معاشرے کی خوبصورتی ہے اور اسی طرح باہمی میل جول سے معاشرتی حسن پیدا ہوتا ہے اور یہ ہی ہماری اسلامی تعلیمات ہیں۔
تو پھر کیوں نہ آج ہی سے عہد کریں کہ ہم بھی معاشرے کے عظیم انسان بنیں گے، ہم میں بھی انسانیت جاگ جائے اللہ تعالیٰ ہمیں بھی عمل کی توفیق عطا فرمائے آمین ثم آمین یا رب العالمین۔۔۔۔۔

یہ ہی ذوقِ عبادت کی انتہا

کہ غم کے ماروں کا احترام کرو
۔۔۔۔۔۔۔۔

اچھی زبان تھوڑا سا وقت
بقلم: ساجدہ بٹ
(جہد مسلسل)

Leave a reply