بیوروکریسی اور حالات حاضرہ، ابھرتے ہوئے نوجوان کالم نگار کی ایک اور شاندار کاوش
آئینہ از عادل عباس چیمہ
(بیوروکریسی اور حالات حاضرہ)
کافی کچھ ریسرچ کرنے اور مطالعہ کرنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ بیورو کا مطلب محکمہ یا ڈیپارٹمنٹ، کریسی کا مطب ہے راج،یعنی سرکاری محکموں کا راج، محکمے جیسا کہ محکمہ پولیس، محکمہ ریونیو، محکمہ واپڈا، محکمہ صحت، محکمہ تعلیم وغیرہ، محکمہ کوئی بھی ہو یہ کوئی طلسماتی چیز نہیں ہوتا بلکہ یہ مجموعہ ہوتا ہے ان لوگوں کا جنہیں ہم افسر کہتے ہیں اور انکی افسرشاہی کے تمام تر اخراجات ہمارے دئیے ہوئے ٹیکس سے پورے ہوتے ہیں ، ان افسروں کوعوام نے چنا تو نہیں ہوتا مگر سرکاری کاغذوں میں انہیں عوام کا خادم ہی بتایا جاتا ہے مگر عملی زندگی میں یہ عوام کو نہیں بلکہ اپنے سے اوپر والے افسر کو جوابدہ ہوتے ہیں اسی طرح اوپر جاتے جاتے صرف ایک افسر رہ جاتا ہے جسے سیکرٹری کہتے ہیں ہر محکمہ کا سربراہ ایک سیکرٹری ہوتا ہے پھر تمام سیکرٹری مل کر ایک چیف سیکرٹری کے ماتحت ہوتے ہیں یہاں تک یہ سول بیورو کریسی کہلاتی ہے۔
بیوروکریسی ریاست کے تین بنیادی ستون میں سے ایک ہے۔ عام تصوراور تاثریہ ہے کہ بیوروکریسی آئین اوردستور میںطے کردہ ذمہ داریوں کی ادائیگی اور ملک و قوم کی تعمیر و ترقی کیلئے پالیسی اور قوانین کے دیانت دارانہ نفاذ کے بجائے حکمرانوں کا دست و بازو بن کر رہ گئی ہے۔
کوئی بھی نہیں چاہتا کہ بیوروکریسی میں ایسی کوئی اصلاحات ہوں جن سے انکی ‘چودھراہٹ’کو خطرہ لاحق ہوجائے۔
ملک کی ترقی اور جمہوری استحکام کیلئے بیوروکریسی کے طرز عمل کی جامع اصلاح اب وقت کی ضرورت بن گئی ہے۔ افسران کے انتخاب اور تربیت سے لے کر اس کے تمام مراحل اور پورے نظام میں تبدیلی کے ساتھ ساتھ بیوروکریسی کے سیاسی گٹھ جوڑ کو بھی ختم کیا جانا چاہیے۔ تب ہی جا کر بیوروکریسی کے ’ استحصال کا ایجنٹ ‘ والا کردار ختم ہوگا۔
اس وقت میں اپنی لاڈلی بیورو کریسی کے شکوے نہیں کرنا چاہتا عرض یہ کرنی ہے کہ ریاست کے اس نہایت اہم ستون کو مضبوط کرنے کی کوشش بہت ضروری ہے کہ اسے ہی عملاً ملک چلانا ہے اور نئی حکومت کی پالیسیوں کا نفاذ کرنا ہے۔ مگر اب تو اس شعبے میں خرابیاں اتنی بڑھ گئی ہیںاور حالات نے بڑھا دی ہیں کہ اس کو درست کون کرے، کیا اس کو خراب کرنے والے اس کو درست کریں گے مگرکسی نہ کسی کو آغاز تو کرنا ہو گا۔
یقینا اچھے لوگوں کی بھی کمی نہیں مگروہ اجتماعی سوچ اور رویے میں تحلیل ہو کر رہ جا تے ہیں۔ کام نہ کرنے کیلئے قانون، نظام، سیاسی مداخلت، عدالتی رکاوٹوں اور اختیار نہ ہونے جیسے بہانے استعمال کیے جاتے ہیں۔ اگر کوئی افسر دیانتداری اور لگن سے کام کرنا چاہتے تو اُس کے لیے 24 گھنٹے بھی کم ہیں اور آج کے دور میں بھی چند افسروں نے دیانت، اخلاص اور لگن سے اس بات کو سچ ثابت کیا ہے۔ اگر کسی ضلع کا DCO یا DPO کام کر نا چاہے تو حاصل اختیارات اور موجودہ سیاسی ماحول کے اندر رہ کر بھی وہ اپنے ضلع کو ایک مثالی ضلع بنا سکتا ہے۔ کوئی پالیسی یا اقدام اُس وقت تک کامیاب نہیں ہوسکتا جب تک افسر شاہی اُس میں اخلاص کے ساتھ شامل نہ ہو۔ خود احتسابی کا نظام عملاً ختم ہو چُکا ہے۔ قوانین اور ضابطوں کو کام نہ کرنے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے نہ کہ آسانیاں پیدا کرنے کیلئے۔ ہماری افسرشاہی کی مجموعی سوچ آج بھی نوآبادیاتی دور کی یاد دلاتی ہے۔