اگرکسی نےسعودی سلطنت کوچیلنج کیا توہم سبھی جہاد اور شہادت کیلئےتیار ہیں،سعودی شہزادے کی مغرب کو دھمکی
![](https://baaghitv.com/wp-content/uploads/2022/10/WhatsApp-Image-2022-10-17-at-10.26.41-PM.jpeg)
سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان کے چچا زاد بھائی شہزادہ سعود الشعلان نے مغربی ممالک کے خلاف دھمکی آمیز انداز میں بیان دیا ہے جس کی ویڈیو سوشل میڈیا پر تیزی سے وائرل ہو رہی ہے-
باغی ٹی وی :حال ہی میں تیل پیدا کرنے والے ممالک کی سعودی عرب کی سربراہی والی تنظیم اوپیک پلس کی جانب سے تیل کی پیداوار میں کٹوتی کے فیصلے پر امریکہ نے شدید ناراضی کا اظہار کیا تھا امریکہ میں کہا جا رہا ہے کہ سعودی عرب کو اس بارے میں معاف نہیں کیا جانا چاہیے اس کے خلاف سخت اقدامات کا وقت آ گیا ہے-
اوپیک پلس کا فیصلہ خالصتاً اقتصادی ہے،اور اسے رکن ممالک نے متفقہ طور پرقبول کیا…
A video on social media shows a Saudi prince, Saud al-Shaalan, commenting on the West's backlash against the Opec+ output cut announced last week and what he described as a “challenge to the existence of the kingdom”. pic.twitter.com/l4H7EYTr60
— Middle East Eye (@MiddleEastEye) October 16, 2022
امریکا کے اس دھمکی آمیز بیانات کے بعد شہزادہ سعود الشعلان نے شدید ردعمل دیتے ہوئے اپنا ویڈیو بیان جاری کیا ہے جس میں وہ کہہ رہے ہیں کہ اگر کسی نے سعودی سلطنت کے وجود کو چیلنج کیا تو ہم سبھی جہاد اور شہادت کے لیے تیار ہیں-
برطانوی خبررساں ادارے ” بی بی سی اردو” کے مطابق سعود الشعلان ویڈیو میں انگریزی اور فر نچ زبانوں میں مغرب کو دھمکی دیتے ہوئے کہہ رہے ہیں کسی نے سعودی سلطنت کے وجود کو چیلینج کیا تو ہم سبھی شہادت اور جہاد کے لیے تیار ہیں۔
Saudi Prince Saud al-Shaalan, close relative of MBS, said this following Democrats’ criticism of their oil price hike: “Anybody that challenges the existence of this country and this kingdom, all of us we are projects of jihad and martyrdom.”
pic.twitter.com/3nXXnE6lZ4— Ken Klippenstein (@kenklippenstein) October 16, 2022
مڈل ایسٹ آئی سے سعودی عرب کے انسانی حقوق کے وکیل عبل اللہ العودہ نے کہا کہ سعود الشعلان قبائلی رہنما ہیں اور وہ سعودی عرب کے بانی عبد العزیز کے پوتے ہیں۔
تیل کی پیدوار میں کمی پر سعودی عرب کو نتائج بھگتنا ہوں گے،امریکی صدر
واضح رہے کہ گذشتہ ہفتے تیل برآمد کرنے والے ممالک کی تنظیم (اوپیک) اور روس سمیت اتحادیوں پرمشتمل گروپ اوپیک پلس نے اپنے نئے پیداواری ہدف کا اعلان کیا تھا اور امریکا کے تیل کی پیداوار میں کمی نہ کرنے کے مطالبات کو مسترد کر دیا تھا۔
تیل پیدا کرنے والے ممالک کی تنظیم اوپیک پلس نے عالمی معیشت اور تیل منڈی کی غیر یقینی صورتِ حال کے باعث نومبر سے تیل پیداوار میں کمی کا فیصلہ کیا ہےاس فیصلے سےامریکہ ناراض ہے۔ کیونکہ تیل میں کمی ہوگی تو قیمتوں میں اضافہ ہو گا امریکا کےصدر جوبائیڈن نے خبردار کیا ہے کہ اوپیک کی جانب سے تیل کی پیداوار میں کمی پر سعودی عرب کو نتائج بھگتنا ہوں گے-
15 نومبر سے انڈونیشیا میں جی 20 ممالک کا اجلاس ہونے والا ہے۔ جی ٹونٹی میں دنیا کی بڑی معیشتوں والے ممالک شامل ہیں۔ اس اجلاس میں امریکی صدر جو بائیڈن اور سعودی ولی عہد محمد بن سلمان بھی شرکت کریں گے۔
اتوار کو بائیڈن انتظامیہ کی جانب سے واضح کر دیا گیا کہ جی 20 اجلاس کے دوران صدر بائیڈن کا ولی عہد محمد بن سلمان سے ملاقات کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔
سعودی عرب اپنے مفادات کا ہر حال میں تحفظ کرے گا،
وائٹ ہاؤس کا کہنا ہے کہ اوپیک پلس کا فیصلہ روس کے حق میں ہے۔ سعودی عرب اور امریکہ کے درمیان تعلقات گزشتہ کچھ عرصے سے بد ترین دور سے گزر رہے ہیں۔
یوکرین پر روسی حملے کے سبب قیمتوں میں پہلے سے ہی اضافہ ہو چکا ہے۔ امریکہ نے سعودی عرب کو سمجھانے کی بھی کوشش کی تھی کہ وہ ایسا نہ کرے۔ یہاں تک صدر جو بائیڈن نے اس سال جولائی میں سعودی عرب کا دورہ بھی کیا تھا۔ لیکن دونوں ممالک کسی سمجھوتے تک پہنچنے میں ناکام رہے۔
امریکہ سمجھتا ہے کہ سعودی عرب روس کا ساتھ دے رہا ہے۔ تیل کی پیداوار میں کمی کے فیصلے سے بین الاقوامی بازار میں تیل کی قیمتیں بڑھیں گی اور اس سے روسی معیشت کو فائدہ ہو گا۔ دوسری جانب امریکہ اور یورپی ممالک روس کے خلاف یوکرین پر حملے کے معاملے میں مزید سخت پابندیاں عائد کر رہے ہیں تاکہ اس کی معیشت کو کمزور کیا جا سکے۔
امریکہ میں ڈیموکریٹک پارٹی کے رہنما پہلے سے ہی سعودی عرب کے بارے میں منفی خیالات رکھتے ہیں۔ سنہ 2019 میں جو بائیڈن نے انتخابی مہم کے دوران سعودی عرب کو الگ تھلک کرنے کی بات کہی تھی۔ اور اب امریکی کانگریس میں ڈیموکریٹک سیاست دان سعودی عرب کو سبق سکھانے کی بات کر رہے ہیں۔
خلیجی تعاون کونسل کی تیل کی یومیہ پیداوار میں کمی کے فیصلے کی تائید
ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارت میں سعودی عرب کے ساتھ امریکہ کے بہت اچھے تعلقات تھے۔ بلومبرگ نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ ’ڈیموکریٹک پارٹی کے اندر ایک رائے یہ بھی قائم ہو رہی ہے کہ سعودی عرب ریپبلیکن پارٹی کی مدد کر رہا ہے۔ ٹرمپ ایک بار پھر امریکی سیاست میں آنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
The Saudi Arabian regime treats women as third-class citizens, tortures civilians, and now is siding with Putin in the war against Ukraine. Yes, we must pull US troops out of Saudi Arabia, stop selling them weapons, and end its price-fixing oil cartel. pic.twitter.com/7N7V0XaiNI
— Bernie Sanders (@SenSanders) October 16, 2022
ڈیموکریٹک پارٹی کے سینیٹر برنی سینڈرس نے ایم ایس این بی سی کے صحافی مہدی حسن کو دیئے ایک انٹرویو میں سعودی عرب پر نکتہ چینی کی۔
برنی سینڈرس نے کہا ہے کہ سعودی عرب خواتین کے ساتھ تیسرے درجے کے شہریوں جیسا برتاؤ کرتا ہے۔ شہریوں کو ٹارچر کرتا ہے اور اب یوکرین جنگ میں بھی روس کی طرف داری کر رہا ہے اب ہمیں سعودی عرب سے افواج کو واپس بلا لینا چاہیے انہیں ہتھیار دینا بند کر دینا چاہیے۔ اس کے ساتھ ہی تیل کی قیمتیں بڑھانے جیسی من مانی کا بھی خاتمہ ہونا چاہیے۔
برنی سینڈرس نے کہا کہ تیل اور گیس کی صنعتیں خوب منافع کما رہی ہیں۔ فارما اور فوڈ انڈسٹری کا بھی یہی حال ہے کارپوریٹ گھرانوں کے بے حساب لالچ کی وجہ سے مہنگائی ساتویں آسمان کو چھو رہی ہے اور عام لوگ اس سے پریشان ہیں۔
ایران کے ساتھ معاہدے پر جلد واپسی کا کوئی امکان نہیں ہے، امریکا
سعودی عرب نے خام تیل کی پیداوار میں کمی پر امریکی صدر کے بیان کو مسترد کردیا تھا سعودی عرب کی وزارت خارجہ نے اعلان کیا تھا کہ مملکت ’اوپیک +‘ کے فیصلے کو بین الاقوامی تنازعات میں جانب دارانہ قرار دینے کی شدید مذمت کرتے ہوئے اس طرح کے بیانات کو مسترد کرتی ہے-
سعودی وزیر خارجہ نے امریکی صدر کے بیان پر ردعمل دیتے ہوئے کہا تھا کہ سعودی عرب اپنے مفادات کا ہر حال میں تحفظ کرے گا، تیل کی پیداوار میں کمی کی وجوہات سیاسی نہیں، اندرونی مسائل کی وجہ سے امریکہ اوپیک کے فیصلے کو سمجھ نہیں پارہا امریکہ میں نو اوپیک بل کا متعارف کروایا جانا حیران کن ہے، اوپیک کے خاتمے کی باتیں جذباتی ہیں۔
وزارت خارجہ کا کہنا تھا کہ اوپیک +‘ کا فیصلہ متفقہ طور پر اورخالصتا اقتصادی نقطہ نظر سے لیا گیا تھا جس کا مقصد مارکیٹوں میں طلب اور رسد کے توازن کو مدنظر رکھنا ہے اور اتار چڑھاؤ کو محدود کرتے ہوئے قیمتوں میں استحکام پیدا کرنا ہے۔
سعودی عرب نے بین الاقوامی تنازعات میں اس فیصلے کو تعصب کی نگاہ سے دیکھنے پرمبنی بیانات کو بھی مکمل طور پر مسترد کر دیا تھا کہا تھا کہ مملکت امریکا کے خلاف سیاسی مقاصد کی بنیاد پر اوپیک + کے فیصلے پر عمل درآمد نہیں کرتی۔ سعودی عرب 5 اکتوبر کو اوپیک پلس کے فیصلے کے بعد مملکت پر تنقید کرنے والے بیانات کو مکمل طور پر مسترد کرتا ہے۔