امریکہ کو اسلام سمجھنے کی ضرورت ہے کیوں کہ یہ واحد مذہب ہے جس میں نسل پرستی کے مسائل کا حل موجود ہے۔ میلکم ایکس مقتول سیاہ فام رہنما

0
71

امریکہ کو اسلام سمجھنے کی ضرورت ہے کیوں کہ یہ واحد مذہب ہے جس میں نسل پرستی کے مسائل کا حل موجود ہے۔ میلکم ایکس مقتول سیاہ فام رہنما

باغی ٹی وی رپورٹ‌کے مطابق ، امریکہ میں اس وقت سیاہ فام امریکی گوری چمڑی والوں کے خلاف شدید احتجاج کررہے ہیں اور اپنے حقوق اور تحفظ کے لیے سڑکوں پر ہیں. سیاہ فام امریکیوں کو ان کا حق دلانے میں میلکم ایکس نے ایک لازوال کردار ادا کیا جنہیں بعد میں‌ رستے سے ہٹا دیا گیا تھا .انہوں نے اسلام قبول کیا اور امریکی سیاہ فارم کے لیے اسی مذہب کو نجات دہندہ قرار دیا


میلکم ایکس (پیدائشی نام: مالکم لٹل) جو الحاج ملک الشہباز کے طور پر بھی جانے جاتے ہیں ایک سیاہ فام مسلمان اور نیشن آف اسلام کے قومی ترجمان تھے۔ وہ 19 مئی 1925ء کو امریکہ کی ریاست نیبراسکا میں پیدا ہوئے اور 21 فروری 1965ء کو نیو یارک شہر میں ایک قاتلانہ حملے میں جاں بحق ہوئے۔ وہ مسلم مسجد اور آرگنائزیشن آف ایفرو امریکن کمیونٹی کے بانی بھی تھے۔

ان کی زندگی میں کئی موڑ آئے اور وہ ایک منشیات فروش اور ڈاکو بننے کے بعد گرفتار ہوئے اور رہائی کے بعد امریکا میں سیاہ فاموں کے حقوق کا علم بلند کیا اور دنیا بھر میں سیاہ فاموں کے سب سے مشہور رہنما بن گئے۔ بعد ازاں انہیں شہید اسلام اور نسلی برابری کے رہنما کہا گیا۔ وہ نسلی امتیاز کے خلاف دنیا کے سب سے بڑے انسانی حقوق کے کارکن کے طور پر ابھرے۔

امریکی سیاہ فاموں کو یقین تھا کہ میلکم ایکس حقوق کی جدوجہد میں موثر کردار ادا کریں گے مگر حاسدوں نے جوانی میں انہیں قتل کردیا۔ 21 فروری 1965ء کو میلکم ایک تقریب سے خطاب کررہے تھے کہ حملہ آوروں نے گولیاں مار کر انہیں شہید کرڈالا۔ انہیں اپنی شہادت کا پہلے ہی علم تھا۔ اسی لیے اکثر وہ گن سنبھال کر اپنے اہل خانہ کی چوکیداری کرتے نظر آتے۔ میلکم کو یقین تھا کہ وہ امریکی اسٹیبلشمنٹ کے لیے خطرہ بن چکے۔ آخرکار اس نے انہیں راہ سے ہٹا دیا ۔میلکم ایکس کا خون رائیگاں نہیں گیا اور امریکا میں سول رائٹس تحریک میں تیزی آگئی۔ 1968ء میں مارٹن لوتھر کنگ بھی قتل کردیئے گئے۔ اسی سال امریکی حکمرانوں کو مجبوراً سول رائٹس ایکٹ منظور کرنا پڑا۔ یوں چودہ سالہ تحریک کامیابی سے انجام کو پہنچی۔ اس کامیابی کی خاطر میلکم ایکس اور مارٹن لوتھر کو اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنا پڑا۔اگرچہ امریکا میں صدر ٹرمپ جیسے سفید فام سپرمیسی پہ یقین رکھنے والے رہنما آج بھی سیاہ فاموں پر زبانی کلامی اور جسمانی حملے کرتے رہتے ہیں۔
1964ء میں حج بیت اللہ کے بعد انہوں نے نیشن آف اسلام کو خیر باد کہہ دیا اور عام مسلمان کی حیثیت اختیار کر لی۔ اس کے بعد ایک سال سے بھی کم عرصے میں نیو یارک میں قتل کردیے گئے۔ نیشن آف اسلام کے تین کارکنوں کو ان کے قتل کے الزام میں گرفتار کیا گیا لیکن کہا جاتا ہے۔ امریکی حکومت بھی ان کے قتل کی سازش میں ملوث تھی۔

Leave a reply