ججز سے متعلقہ آڈیو لیکس،تحقیقات کیلئے 3 رکنی کمیشن تشکیل

0
43
audio leack

وفاقی حکومت نے ججز سے متعلقہ آڈیو لیکس کی تحقیقات کیلئے 3 رکنی  کمیشن تشکیل دے دیا

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ،چیف جسٹس بلوچستان ہائیکورٹ جسٹس نعیم اختر کمیشن میں شامل ہیں،چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس عامر فاروق بھی کمیشن میں شامل ہیں،وفاقی حکومت نے کمیشن کی تشکیل کا نوٹیفکیشن جاری کردیا۔

کمیشن جوڈیشری کے حوالے سے لیک ہونے والی آڈیوز پر تحقیقات کریگا یہ آڈیو لیکس درست ہیں یا من گھرٹ کمیشن اس بارے میں تحقیقات کرے گا، وفاقی حکومت کی جانب سے بنایا جانے والا کمیشن ایک ماہ کے اندر اپنی رپورٹ پیش کرے گا،
وکیل اور صحافی کے درمیان بات چیت کی آڈیو لیک کی بھی تحقیقات ہوگی سابق چیف جسٹس اور وکیل کی آڈیو لیک کی بھی تحقیقات ہوگی کمیشن سوشل میڈیا پر لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کے داماد کی عدالتی کارروائی پراثرانداز ہونے کے الزامات کی آڈیو لیک کی تحقیقات کریگا،کمیشن چیف جسٹس کی ساس اور ان کی دوست کی مبینہ آڈیو لیک کی تحقیقات کرے گا

تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کمیشن پر رد عمل میں کہا ہے کہ وفاقی حکومت نے آڈیو لیکس کے معاملے پر 2017 کے کمیشن آف انکوائری ایکٹ کے سیکشن 3 کے تحت انکوائری کمیشن تشکیل دیا ہے۔ تاہم وفاقی حکومت کی جانب سے ترتیب دیے گئے ٹرمز آف ریفرنس میں ایک سوچا سمجھا نقص ،خلاء موجود ہے یا جان بوجھ کر چھوڑا گیا ہے۔ یہ (ٹی او آرز) اس پہلو کا ہرگز احاطہ نہیں کرتے کہ وزیراعظم کے دفتر اور سپریم کورٹ کے حاضر سروس ججز کی غیرقانونی و غیرآئینی نگرانی کے پیچھے کون ہے؟ کمیشن کو اس تحقیق کا اختیار دیا جائے کہ عوام اور اعلیٰ حکومتی شخصیات کی ٹیلی فون پر کی جانے والی گفتگو کی ٹیپنگ اور ریکارڈنگ میں کون سے طاقتور اور نامعلوم عناصر ملوث ہیں۔ یہ آئین کے آرٹیکل 14 کے تحت پرائیویسی کے حق کی سنگین خلاف ورزی کے۔

عمران خان کا کہنا تھا کہ فون ٹیپنگ کے ذریعے (عوام اور اعلیٰ شخصیات کی) نگرانی اور ان کے مابین کی جانے والی بات چیت تک غیرقانونی رسائی حاصل کرنے والوں کا ہی محاسبہ نہ کیا جائے بلکہ اس ڈیٹا کو کانٹ چھانٹ کر اور اس کے مختلف حصوں کو توڑ مروڑ کر سوشل میڈیا کو جاری کرنے والوں سے بھی باز پرُس کی جائے۔ قانون کی حکمرانی کے سائے میں پنپنے والی جمہوریتوں میں ریاست کی جانب سے (شہریوں کی) زندگی کے بعض پہلوؤں میں اپنی مرضی سے مداخلت کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔ جب بھی ریاست یوں غیرقانونی طور پر فرد پر پہرے بٹھاتی/اس کی نگرانی کرتی ہے تو آرٹیکل 14 کے تحت اسے میسّر پرائیویسی اور شخصی وقار کے حق پر زد پڑتی ہے۔ حال ہی میں خفیہ طور پر جاری (Leak) کی جانے والی بعض کالز ایسی تھیں جو اصولاً وزیراعظم کے دفتر کی محفوظ ٹیلی فون لائن پر کی جانے والی گفتگو کے زمرے میں آتی تھی۔ اس کے باوجود انہیں غیرقانونی پر ٹیپ اور کانٹ چھانٹ/رد و بدل کرکے جاری کیا گیا۔ اس ٹیپنگ میں کارفرما یہ دیدہ دلیر عناصر بظاہر وزیراعظم کی دسترس سے باہر دکھائی دیتے ہیں اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ انہیں ان کا علم تک نہیں۔ یہ کردار ہیں کون جو قانون سے بالاتر ہیں، ملک کے وزیراعظم کے بھی ماتحت نہیں اور پوری ڈھٹائی سے (شہریوں، اعلیٰ شخصیات کی) خلافِ قانون نگرانی کرتے ہیں۔ کمیشن کی جانب سے ان عناصر کی نشاندہی ناگزیر ہے۔

واضح رہے کہ ججز کے‌ حوالہ سے آڈیو لیکس چند دن قبل سامنےآئی تھیں، چیف جسٹس عمر عطا بندیال سے بھی آڈیو لیک بارے سوال کیا گیا تھا تا ہم انہوں نے خاموشی اختیار کی تھی، عمران خان کی گرفتاری کے بعد انکی رہائی کے حوالہ سے ایک آڈیو لیک ہوئی تھی، اسی آڈیو کے عین مطابق عمران خان کے کیس میں ہوا اور رہائی ملی،

سردار تنویر الیاس کی نااہلی ، غفلت ، غیر سنجیدگی اور ناتجربہ کاری کھل کر سامنے آگئی 

عمران خان کا مظفر آباد جلسہ،وزیراعظم آزاد کشمیر کی کرسی خطرے میں

،وزیر اعظم آزاد کشمیر کو اگر بلایا نہیں گیا تو انہیں جانا نہیں چاہیے تھا،

تنویر الیاس کے بیٹے کا آزاد کشمیر پولیس و مسلح ملزمان کے ہمراہ سینٹورس پر دھاوا، مقدمہ درج

تنویر الیاس نے سپریم کورٹ میں دائر اپیل میں خود کو” وزیراعظم” لکھ دیا،اپیل خارج

Leave a reply