بھارت آزاد کشمیر کےمتعلق کیا ارادے رکھتا ہے ، تحریر مہتاب عزیز

0
71

بھارتی وزیر خارجہ سبرامنیم جے شنکر نے مودی حکومت کے پہلے 100 دن مکمل ہونے پر اہم پریس کانفرنس میں کہا ’’ہم جلد آزاد کشمیرپربھی قبضہ حاصل کر کے بھارت کی تکمیل کریں گے‘‘۔
دو روز پہلے بھارتی ریاست گجرات کے وزیر اعلیٰ وجے روپانی نے کہا تھا ’’پاکستان آزاد کشمیر کھونے کے لیے تیار رہے‘‘
اس سے قبل بھارتی فوج کے سربراہ جنرل بپن روات نے کہا تھا ’’آزاد کشمیر پر قبضے کے لیے صرف بھارتی حکومت کے حکم کا انتظار ہے، آرمی کی تیاری مکمل ہے۔
حالیہ دنوں میں بھارت کے وزیر داخلہ امت شاہ اور وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے بھی آزاد کشمیر پر قبضے کے حوالے سے بیان دے چکے ہیں۔

بھارت کا ٹریک ریکارڈ ہے کہ وہ ماحول بنانے کے بعد ایڈونچر سے دریغ نہیں کرتا۔ کئی ایک واضع مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔
1965 میں ہم نے اپنی پسند کا محاذ کھولنے کا لال بہادر شاستری کے بیان اور اس طرح کے دیگر بیانات کو نظر انداز کیا۔ پھر ہمیں لاہور اور سیالکورٹ کے محاذ پر اچانک حملہ برداشت کرنا پڑا۔
1971 میں ایک بار پھر ہم بھارتی دھمکیوں کو نظر انداز کرتے رہے۔ ہمارا خیال تھا کہ بھارتی بیانات کا جواب صرف بیانات سے دینا ہی کافی ہوگا۔ لیکن جب بھارتی افواج مشرقی پاکستان میں داخل ہوئیں تو ہمیں وقت سے پہلے بھرپور تیاری نہ کرنے کا خمیازہ بھگتنا پڑا۔

ممکنا فوجی تصادم پر نظر رکھنے والے تھنک ٹینک خبردار کر چکے ہیں کہ بھارت ستمبر یا اکتوبر کے دوران لائن آف کنٹرول پر کوئی مس ایڈونچر کر سکتا ہے۔ جس طرح اس سال فروری میں الیکشن کا ماحول بنانے کے لیے پلوامہ دھماکہ اور اُس کے بعد پاکستانی سرحد عبور کر کے بمباری کا ڈرامہ کیا گیا تھا، ایک بار پھر قوی امکانات ہیں کہ ویسا ہی ڈرامہ مقبوضہ کشمیر کے حالات سے دنیا کی نظر ہٹانے کے لیے کیا جائے۔

غور کیا جائے تو اس طرح کی کسی جنگ کے لیے بھارت طویل عرصے سے تیاریاں کر رہا ہے۔ پہاڑی علاقے میں جنگ کی تربیت (Mountain Warfare Training) کے لیے بھارت کی دہیرادون ملٹری اکیڈمی میں ایک الگ ادارہ بدراج کیمپ (Bhadraj Camp) کے نام سے1999 میں قائم کیا گیا تھا۔ کشمیر کے محاذ پر جنگ کی خصوصی تربیت کے لیے بلندی پر جنگ کا تربیتی ادارہ High Altitude Warfare School (HAWS) گلمرگ مقبوضہ کشمیر میں قائم ہے۔ بھارتی فوج پہاڑی علاقے میں جنگ کے لیے اب تک 10مختص پہاڑی ڈویژن (Mountain Division) قائم کرچکی ہے۔ ان میں آٹھ عمومی ڈویژن اور 2 خصوصی حملہ آور ڈیژن ہیں۔ ان 10 ڈویژنز میں ایک لاکھ سے ایک لاکھ تیس ہزار فوجی میں جنہیں پہاڑی علاقے میں جنگ کی خصوصی تربیت اور مخصوص اسلحہ مہیا کیا گیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق بھارتی فوج حالیہ عرصے میں دو مزید پہاڑی ڈویژن کے قیام کے لیے دن رات مصروف ہے۔ ان دونوں پہاڑی ڈویژنز کو گن شپ، یوٹیلیٹی اور اٹیک ہیلی کپٹروں کے تعاون سے جنگ کی تربیت دی جارہی ہے، یا تربیت مکمل ہو چکی ہے۔ اس مقصد کے لیے بھارت نے امریکہ سے جدید ترین جنگی ہیلی کاپٹر ’اپاچی اے ایچ 64 ای کا سودا کیا ہے۔ مودی کی حکومت نے امریکہ سے 110 کروڑ ڈالر (جو تقریباً 8,000 کروڑ بھارتی روپے بنتے ہیں) کے عوض 22 جنگی اپاچی ہیلی کاپٹر خریدنے کا معاہدہ کیا تھا۔ جن میں سے آٹھ جنگی ہیلی کپٹر انڈیا کو مل چکے ہیں۔ جنہیں ورکنگ باونڈری پر جموں کے قریب پھٹانکورٹ کے ہوائی اڈے پر تعینات کیا گیا ہے۔

(یہاں یہ امر بھی دلچسب ہے کہ پاکستان نے امریکہ سے نو عدد اے ایچ ون زیڈ وائپر اٹیک ہیلی کاپٹرز فراہم کرنے کا وعدہ کیا ہوا ہے۔ معاہدے کے مطابق یہ ہیلی کپٹر پاکستان کو 2018 میں مل جانا تھے۔ لیکن تاحال امریکہ نے انہیں پاکستان کے حوالے نہیں کیا ہے۔)

جنگوں پر نظر رکھنے والی کئی تنظیمیں آگاہ کر چکی ہیں۔ کہ بھارتی فوج وادی نیلم سے ملحقہ کنٹرول لائین کے دوسری طرف واقع مقبوضہ کشمیر کے اضلاع کپواڑہ اور بانڈی پورہ میں بھاری توپ خانہ اور اسلحہ جمع کر رہا ہے۔
ہندوستان کے انتہائی اہم اور ذمہ دار افراد کے تمام بیانات اور فوجی تیاریوں کو صرف کیدڑ بھبکیاں اور بھڑکیں قرار دے کر نظر انداز کرنا بالکل بھی حقیقت پسندانہ طرز عمل نہیں ہے۔ جوابا ہمیں جس طرح کی تیاریاں کرنا چاہیں تھیں وہ کہیں دیکھنے کو نہیں مل رہی ہیں۔
عسکری تیاریاں کیا ہیں ہم اُنہیں پاک افواج پر چھوڑتے ہیں۔
البتہ کسی بھی ممکنا بڑے یا محدود پیمانے کی جنگ کی صورت میں عوام کو جس طرح سول ڈیفنس، فرسٹ ایڈ وغیرہ کی تربیت کی اشد ضرورت ہے۔ اُس حوالے سے حکومت اور متعلقہ اداروں کو متحرک ہونا چاہیے
تحریر مہتاب عزیز

Leave a reply