عدلیہ کی آزادی پر حملہ ہوا تو سب سے آگے میں کھڑا ہوں گا ، چیف جسٹس

جسٹس تصدق جیلانی کے متعلق عجیب عجیب باتیں کی گئیں جس پر مجھے شرمندگی ہوئی،چیف جسٹس
0
326
sc

ججز کےخط پرسپریم کورٹ میں ازخود نوٹس کیس کی براہ راست سماعت ہوئی

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سات رکنی لارجر بینچ نے سماعت کی،جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس نعیم اختر افغان بنچ کا حصہ ہیں۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ سماعت کا ابھی آغاز ہوا ہے سب چیزوں کو دیکھیں گے،میں کسی وکیل سے انفرادی طور پر ملتا ہی نہیں ہوں، پاکستان بار اور سپریم کورٹ بار کے نمائندوں سے بات ہوئی ہے، جمہوریت کا تقاضہ ہے کہ آپ اس کو بھی مان لیں جو آپکا مخالف ہے، عدلیہ کی آزادی پر کوئی کمپرومائز نہیں ہو گا ، ہمیں اپنا کام کرنے دیں ، ممکن ہے کوئی اور بھی ہم سے بہتر کام کر سکتا ہو، میں کسی دباؤ میں نہیں آتا۔وکیل کہہ رہے ہیں کہ از خود نوٹس لیں کیایہ ان کااختیارہے؟عدالتوں کومچھلی منڈی نہ بنائیں۔نہ کیس مقرر کرنے والی کمیٹی کو عدالت کااختیار کرنا چاہیئے ،نہ عدالت کو کمیٹی کا اختیار استعمال کرنا چاہیئے۔میراتو اصول ہے۔ازخود نوٹس کیس کا قانون واضح ہے ۔جو وکیل کہے سوموٹو نوٹس لیں اسے وکالت چھوڑ دینی چاہیے،چیزیں پہلے ہی میڈیا میں چھپ جاتی ہیں،میں تو کبھی کسی کے پریشر میں نہیں آتا،مداخلت کبھی برداشت نہیں کرتےکسی کا کوئی اور ایجنڈا ہے تو یا چیف جسٹس بن جائے یا سپریم کورٹ بار کا صدر بن جائے،ذاتی حملے کئے گئے،چار سال فل کورٹ میٹنگ نہیں ہوئی کسی نے نہیں پوچھا،ججز کے چیمبر میں کیس فکس کرنےکازمانہ چلا گیا،ہم کوئی پریشر برداشت نہیں کریں گے، ایسا ماحول بنایا گیا کہ کون شریف آدمی یہ خدمت کرے گا، انکوائری کمیشن کے لئے نام چیف جسٹس نے تجویز کئے تھے،کمیشن کیلئے 2 نام تصدق جیلانی اور ناصر الملک ہم نے تجویز کیے تھے،کمیشن کی سربراہی خدمت ہی ہے، جسٹس ریٹائرڈ تصدیق جیلانی کے بارے میں سوشل میڈیا پر ایسی ایسی باتیں ہوئیں کہ مجھے افسوس ہوا، معاشرے میں کیا ایسی باتیں ہوتی ہیں،تصدق جیلانی پر ذاتی حملے شروع کردیئے گئے،سوشل میڈیا پر جسٹس تصدق جیلانی پر عجیب عجیب الزامات لگائے گئے،جسٹس تصدق جیلانی کے متعلق عجیب عجیب باتیں کی گئیں جس پر مجھے شرمندگی ہوئی،ہم نے ایسے نام تجویز کیے کہ کوئی انگلی نہ اٹھا سکے، سپریم کورٹ کا اپنے اختیارات حکومت یا کمیشن کو دینے کا تاثر غلط ہے،چارسال فل کورٹ میٹنگ نہیں ہوئی سارے وکلا کہاں تھے؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ میڈیا پر ایسا تاثر بنایا گیا کہ کہ جیسے وفاقی حکومت اپنی مرضی کا کمیشن بنانا چاہ رہی ہے ،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ شریف آدمی پر حملے ہوں گے تو وہ تو چلا جائے گا وہ کہے گا آپ سنبھالیں، پتہ نہیں ہم نے اس قوم کو تباہ کرنے کا تہیہ کر لیا ہے،یہ تاثر کہ سپریم کورٹ نے اپنے اختیارات حکومت کو یا کمیشن کو دے دیئے بلکل غلط ہے،اٹارنی جنرل نے کہا کہ وفاقی حکومت ایسا کوئی عمل نہیں کرے گی نہ اس کا حصہ بنے گی جو عدلیہ کی آزادی پر حرف آنے کا باعث بنے،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ایک جج کو پریشر فیملی، دوستوں، بچوں اور ہر جگہ سے آسکتا ہے، پریشر ورٹیکل اور ہاریزینٹل بھی ہو سکتا ہے، پھر ایک نئی وبا پھیلی ہوئی ہے، وہ سوشل میڈیا ہے، اس کا بھی پریشر ہے،

تصدق جیلانی کی بات سے متفق ہوں کہ سپریم جوڈیشل کونسل کو آئینی اختیار حاصل ہے،چیف جسٹس
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اٹارنی جنرل کو فل کورٹ کے بعد جاری پریس ریلیز پڑھنے کی ہدایت کر دی،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اگر عدلیہ کی آزادی پر حملہ ہوا تو سب سے آگے میں کھڑا ہوں گا ،عدلیہ کی آزادی پر حملہ ہوگا تو میں اور سارے ساتھی کھڑے ہونگے،عدلیہ میں کسی قسم کی مداخلت برداشت نہیں کریں گے،ہر ادارے کو اپنی حدود میں رہ کر کام کرنا چاہیے،انکوائری کمیشن بنانے کا اختیار سپریم کورٹ کے پاس نہیں ، اس کو بنانے کا اختیار صرف سرکار کا ہے، ہم خط کو سنجیدگی سے لے رہے ہیں، تصدق جیلانی نے مجھے اختیار دیا کہ معاملے کو حل کروں،میں مشاورت پر یقین رکھتا ہوں،تصدق جیلانی کی بات سے متفق ہوں کہ سپریم جوڈیشل کونسل کو آئینی اختیار حاصل ہے

سرینہ فائز نے اپنی ایف آئی آر میں فیض حمید اور شہزاد اکبر کو نامزد کیا ،کوئی ایکشن نہیں ہوا،اٹارنی جنرل
اٹارنی جنرل نے کہا کہ چیف جسٹس صاحب آپ کو ایک شخص نے قتل کی دھمکیاں دی ہیں، آپ کی اہلیہ سرینہ فائز نے اپنی ایف آئی آر میں فیض حمید اور شہزاد اکبر مرزا کو نامزد کیا، سرینہ قاضی فائز عیسٰی کی درخواست پر کوئی ایکشن نہیں ہوا،خط میں لکھے واقعات سال پرانے ہیں،خط میں لکھے گئے مندرجات کی انکوائری ضروری تھی، وفاقی حکومت آج بھی ہر قسم کی تعاون کے لئے تیار ہے، ایک طرف عدلیہ کی آزادی ہے دوسری طرف حکومت کی اپنی ساکھ داؤ پر ہے،ہم کسی صورت عدلیہ کی آزادی کو متاثر نہیں ہونے دیں گے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ میں کئی مرتبہ ججز کا خط پڑھا ہے، پوری سنجیدگی سے لے رہے ہیں، وضاحت کردوں کہ خط سپریم جوڈیشل کونسل کو لکھا گیا، سابق جج شوکت صدیقی کیس کا تذکرہ بھی اس خط میں ہے،اگرججز تحفظات کا اظہار کریں تو اُنہیں کوئی خطرہ نہیں ہونا چاہیے،سوشل میڈیا کی نئی وباء پھیلی ہوئی ہے، اٹارنی جنرل نے کہا کہ
حکومت ایسا کوئی عمل نہیں کرے گی جس سےعدلیہ کی آزادی متاثر ہو، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز سے جب میں اور جسٹس منصور علی شاہ ملے جس میں جسٹس منصور نے ان سے کہا کہ آپ نے خط سپریم جوڈیشل کونسل کو تحریر کیا ہے ہم سپریم جوڈیشل کونسل کے دو ممبران ہیں پوری کونسل نہیں تو ججز نے کہا کہ جو آپ بہتر سمجھتے ہیں وہ کریں۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے چھ ججز نے 2023 میں چیف جسٹس عمر عطاء بندیال سے ملاقات کی تو اُس میں سینئر ترین جج ہوتے ہوئے مجھے یا بعد والے طارق مسعود صاحب کو نہیں بلکہ جسٹس اعجاز الاحسن صاحب کو بٹھایا گیا، شرطیں لگی تھیں کہ الیکشن نہیں ہوں گے، ہم نے ۱۲ دن میں اس کیس کا فیصلہ کیا،جہاں آئین کی خلاف ورزی ہوگی حکومت کے خلاف سخت ایکشن لیں گے،جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ہم نے سوموٹو لیا ہے تو ہمیں کچھ کرنا ہو گا، اگر ہائیکورٹ کا جج چیف جسٹس کو کچھ ایسا بتائے تو وہ اُس پر کچھ کرے، یا اگر ماتحت عدالت کا جج کچھ بتائے تو اس پر کچھ کیا جائے اور اگر چیف جسٹس کچھ نہ کرے تو اس کو بھی دیکھا جائے،

ججز کا خط،سپریم کورٹ نے معاونت کیلئے تحریری معروضات مانگ لی،سماعت ملتوی
سپریم کورٹ نے معاونت کیلئے تحریری معروضات مانگ لی،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ یہ بھی سوال اٹھا سات ججز بیٹھے ہیں فل کورٹ کیوں نہیں بیٹھا؟جتنے ججز اسلام آباد میں دستیاب تھے وہ یہاں موجود ہیں، دوسرے شہروں میں جانیوالے ججز عید کے بعد دستیاب ہونگے، ہم عدالت میں وزیراعظم کو نہیں بلا سکتے، پتہ ہے کیوں؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ وزیراعظم کو استثنٰی حاصل ہے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ججز نے کھل کر بات نہیں کی لیکن اشارہ کر دیا ہے، آج آئین کی کتاب کھول کر لوگوں کو بتائیں، حکومت کو نوٹس دینگے تو اٹارنی جنرل یا سیکرٹری قانون آ جائیں گے، اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالتی فیصلوں پر عملدرآمد میں زرہ برابر بھی کوتاہی نہیں ہوئی، یہ بات نہ کریں، چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو روک دیا ،

ججز خط پر سپریم کورٹ کے سات رکنی بنچ نے سماعت 29 اپریل تک ملتوی کرتے ہوئے فل کورٹ بنانے کا عندیہ دے دیا ہے

عمران خان کو رہا، عوامی مینڈیٹ کی قدر کی جائے،عارف علوی کا وکلا کنونشن سے خطاب

جماعت اسلامی نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز کے لیے بنائے گئے انکوائری کمیشن کو مسترد کر دیا۔

ججز خط کی انکوائری، سپریم کورٹ بار کا تصدق جیلانی کو کمیشن کا سربراہ مقرر کرنے کا اقدام خوش آئند قرار

ججز کا خط، سابق چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی انکوائری کمیشن کے سربراہ مقرر

ہائیکورٹ کے 6 ججز نے جو بہادری دکھائی ہیں یہ قوم کے ہیرو ہیں،اسد قیصر

ججز کے خط نے ثابت کردیا کہ نظام انصاف مفلوج ہوچکا، لہذا چیف جسٹس مستعفی ہو ، پی ٹی آئی

6 ججز کا خط ،پی ٹی آئی کا کھلی عدالت میں اس پر کارروائی کا مطالبہ

6ججزکا خط،سپریم کورٹ کے فل کورٹ اجلاس کا اعلامیہ جاری

وفاقی حکومت نے ججز کے خط پر تحقیقات کرنے کا اعلان کردیا

اسلام آباد ہائیکورٹ ججز کے خط پر چیف جسٹس کی زیر صدارت اجلاس ختم

ایسا لگتا تحریک انصاف کے اشارے پر ججز نے خط لکھا،سپریم کورٹ میں درخواست دائر

ججزکا خط،اسلام آباد ،لاہور ہائیکورٹ بار،اسلام آبا بار،بلوچستان بار کا ردعمل

عدالتی معاملات میں مداخلت، اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کا سپریم جوڈیشل کونسل کو خط

ججز کا خط،انکوائری ہو،سپریم کورٹ میں اوپن سماعت کی جائے، بیرسٹر گوہر

ججز کا خط ،پاکستان بار کونسل کا انکوائری کا مطالبہ

Leave a reply