آج کتابوں کی الماری سے گرد جھاڑتے جھارٹے اچانک ہی کتابوں میں موجود میری ڈائری نیچے گری اور کئی رتجگوں ،ازیتوں، آنسؤں اور سالوں کے صبر اور محنت سے یادوں پہ ڈالی ہوئی گرد جھڑنے لگی۔ آپ سے بہتر کون جانے گا کہ میں کتابوں کی ،لفظوں کی،استعاروں کی کتنی دیوانی تھی۔
پانچویں جماعت سے کتابیں اور ناولز پڑھنے کے باوجود
آپ میری زندگی کی وہ پہلی اور آخری کتاب جسے میں آنکھوں سے نہیں روح سے پڑھا ہے،جسکے الفاظ میرے دماغ میں نہیں میرے دل میں سمائے اور ایسے سمائے کے پھر آپ کے علاوہ کوئ لفظ بھایا ہی نہیں ۔
اب میں کتابیں خریدتی ضرور ہوں لیکن پڑھ نہیں پاتی کیوں کہ ہر صفحہ یادوں کی نئی شاہراہ کا روپ دھار لیتا ہے ۔
پہلے جب کبھی زندگی مشکل لگنے لگتی تھی میں الفاظ کا سہارا لیتی تھی اور دکھ درد،حسرتیں ،خواہشیں سب صفحہ قرطاس پہ اتار دیتی تھی لیکن
اب۔۔۔۔۔قصہ مختصر اب لفظ مرہم نہیں بنتے ہیں ۔
ایسا لگتا ہے جیسے الفاظ کا قحط پڑ گیا ہو یا میرے پاس کچھ باقی نا رہا ہو لکھنے کیلیے
یا شاید جو میں لکھنا چاہتی ہوں اس کو بیان کرنے کیلیے الفاظ بنے ہی نہیں ۔
اور پتہ ہے ضبط سے میری آنکھیں لہو رنگ ہو جاتی ہیں جب کوئی پوچھتا ہے کہ کیا درد کو لکھا جا سکتا ہے؟ سوال کرنے والے کیا جانے کہ درد لکھا ہی تو نہیں جاتا یہ تو بس محسوس ہوتا ہے اور جہاں درد ہوں وہاں باقی احساسات کا کوئی وجود نہیں رہتا ۔
پہلے میری تحریروں میں خوابوں ،رنگوں اور خوشیوں کا عکس جھلکتا تھا لیکن اب میری تحریریں ،مسائل ،معاشرے اور زندگی کی تلخیوں کے گرد گھومتی ہیں ،پڑھنے والے سمجھتے ہیں اب مجھے لکھنے کا شعور آگیا ہے انہیں کیا معلوم کہ پہلے میں جو لکھتی تھی آپ کو مخاطب کر کے لکھتی تھی لیکن
اب میں نے خوابوں میں بھی آپ سے کلام کرنا چھوڑ دیا ہے ،پہلےمیرے الفاظ کی رعنائی آپ سے تھی
میرے الفاظ کی روح تھے آپ لیکن اب مجھے اپنے لکھے تمام لفظ بے جان کٹھ پتلیاں لگتے ہیں ۔
کون کہتا ہے وقت مرہم ہوتا ہے ؟ آج کئی سال گزرنے کے بعد میری ڈائری کی اک جھلک مجھے واپس اسی موڑ پہ لے آئی ہے تو ثابت ہوا کہ وقت گزرنے کے ساتھ زخم مندمل نہیں گہرے ہوتے جاتے کیونکہ
کچھ زخموں کے لئے شاید وقت کے پاس بھی مرہم نہیں خنجر ہوتا ھے ۔
میری ڈائری کے صفحات کی بوسیدگی چیخ چیخ کر بتاتی ہے کہ اس پہ لکھے الفاظ زندگی سے محروم ہو چکے ہیں ۔ہاں لیکن وہ آخری صفحہ جس میں اب بھی زندگی کروٹ لیتی دکھائی دیتی ہے جس پہ میں وہ آپکی سالگرہ والی رات لکھی ہے،اور ہر وہ لمحہ جس میں آپ میرے سنگ مسکرائے تھے ،اور وہ آپ کے ہمراہ جامعہ سے گھر تک کے سفر کے اک اک قدم کی داستاں رقم ہے اس سانس لیتے آخری صفحے پہ ۔
وہ چہرہ وہ باتیں وہ یادیں آج بھی میری ڈائری کے تاریک اوراق پہ بکھریں پڑے ہیں ۔
کسی کو الفت ہوتی ہے محبت ہوتی ہے ،انس ہوتا ہے مجھے یہ سب نہیں تھا مجھے تو عادت ہے ،عقیدت ہے اور بھلا کبھی عادتیں اور عقیدتیں بھی تبدیل ہوتی ہیں ؟
ہاں وقت کے ساتھ ساتھ ہم درد سہنا سیکھ جاتے ہیں یا شاید تکلیف کی شدت وہی رہتی ہے بس اظہار کا طریقہ بدل لیتی ہے ، پہلے میں ساری ساری رات سارا دن رو کے گزار دیتی تھی اب روتی نہیں ہوں تو وہی درد مائیگرین بن کے راتوں کی نیندیں چرائے رکھتا ہے۔
گزرے لمحات کا تذکرہ میرے لیے بلکل ایسا ہی ہے جیسے کسی مرنے والے کے سامنے زندگی کی دلکشی اور رعنائیوں کی باتیں کی جائیں ۔
میری زات بلکل ایسے ہوگئی ہے جسے کوئ اپنے ہی سائے کی تلاش میں بھٹک رہا ہو۔ یاد ہے وہ تصویر جس میں آپ میرے ساتھ نہیں تھے لیکن دور کھڑے آپکا سایہ چپکے سے میں نے اپنے سنگ باندھ لیا تھا ،بس اسی سائے کی تلاش میں ہوں۔
اور کون کہتا ہے کہ درد دینے والے کیلیے دل سے بدعا ہی نکلتی ہے؟ میرے تو آج بھی ہاتھ بارگاہ الہی میں اٹھتے ہیں تو پہلے سوال آپکی خوشیوں اور سکون کا ہوتا ہے ،اپنی زات کو ہمیشہ آپ کے بعد رکھا ہے میں نے بس نام لکھتے ہوئے اپنے نام کے آگے لکھا آپ کا نام مجھے اچھا لگتا ہے ،اور اسی لیے میں کبھی اپنا پورا نام نہیں لکھتی ہمیشہ آدھا لکھتی ہوں۔
کچھ عادتیں اور رشتے ایسے ہوتے ہیں جنکی قید میں انسان ہمیشہ رہتا ہے اور موت کے ساتھ ہی اس قید سے رہائی پاتا ہے لیکن مجھے لگتا ہے کے لحد کے سینے میں بھی میرا دل آپ کے نام پہ ضرور دھڑکے گا ۔
کہ جسم فانی ھے تو کیا روح تو امر ہے نا ۔
اور پڑھنے والے کیا جانے کہ لفظ ، محبت ، عقیدت یہ سب صرف لڑکا لڑکی کے مخصوص رشتے کیلیے نہیں ہوتے ،رشتہ کوئی بھی ہوسکتا ہے
Twitter ID @PatrioticUjii