بہت کچھ کہنے کو دل کرتا ہے لیکن کہہ نہیں سکتا،جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب

اسلام آباد ہائی کورٹ نے 34 بلوچ طلباء کی آج ہی شناخت پریڈ کا حکم دے دیا
islamabad highcourt

اسلام آباد ہائی کورٹ میں بلوچ مارچ کے شرکاء کی گرفتاری کے خلاف درخواست پر سماعت ہوئی

دوران سماعت اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایس ایس پی آپریشن اسلام آباد پیش ہوئے،بلوچ مارچ کے شرکاء کے وکیل وکیل عطاء اللّٰہ کنڈی نے عدالت میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ بلوچ مارچ کے شرکاء جب اسلام آباد پہنچے تو ان کو گرفتار کیا گیا، مارچ کے شرکاء پر واٹر کینن و آنسو گیس کا استعمال اور تشدد کیا گیا،جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے استفسار کیا کہ کتنے بلوچ مظاہرین گرفتار ہیں؟ وکیل نے عدالت میں کہا کہ اب بھی 34 بلوچ مظاہرین پولیس کی تحویل میں ہیں، ریکارڈ کے مطابق 196 بلوچوں کو گرفتار کیا گیا، 162 ضمانت پر ہیں، مظاہرین میں سے ظہیر بلوچ اب تک نہیں ملے، عدالت نے ایس ایس پی آپریشنز سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ احتجاج سے نمٹنے کی پالیسی یکساں ہونی چاہیے، کچھ مظاہرین کو آپ گود میں بٹھا لیتے ہیں، کچھ کے ساتھ یہ حال کرتے ہیں اگر ایس ایس پی کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں تو سیکریٹری داخلہ کو بلا لیتے ہیں، ہمیں کوئی دشمن نہیں چاہیے، ہم خود ہی اپنے دشمن ہیں

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے استفسار کیا کہ کیا اسلام آباد میں مظاہرین کو ریڈ زون میں بھی پیمپر نہیں کیا جاتا؟ کچھ مظاہرین کو احکامات پر پولیس کی جانب سے تحفظ دیا جاتا ہے، کیا بلوچ مظاہرین نے تنصیبات پر حملہ کیا؟ایس ایس پی آپریشنز نے عدالت میں کہا کہ جو 34 بلوچ گرفتار ہیں ان کی شناخت پریڈ مجسٹریٹ کو کرنی ہے،درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ آئی جی اسلام آباد کے بیانات میں تضادات ہیں ان بیانات پر رپورٹ طلب کی جائے، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اس ملک میں ضمانت کے احکامات کے باوجود ضمانت نہیں ہوتی، انگریز نے بلوچ کے بارے میں کیا کہا تھا؟ انگریز نے بلوچ کے بارے میں کہا کہ بلوچ کو عزت دو اور وہ آپ کے لیے کچھ بھی کرے گا، اس ملک میں تب تک کچھ نہیں ہوتا جب تک کچھ ہو نہ جائے مجسٹریٹ کل تک شناخت کا عمل مکمل کریں،ایڈووکیٹ جنرل نےکہا کہ حکومت پر الزامات لگانا آسان ہے، مظاہرین میں سے کوئی بھی بلوچ لا پتہ نہیں،بلوچ مارچ کے شرکاء کے وکیل نے استدعا کی کہ عدالت رپورٹ مانگے کہ مظاہرین میں سے 50 سے زائد خواتین کو کیوں گرفتار کیا گیا؟جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ بہت کچھ کہنے کو دل کرتا ہے لیکن کہہ نہیں سکتا،ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے عدالت میں کہا کہ ظہیر بلوچ کی ضمانت ہو چکی ہے، مچلکے جمع نہ ہونے پر انہیں رہا نہیں کیا گیا،اسلام آباد ہائی کورٹ نے 34 بلوچ طلباء کی آج ہی شناخت پریڈ کا حکم دے دیا، اسلام آباد پولیس سے خواتین بلوچ مظاہرین کی رپورٹ طلب کر لی اور کیس کی سماعت 29 دسمبر تک ملتوی کر دی

وفاقی پولیس نے بلوچ یکجہتی کونسل کیطرف سے پھیلائی جانے والی خبروں کو پراپیگنڈہ قرار دیدیا

تمام جائز مطالبات پورے کئے جائیں گے،حکومتی نمائندوں کےبلوچ یکجہتی کونسل کے مظاہرین سے مذاکرات

بلوچ لانگ مارچ،300 افراد گرفتار،مذاکراتی کمیٹی قائم،آئی جی سے رپورٹ طلب

ایک ماہ میں بلوچ طلباء کی ہراسگی روکنے سے متعلق کمیشن رپورٹ پیش کرے ،عدالت

 دو ہفتوں میں بلوچ طلبا کو ہراساں کرنے سے روکنے کیلئے کئے گئے اقدامات کی رپورٹ طلب

کسی کی اتنی ہمت کیسے ہوگئی کہ وہ پولیس کی وردیوں میں آکر بندہ اٹھا لے،اسلام آباد ہائیکورٹ

کیا آپ شہریوں کو لاپتہ کرنے والوں کی سہولت کاری کر رہے ہیں؟ قاضی فائز عیسیٰ برہم

لوگوں کو لاپتہ کرنے کے لئے وفاقی حکومت کی کوئی پالیسی تھی؟ عدالت کا استفسار

لاپتہ افراد کیس،وفاق اور وزارت دفاع نے تحریری جواب کے لیے مہلت مانگ لی

عدالت امید کرتی تھی کہ ان کیسز کے بعد وفاقی حکومت ہِل جائے گی،اسلام آباد ہائیکورٹ

Comments are closed.