بوڑھوں کو بوجھ نہ سمجھئے تحریر:محمد سدیس خان

0
92

بوڑھے عام طور پر بوجھ سمجھے جاتے ہیں، بہت سے گھروں میں ان کی کوئی قدر وقیمت نہیں ہوتی، ان کے مشوروں اور نصیحت آمیز باتوں کو ” بکواس” سمجھا جاتا ہے۔ عام طور پر کاروبار کرنے اور پنشن پانے والے بزرگوں کو برداشت کرلیا جاتا ہے۔ مگر جن بزرگوں کی آمدنی کا کوئی ذریعہ نہیں ہوتا وہ پوری طرح سے گھر والوں کے مرہون منت ہوتے ہیں۔ ان کی حالت گھر میں کسی اجنبی کی سی ہوکر رہ جاتی ہے۔

کہنے کا مطلب یہ ہے کہ جب تک ایسے بزرگ جو کما کر لاتے ہیں یا کاروبار کرتے ہیں یا پھر پنشن کی موٹی رقم پاتے ہیں، تب تک ان کی خدمت میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی جاتی۔ اور انہیں بوجھ نہیں سمجھا جاتا، وقت پر کھانا ہی نہیں بلکہ وقتاً فوقتاً گھر والوں کا پیار بھی ملتا رہتا ہے۔ بیمار ہونے پر ان کی تیمارداری بھی کی جاتی ہے کیونکہ وہ دواؤں کا خرچ خود برداشت کرتے ہیں۔

ایسے بزرگوں کی بھی اس وقت تک عزت کی جاتی ہے جن کے نام زمین جائیداد ہوتی ہے، اور ان کی تیمارداری یا ان پر محبتیں اس لیے لڑائی جاتی ہیں کہ انہیں اس جائیداد سے بھاری بھر کم رقم مل جائے۔

یعنی کہ کمانے والے، کاروبار کرنے والے یا بے شمار دولت رکھنے والے بزرگوں کو سرآنکھوں بٹھایا جاتا ہے، وہ بھی اس وقت تک جب تک ان کے پاس دولت ہوتی ہے یا وہ کمانے کے قابل ہوتے ہیں۔

جہاں ان کے پاس دولت نہیں رہ جاتی یا وہ کمانے کے لائق نہیں رہ جاتے انہیں گھر میں بوجھ سمجھا جانے لگتا ہے، ایسا ہر گھر میں نہیں ہوتا، لیکن آج بیشتر گھروں میں بزرگوں کو اسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔

بات پھر وہیں پر آکر رک جاتی ہے کہ آخر اس کا ذمہ دار کون ہے؟ کیا وہ بچے جن کی پرورش ان ہی بزرگوں نے بڑے ناز و انداز سے تو کی، لیکن انہیں بزرگوں کی عزت کا سلیقہ نہیں سکھایا، انہیں یہ نہیں بتایا کہ وہ کبھی اپنے بچوں کے بیمار ہونے پر انہیں بوجھ نہیں سمجھا کرتے تھے، انہوں نے کبھی یہ سوچ کر انہیں تعلیم سے محروم نہیں رکھا کہ چھوڑو کون تعلیم دلوائے کہ اس میں اتنے پیسے خرچ ہوتے ہیں۔

انہوں نے اپنے بچوں کو کبھی یہ احساس بھی نہیں ہونے دیا کہ انہیں اچھے اور عمدہ لباس پہنانے کیلئے دن رات کتنی محنت کرنا پڑتی تھی، ان کا پیٹ بھرنے کے لیے بعض اوقات وہ خود بھوکے رہ جایا کرتے تھے، لیکن انہیں پیٹ بھر کھانا کھلائے بغیر کبھی نہیں سلایا، بچوں کا مستقبل سنوارنے کے لیے انہوں نے اپنے آپ کو وقف کردیا، پھر ان کے ساتھ برا سلوک کیوں کیا جاتا ہے؟

کیا نوجوان یہ سمجھتے ہیں کہ وہ کبھی بوڑھے نہیں ہوں گے؟ اپنے والدین اور بزرگوں کے ساتھ بدسلوکی اور بدتمیزی کرنے والے نوجوان والدین یہ بھول جاتے ہیں، کہ کل کو ان کی بھی اولاد جوان ہوگی اور کل وہ بھی بوڑھے ہوں گے، اور جو سلوک وہ اپنے ماں باپ اور بزرگوں کے ساتھ کررہے ہیں، ویسا ہی سلوک ان کے بچے ان سے کریں گے، اس لئے ضروت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے بزرگوں کو اپنے آپ پر بوجھ نہ سمجھیں، بلکہ ان کی قربانیوں اور ان کی بزرگی کا خیال کرتے ہوئے ان کی تیمارداری, ان کی دل بستگی، ان کی پسند، ناپسند، ان کے آرام اور ان کی ضروریات کا بھر پور خیال رکھیں۔

مانا کہ بزرگ بڑھاپے میں تھوڑے سخت اور چڑچڑے ہوجاتے ہیں، لیکن یہ عمر کا تقاضا ہے، ے ہیں کہ بچہ اور بوڑھا برابر ہوتے ہیں، یعنی جب انسان بوڑھا ہو جاتا ہے تو وہ بچوں جیسا برتاؤ کرنے لگتا ہے، اس کا ضد کرنا، بات بات پر چڑچڑاپن کا مظاہرہ کرنا بہت عام بات ہے، بزرگ بلکل اس بچے کی طرح ہوجاتے ہیں جو اپنی بات پوری نہ ہونے یا کسی چیز کے نہ ملنے پر ناراض ہوجاتا ہے یا چڑ جاتا ہے۔ ہمیں ان کی خدمت یوں کرنا چاہئے جیسے ہم اپنے بچے کی کرتے ہیں، ان کی خدمت نہ صرف دنیا میں آپ کو سرخرو کرے گی۔

بلکہ آپ کی آخرت بھی سنور جائے گی، بوڑھوں کا بیمار ہونا، بات بات پر نکتہ چینی کرنا یا گھر ہی میں موجود رہنا بے شک آپ کو پریشان کرتا ہوگا، لیکن ان حالات میں ہی آپ کی صحیح آزمائش ہوتی ہے کہ آپ اپنے والدین کو یا گھر کے بزرگوں کو کتنی اہمیت دیتے ہیں، اور ان کی کتنی تیمارداری کرتے ہیں۔

ایک طرح سے یہ آپ کا امتحان ہوتا ہے، اور اس امتحان میں کامیابی کے بعد ہی آپ دنیا و آخرت میں سرخرو ہوسکتےہیں۔

یہاں بزرگوں سے بھی ایک گزارش ہے کہ وہ اپنے آپ کو اتنا کمزور اور لاچار نہ بنائیں، کہ بچے آپ کو بوجھ سمجھنے لگیں یا آپ سے چڑنے لگیں، یہ اس وقت ہی ممکن ہوسکتا ہے۔ جب بزرگ نہ صرف اپنے آپ کو مثالی والدین بنا کر پیش کریں گے، بلکہ بچوں کی تربیت بھی اس انداز میں کریں گے، کہ وہ عمر کے کسی بھی حصے میں آپ سے بدتمیزی کرنے کی ہمت نہ کرسکیں، اور نہ ہی آپ کے مشوروں کو رد کرسکیں، تو یقیناً حالات ٹھیک ٹھاک رہیں گے۔

بعض بزرگ بلاوجہ گھر کے معاملات میں دخل دینے ہیں یا اپنی بات منوانے کے لیے بچوں کو برا بھلا بھی کہتے رہتے ہیں، بھلے ہی ان کی بات غلط ہو وہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ انہیں کی بات مانی جائے، ایسے میں حل کچھ نہیں نکلتا بلکہ اولاد اور والدین کے درمیان تلخیاں بڑھ جاتی ہیں۔

اس لیے بزرگوں کو بھی عمر اور تجربے کی بناء پر سمجھداری اور مصلحت سے کام لیتے ہوئے اپنے خاندان کو آگے بڑھانے میں مدد دینی چاہئے اور نوجوانوں کو بھی ان کا ساتھ دینا چاہئے۔ تب جاکر نوجوانوں اور بزرگوں کے بیچ کی اس خلش کو ختم کیا جاسکتا ہے۔ مسلم معاشرے میں اسلامی تعلیمات کو پیش نظر رکھتے ہوئے بزرگوں کے احترام اور ان کی ضروریات کا خیال رکھنا بے حد ضروری ہے۔

Twitter: @msudaise0

Leave a reply