سائفر کیس،عمران خان کی درخواست ضمانت پر سماعت جمعرات تک ملتوی

0
96
imran

اسلام آباد ہائیکورٹ: سائفر کیس میں چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی درخواست ضمانت پر سماعت ہوئی،
اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے سماعت کی،چیئرمین پی ٹی آئی کی اہلیہ بشری بی بی کمرہ عدالت پہنچ گئیں ،چیئرمین پی ٹی آئی کی بہن علیمہ خان بھی کمرہ عدالت پہنچ گئی ،چیئرمین پی ٹی آئی کی لیگل ٹیم کمرہ عدالت پہنچ گئی،پٹیشنر چیئرمین پی ٹی آئی کی جانب سے وکیل بیرسٹر سلمان صفدر عدالت میں پیش ہوئے،سپیشل پراسیکیوٹرز راجہ رضوان عباسی، ذوالفقار عباس نقوی اور شاہ خاور بھی عدالت میں پیش ہوئے،ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال دوگل بھی کمرہ عدالت میں موجود تھے،

چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل سلمان صفدر نے دلائل کا آغاز کردیا،وکیل سلمان صفدر نےسائفر کیس کی ایف آئی آر پڑھ کر سنا ئی.چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ صرف 2 لوگ روسٹرم پر رہیں باقی بیٹھ جائیں ،عمران خان کی درخواست ضمانت پر اوپن کورٹ میں سماعت کا آرڈر دیا ہے، اگر کوئی ایسی چیز آتی ہے جو حساس ہو تو پھر دونوں وکلا کی مشاورت سے ان کیمرہ دلائل سنیں گے،شاہ خاور ایڈووکیٹ نے کہا کہ ہم کورٹ کی معاونت کرتے ہوئے بتا دیا کریں گے کہ فلاں بیان کا یہ حصہ کورٹ صرف خود پڑھ لے، ‘

چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کے وکیل بیرسٹر سلمان صفدر نے دلائل کا آغاز کر دیا ،وکیل نے کہا کہ اس ایف آئی آر کا ہر کالم اہم ہے، سیکرٹری داخلہ یوسف نسیم کھوکھر کمپلیننٹ ہیں، آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت یہ مقدمہ درج کیا گیا،اب میں ایف آئی آر کے متن پر آتا ہوں، چیئرمین پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کو اس ایف آئی آر میں ملزم نامزد کیا گیا، الزام ہے کہ ذاتی مقاصد کے حصول کے لیے کلاسیفائیڈ ڈاکومنٹ کے حقائق کو ٹوئسٹ کیا گیا،ایف آئی آر کے مطابق چیئرمین پی ٹی آئی نے سیکرٹری اعظم خان کو میٹنگ منٹس تیار کرنے کا کہا ،سائفر کو غیر قانونی طور پر پاس رکھنے اور غلط استعمال کرنے کا الزام عائد کیا گیا،کہا گیا کہ اسد عمر اور محمد اعظم خان کے کردار کو تفتیش کے دوران دیکھا جائے گا،ایف آئی اے نے سیکرٹری داخلہ کے ذریعے آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا،عدالت نے استفسار کیا کہ مقدمہ کے چالان میں کتنے افراد کو ملزم بنایا گیا ہے؟ بیرسٹر سلمان صفدر نے کہا کہ چالان میں سابق وزیراعظم اور سابق وزیر خارجہ کو ملزم بنایا گیا ہے، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ سائفر کوڈڈ فارم میں آتا ہے، دہلی اور واشنگٹن سے آ رہے ہوں گے، انہیں ڈی کوڈ کرنے کا کیا طریقہ ہوتا ہے؟بیرسٹر سلمان صفدر نے عدالت میں کہا کہ ہر ایمبیسی میں ایسے تربیت یافتہ افراد ہوتے ہیں جو سیکرٹ کوڈز سے واقفیت رکھتے ہیں، سائفر فارن آفس میں آتا ہے، ڈی کوڈ ہونے کے بعد اس کی کاپیز بنتی ہیں،سائفر کی کاپیز پھر آرمی چیف سمیت چار آفسز میں تقسیم ہوتی ہیں،یہ سیکرٹ ڈاکومنٹ کی سیکرٹ کمیونی کیشن ہوتی ہے،

آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے سیکشن پانچ اے کی سزا 14 سال اور سزا ئےموت ہے ،وکیل چیئرمین پی ٹی آئی

سپیشل پراسیکیوٹر ذوالفقار عباس نقوی نے کہا کہ فارن سیکرٹری کی ڈومین ہوتی ہے کہ سائفر کس کس کو بھجوانا ہے، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کوئی سٹینڈرڈ پریکٹس نہیں کہ کس کس آفس کو لازمی جاتا ہے؟سپیشل پراسیکیوٹر شاہ خاور نے کہا کہ جی، یہ اس بات پر منحصر ہوتا ہے کہ سائفر کا پیغام کس نوعیت کا ہے، آخر میں اوریجنل سائفر رہ جاتا ہے، ڈی کوڈڈ ٹیکسٹ نہیں، بیرسٹر سلمان صفدر نے کہا کہ آفیشل سکریٹ ایکٹ 1923 کا سو سال پرانا قانون ہے، اس ایکٹ کے اندر کسی جگہ سائفر کا ذکر نہیں ،کہوٹہ پلانٹ کی تصاویر لے کر دشمن ملک کو دے دوں، اس پر لگتا ہے آفیشل سیکرٹ ایکٹ، آفیشل سیکرٹ ایکٹ میں چودہ سال قید یا موت کی سزا ہے،کسی دشمن ملک سے سائفر شیئر نہیں کیا، قومی سلامتی کے حوالے سے ایسا کچھ نہیں کیا، چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آپ دشمن ملک کس کو کہیں گے؟ عموما جنگ کے موقع پر ہوتا ہے کہ یہ فلاں دشمن ملک ہے. وکیل نے کہا کہ یہاں کلبھوشن جادھو، ابھی نندن یا کہوٹہ پلانٹس کے نقشے بنانے کا واقعہ نہیں ہے، پہلے یہ قانون پڑھا اور پھر کہانی لکھ کر تمام وہی الفاظ شامل کر دیے گئے، اس قانون کو بہتر کرنے کی کبھی ضرورت پیش نہیں آئی، اب اس میں ترمیم کر کے سائفر کو شامل کیا گیا، کوشش کی گئی کہ تبدیلی لے آئیں مگر اس کا اطلاق اس ایف آئی آر پر نہیں ہو سکتا،بدنیتی کی بنا پر قانون میں نئی ترمیم کی گئی،آفیشل سیکریٹ ایکٹ میں ترامیم چیلنج بھی کی جا چکی ہیں، سو سال میں اس قانون میں ترمیم نہیں کی گئی، ایف آئی آر درج ہونے کے بعد اس قانون میں ترمیم کی گئی،مجھے نئے قانون میں کوئی چیز ایسی لگی جو غلط ہو، جو تبدیلی قانون میں آئی وہ اس ایف آئی آر میں دیکھ بھی نہیں سکتے، سابق وزیراعظم اور وزیر خارجہ جو باہر سے پڑھے ہوں انکو نہیں پتا ہو گا کیا کرنا ہے، چیف جسٹس عامرفاروق نے استفسار کیا کہ دنیا میں ایسا کوئی سائفر کے حوالے سے کیس ہوا ہے، سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر شائد کوئی کیس چل رہا ہے اس متعلق ؟
سلمان صفدر کی جانب سے سکریٹ ایکٹ سے متعلق مختلف فیصلوں کے حوالے دیئے گئے،اور کہا گیا کہ ماضی میں کبھی بھی صرف آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت ٹرائل نہیں ہوا، ہمیشہ آرمی ایکٹ، نیوی یا ایئر فورس کے قوانین کے ساتھ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کا اطلاق کیا گیا، یہ کیسز آرمی افسران کے خلاف ڈیفنس معاملات میں چلائے گئے

چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل کی جانب سے سات مختلف کیسز کے حوالہ جات پیش کیے گئے،وکیل نے کہا کہ اس کیس میں چیئرمین پی ٹی آئی کی گرفتاری کو دو ماہ ہو گئے ہیں،چیئرمین پی ٹی آئی کو سائفر کیس میں پندرہ اگست کو گرفتار کیا گیا تھا،
پٹیشنر ایک سیاسی قیدی ہے، بیس سے زائد مقدمات میں ضمانت ملی کیونکہ وہ کیسز بدنیتی کی بنیاد پر بنائے گئے تھے، چیئرمین پی ٹی آئی کی عمر 71 سال ہے، بڑی سیاسی جماعت کے سربراہ ہیں، سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، سیاسی مخالفین کی ایما پر مقدمات درج کیے گئے،چالیس کیسز صرف اسلام آباد اور دو سو کے قریب ملک بھر میں مقدمات درج کیے گئے،جس مقدمے میں ٹرائل کورٹ ایک دن کا بھی فزیکل ریمانڈ نا دے تو یہ بھی ضمانت کا گروانڈ ہے ،پراسیکیوشن نے ٹرائل کے فزیکل ریمانڈ نا دینے کے فیصلے کو چیلنج نہیں کیا ،میرے سے کسی قسم کی کوئی ریکوری نہیں ہوئی ،فزیکل ریمانڈ نا دینے کا ٹرائل کورٹ کا فیصلہ حتمی شکل اختیار کر چکا ہے ،16 اگست کو دئیے جانے والے ریمانڈ کے وقت نا ہماری حاضری ہے نا ہمیں پتہ چلا ،16 اگست کا ریمانڈ ہمیں 30 اگست کو پتہ چلا ،چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواست ضمانت پر سماعت جمعرات تک ملتوی کر دی گئی

خیال رہے کہ عمران خان نے بیرسٹر سلمان صفدر ایڈووکیٹ کی وساطت سے اسلام آباد ہائیکورٹ میں سائفر گمشدگی کیس میں درخواست ضمانت دائر کی، جس میں چیئرمین پی ٹی آئی کی جانب سے استدعا کی گئی کہ انہیں ضمانت پر اٹک جیل سے رہا کیا جائے درخواست میں مؤقف اپنایا گیا ہے کہ استغاثہ نے بدنیتی پر مبنی مقدمہ درج کیا14 ستمبر کو آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خصوصی عدالت نے درخواست ضمانت مسترد کی خصوصی عدالت کی جانب سے بے ضابطگیوں اور استغاثہ کے متعدد تضادات کو مکمل طور پر نظر انداز کیا گیا۔

سائفر کیس میں عمران خان اور شاہ محمود قریشی کی ضمانتیں مسترد ہونے کا 7 صفحات کا تفصیلی فیصلہ جاری کیا گیا تھا،تفصیلی فیصلے میں عدالت نے کہا کہ ” عمران خان اور شاہ محمود قریشی کے خلاف ناقابل تردید شواہد ہیں جو ان کا کیس سے لنک ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں ریکارڈ کے مطابق ملزمان آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی سیکشن 5 اور 9 اور ناقابل ضمانت دفعات کے جرم کے مرتکب ٹھہرے ، ضمانتیں خارج کرنے کے لیے مواد کافی ہے ہمیں یہ مدنظر رکھنا چاہیے یہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کا ٹاپ سیکرٹ کیس ہے آئندہ سماعت پر غیر متعلقہ افراد پر دوران سماعت پابندی ہو گی عدالتی ہداہت کے باوجود پٹشنرز کی جانب سے سرٹیفکیٹ نہیں دیا گیا میرٹ اور سرٹیفکیٹ دینے کے عدالتی آرڈر پر عمل نا کرنے کی وجہ سے ضمانت خارج کی جاتی ہے

عدالت نے اپنے آرڈر میں ایف آئی اے پراسیکیوٹرز کے دلائل لکھتے ہوئے کہا ہے کہ ” پراسیکیوشن کے مطابق 161 کے بیانات کے مطابق عمران خان کی جانب سے سائفر کو غیر قانونی طور پر اپنے پاس رکھنا ثابت ہے اور انہوں نے غیر متعلقہ افراد کے سامنے سائفر معلومات گھما پھیرا کر شئیر کیں، جس نے بیرونی طاقتوں کو فائدہ پہنچایا اور پاکستان کی سیکیورٹی کو متاثر کیا ،

جو کام حکومتیں نہ کر سکیں،آرمی چیف کی ایک ملاقات نے کر دیا

جنرل عاصم منیر کے نام مبشر لقمان کا اہم پیغام

عمران خان پربجلیاں، بشری بیگم کہاں جاتی؟عمران کےاکاونٹ میں کتنا مال،مبشر لقمان کا چیلنج

ہوشیار۔! آدھی رات 3 بڑی خبریں آگئی

بشریٰ بی بی، بزدار، حریم شاہ گینگ بے نقاب،مبشر لقمان کو کیسے پھنسایا؟ تہلکہ خیز انکشاف

لوٹوں کے سبب مجھے "استحکام پاکستان پارٹی” سے کوئی اُمید نہیں. مبشر لقمان

لوگ لندن اور امریکہ سے پرتگال کیوں بھاگ رہے ہیں،مبشر لقمان کی پرتگال سے خصوصی ویڈیو

Leave a reply