باغی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق خیبر پختونخواہ کے صوبائی دارالحکومت پشاور میں پولیس لائنز کی مسجد میں ہونیوالے دھماکے میں ایک سو اموت ہوئی ہیں، مرنیوالے میں زیادہ تر پولیس اہلکار تھے، جنکی نماز جنازہ سرکاری اعزاز کے ساتھ ادا کی گئی

پولیس لائن میں ہونیوالے حملے پر بہت سارے سوالات اٹھائے جا رہے ہیں،کہ ایک ایسا علاقہ جہاں سرکاری دفاتر ہیں اور ریڈ زون ہے وہاں تک حملہ آور کیسے پہنچا؟ پولیس حکام نے سیکورٹی کی کوتاہی تسلیم کی ہے اور کہا ہے کہ اسکی تحقیقات ہوں گی کہ حملہ آور کیسے پہنچا، یہ سیکورٹی کی ناکامی ہی ہے کہ حملہ آور اپنے ہدف تک پہنچنے میں کامیاب ہوا

پشاور میں پولیس لائن مسجد پر حملے کے بعد ہر پاکستانی غم اور سوگ میں مبتلا ہے، حکومت نے اسے قومی سانحہ قرار دیا ہے، حکومت و اپوزیشن رہنماؤں نے واقعہ کی مذمت کی ہے، اور دہشت گردوں کیخلاف کاروائی کا مطالبہ کیا ہے اب وہیں، پولیس اہلکار اس حملے کے خلاف سڑکوں پر آ گئے ہیں، مردان پولیس کے اہلکار پشاور پولیس لائن سانحے کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے اور پولیس اہلکاروں نے پریس کلب کے سامنے احتجاج کیا، پولیس اہلکاروں نے سبز ہلالی پرچم اٹھا رکھا تھا اور مظاہرے میں شریک پولیس اہلکاروں نے پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے جس پر ان کے حق میں مطالبات درج تھے، پولیس اہلکاروں کا کہنا تھا کہ جب تک پولیس محفوظ نہیں عوام کیسے محفوظ ہونگے ، پولیس کو تحفظ فراہم کیا جائے ، سانحہ پشاور کی شفاف انکوائری کی جائے ،مظاہرین یہ بھی نعرے لگاتے رہے کہ یہ جو نامعلوم ہے یہ کب تک نامعلوم رہینگے ،

سیکیورٹی کے باوجود خود کش حملہ آور کیسے مسجد پہنچا انکوائری ہو گی،وزیر داخلہ

پشاور دھماکہ / شہداء فہرست

امریکہ، ایران، ترکی، سمیت دیگر ممالک نے بھی مذمت کی

ہوسکتا ہے کہ حملہ آور پہلے سے ہی پولیس لائنز میں موجود ہو 

نیشنل ایکشن پلین پر سختی سے عمل کرنے کی ضرورت ہے،

ہ پشاور کا سانحہ دہشت گردوں کی مزاحمت کا تقاضا کر رہا ہے،

Shares: