غیرت کی طغیانی ۔۔۔ محمد طلحہ سعید

0
57

رات کی سیاہ تاریکی ہر اک جانب گھور اندھیرے گاڑے ہوئے تھی۔افق پر چاند اپنی روشنی کی وجہ سے خود کو سود مند ثابت کرنے کی کوشش کر رہا تھا مگر غلامی کی تاریکیوں کے سامنے چاند کی مرضی نہیں چلا کرتی۔غلامی کے اندھیروں کو صرف وہ چراغ ہی مٹا سکتے ہیں جو اپنے خون کو ایندھن بنا کر جلایا کرتے ہیں!

رات کی تاریکی چھٹنے لگی۔سورج کی حسین کرنیں مشرق سے نمودار تو ہوئیں مگر چاند ہی کی طرح سورج بھی غلامی کے اندھیروں کو نہ بھگا سکا۔نجانے ان اندھیروں کو ختم کرنے کیلیے کتنے چاند نمودار ہوئے اور ناکام روپوش ہوگئے۔نجانے کتنی بار سورج نے کاوشیں کیں مگر نامراد لوٹا۔مگر اس صبح والا سورج کچھ الگ ہی اہمیت رکھتا تھا۔اس جبر و استبداد سے محو جنگ وادی میں مائیں اپنے جگر گوشوں کو جہاں ایک طرف آہنی زرہ پہنایا کرتیں اور سعد و خالد اور ابو عبیدہ رضی اللہ تعالی عنھم کے قصے سنایا کرتیں وہیں وہ اپنے بیٹوں کو بستہ تھما کر قلم جیسی عظیم تلوار پکڑنے کو سکول بھیجا کرتیں۔اس صبح بھی ایک جگر گوشہ اپنا بستہ تھامے سکول کی جانب رواں دواں تھا۔وہ تتلیوں کو دیکھتا اور انہیں پکڑنے کی آرزو کرتا۔وہ بلند و بالا پہاڑ دیکھتا اور ان میں کھو جانا چاہتا۔اس عالم میں اس کے سامنے کچھ ڈراؤنی شکلوں والے لوگ نمودار ہوئے جنہوں نے ہاتھوں میں بندوقیں پکڑی ہوئی تھیں۔لڑکا ان سب کو دیکھتا جا رہا تھا اور آگے بڑھتا جا رہا تھا۔دیکھتے دیکھتے اس کے سامنے ان لوگوں نے بندوقیں تان لیں اور اس سے اسکا بستہ چھین لیا۔لڑکا محو حیرت تھا۔وہ سمجھ نہ پا رہا تھا کہ ابھی تو وہ تتلیاں پکڑنے کی آرزو کر رہا تھا اور یکایک اس سے اسکا بستہ چھین لیا گیا۔لڑکا ان لوگوں سے مخاطب ہوا:

"انکل مجھے سکول جانا ہے میرا بستہ لوٹا دیجیے۔”

ان الفاظ میں وہی بچوں جیسی معصومیت تھی۔
جواب میں ان میں سے ایک آدمی نے بڑے طنزیہ انداز میں کہا

"مسلمان اب یہاں پڑھیں گے؟جا نکل جا یہاں سے۔۔۔تجھے ہم نے سکول نہیں جانے دینا۔”

لڑکا دوبارہ حیرت کی کیفیت میں لوٹ گیا کیونکہ ابھی تک اس سے کسی نے اتنے سخت لہجے میں بات نہیں کی تھی۔ وہ رونا چاہتا تھا مگر غیرت نے یہ گوارا نہ کیا۔

وہ واپس پلٹا۔ یہ سوچ کر کہ ابا سے انکی شکایت کروں گا۔ وہ راستے میں تھا کہ اسی جگہ پر جہاں اس نے ابھی تتلیاں دیکھی تھی، آگ بھڑک رہی تھی۔ وہ حیرت کے مارے وہاں کھڑا ہوگیا اور یہ سوچنے لگا کہ ابھی تو یہاں دلفریب مناظر تھے مگر اب_______ وہ دیکھ رہا تھا کہ ہر سو بھگدڑ مچی ہوئی تھی۔اسی بھگدڑ میں ایک آدمی سے لڑکے نے پوچھا”چچا یہ کیا ہوا ہے”۔آدمی نے جواب دیا "بیٹا یہاں سے انڈین آرمی کا گزر ہوا تھا۔انہوں نے ہم سے پیسوں کی طلب ذلت آمیز انداز میں کی۔ہم نے انکار کردیا کہ خود ہم معاشی پریشانیوں سے دو چار ہیں،ہم پیسے نہیں لاکر دے سکتے۔جواب میں انہوں نے ایک ضعیف شخص کو پیٹا جس کا قصور یہ تھا کہ اس نے ہی ہماری نمائندگی کی تھی،اس شخص کے دو بیٹوں کو اٹھا کر لے گئے اور جاتے جاتے ہمارے مکانوں اور کھیتوں کو آگ لگا گئے۔”
یہ سن کر لڑکے کو شدید جھٹکا لگا۔اس سے اس کے دل نے رونے کی اجازت مانگی مگر غیرت نے انکار کردیا کہ آنسو انسانوں کے سامنے نہیں بہائے گا۔

لڑکا فوراََ تیز رفتار میں گھر کی سمت بھاگا۔اب اب کی بار بھی اسکا سامنا دل دہلا دینے والے مناظر سے ہوا۔سڑک پر ایک ادھیڑ عمر کا شخص سر پہ ہاتھ رکھ کر بیٹھا ہوا تھا۔اس کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے لڑکے نے اس سے پوچھا کہ چچا کیا ہوا ہے؟
آدمی نے جواب دیا "بیٹا کچھ بھارتی فوجی آئے تھے۔میرے بیوی اور بیٹے کو مار کر چلے گئے” اور______”میری دو بیٹیوں کو اپنے ساتھ اٹھا کر لے گئے۔”یہ کہتے ہی وہ پھر دھاڑیں مار مار کر رونے لگا۔لڑکے نے اس کاروائی کی وجہ پوچھی تو آدمی نے جواب دیا کہ "وہ دیکھو ہمارے گھر کی چھت پر پاکستان کا خوبصورت سبز ہلالی پرچم لہرا رہا ہے۔انہوں نے ہم سے کہا کہ اس ہرچم کو اتارو اور ہمارے قدموں میں لاکر رکھو۔مگر یہ پرچم ہمیں جان سے زیادہ پیارا ہے۔ہم نے فوراََ انکار کردیا۔اس پر انہوں نے مجھے پیٹنا شروع کیا۔میرا بیٹا اور بیوی آگے بڑھے۔اسی اثنا میں دو فائر ہوئے اور میری بیوی اور بیٹے کی لاشیں زمین پر گریں اور پھر وہ______”
لڑکا افسوس و انتقام کے جذبات سے بھر چکا تھا۔اسے اذان کی آواز سنائی دی اور وہ مسجد کی جانب روانہ ہوا۔نماز کے بعد اس نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے تو نہ اسکے دل نے اجازت لی نہ غیرت نے انکار کیا۔اسکے آنسو بہہ نکلے اور ایسے بہے کہ اسکا چہرا تر ہوگیا۔
وہ گھر پہنچا۔ماں کو سارا واقعہ سنایا اور ماں کے سامنے اپنا ارادہ ظاہر کیا کہ ”مجھے اب ان ظالموں کے خلاف لڑنا ہے۔مجھے انکے تعاقب میں تب تک بندوق تھامے رکھنی یے جب تک میں اپنی آخری سانس کو پورا نہ کر لوں۔”
ماں نے مسرت آمیز مسکراہٹ چہرے پر سجائی اور اپنے جگر گوشے کی طرف دیکھا۔آج اس کے بیٹے کے چہرے پر اسے محمد بن قاسم اور سلطان ٹیپو کی جھلک دکھائی دی۔ماں کو اب معلوم ہوا کہ آج کے سورج میں خاص بات کیا تھی۔اس نے خوشی کے ساتھ بیٹے کو اجازت دی اور اس کے لیے بندوق کا بندوبست کیا۔
اگلے روز لڑکا گھر سے نکلا اور آذادی کے راہیوں کے کیمپ میں انہیں پہاڑوں کی آغوش میں پہنچ گیا جہاں اس نے گزشتہ دن جانے کی خواہش کی تھی۔وہاں سے تربیت پائی اور پھر دشمنوں کے سامنے صف آرا ہوا۔اب وہ جان گیا تھا کہ اسے تتلیوں کو نہیں درندوں کو پکڑنا ہے!

دن ہفتے اور ہفتے مہینوں میں تبدیل ہوتے گئے۔مگر اب اس وادی کے حالات علحیدہ تھے۔وہ درندے جو کھلم کھلا پھرا کرتے تھے اب اپنی پناہ گاہوں سے نکلنے کو ڈرتے تھے۔آزادی کی کوششیشیں اب تیز ہوچکی تھیں ۔انڈین فوج نے اس لڑکے پر بھاری انعام مقرر کیا اور اسے پکڑنے کی کاوشیں تیز کردیں جس سے انہیں اب ڈر لگنے لگا تھا۔مگر وہ لڑکا بھی ڈٹا رہا۔اور اپنی غیرت کی طغیانی سے ظلم کو ڈبوتا رہا۔اب وہ ہر بہن کا بھائی،ہر بھائی کا ہمدم، ہر ماں کا لال اور ہر باپ کا سہارا بن چکا تھا۔

پھر ایک روز ۸ جولائی کو وہ لڑکا بھارتی فوجوں سے لڑتا ہوا شہادت نوش کرگیا۔مگر یہ چراغ بجھ کے بھی نہ بجھا کہ وہ اک عجب نور کا حامل تھا۔اس کی شہادت نے بھارتی فوج پر ایسا طوفان برپا کیا کہ جس کی تیز ہوائیں ابھی بھی چل رہی ہیں اور عدو پر اپنی تباہ کاریاں مچا رہی ہیں۔اسی حوالے سے شاعر سلیم اللہ صفدر نے کیا خوب کہا ہے:

وہ چراغ بجھ کہ بھی کیا بھجا
کہ وہ نور اتنا عجیب تھا
سر عرش سے تہہ خاک تک
سبھی روشنی میں نہا گئے

قارئیں کرام! جس لڑکے کا ہم نے ذکر کیا وہ بلاشبہ برہان مظفر وانی ہے۔اس سے کچھ واقعات منسوب کرکے ہم نے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ ایک کشمیری کے مجاہد بننے میں کیا کیا اسباب چھپے ہوتے ہیں۔ یہ ہلکہانی وادئ جنت نظیر کے عالم شباب میں داخل ہونے والے ہر جوان کی ہے۔ اب ذمہ داری ہماری بھی ہے کہ ہر محاذ پر کشمیریوں کی آواز بنے رہیں۔اور کم از کم انہیں اپنی دعاؤں میں لازمی یاد رکھیں۔
اللہ پاکستان اور کشمیر کا حامی و ناصر۔
کشمیر بنے گا پاکستان ان شاء اللہ

Leave a reply