کنٹونمنٹ انتخاب یا خطرے کی گھنٹی تحریر: سیف الرحمان

0
36

سال 2018کے جنرل الیکشن کے بعد پاکستانی سیاست کا رخ ہی بدل گیا ہے۔ اس وقت پانچ سکنٹونمنٹ انتخاب یا خطرے کی گھنٹی

تحریر: سیف الرحمانال کے بچے سے لے کر ستر سال کے بزرگ تک ہر شخص کی پاکستانی سیاست پہ نا صرف گہری نظر ہے بلکہ وہ بذاد خود کسی نا کسی صورت حصہ بھی لیتے نظر آ رہے ہیں۔ جنرل الیکشن پانچ سال کیلئے ہوتے ہیں۔ ان پانچ سالوں میں خالی ہونے والی نشستوں پر ضمنی الیکشن اور بلدیاتی الیکشن بھی ہوتے ہیں۔ ضمنی اور بلدیاتی الیکشن سے سیاست کے بدلتے رنگ اور لوگوں کے رجحان کا بھی پتا چلتا  رہتا ہے۔ 

  سابقہ ادوار میں    تمام  سیاسی حکومتوں نے پاور میں  آ کر بلدیاتی اداروں کو  تقریبا مفلوج کئے رکھا ۔ اگر دیکھا جائے تو ڈکٹیٹر شپ میں  نا صرف  باقاعدگی سے بلدیاتی انتخابات کرائے جاتے رہے بلکہ  ان کو اختیارات اور فنڈز بھی  ملتے رہے۔ سیاسی حکومتیں جنہیں سب سے زیادہ توجہ بلدیاتی اداروں پر دینی چاہیے انہوں نے بلدیات کو ہمیشہ پس پردہ رکھا۔ عوامی نمائندوں کو اختیارات اور فنڈز کی ترسیل روکے رکھی۔

اس وقت دیکھا جائے تو  ایک بار پھر بلدیاتی انتخابات کی تیاریاں  شروع ہو چکی ہیں۔ اس کا  پہلا مرحلہ کنٹونمنٹ اداروں کے الیکشن سے مکمل ہوا۔کنٹونمنٹ بورڈز کے 206وارڈز میں جنرل ممبر نشستیں جیتنے کیلئےکل 1513امیدواروں نے انتخابات میں حصہ لیا۔

پنجاب کے انیس کنٹونمنٹ بوڈز کی ایک سو بارہ وارڈز میں 878امیدواروں نے حصہ لیا۔

 سندھ کے آٹھ کنٹونمنٹ بورڈز کی 53وارڈز میں چارسو اٹھارہ امیدواروں نے حصہ لیا۔

 خیبر پختون خواہ  کے نو کنٹونمنٹ بورڈز کی تینتیس وارڈز میں ایک سو ستر واروں امید واروں  نے حصہ لیا۔

  اسی طرح بلوچستان کے تین کنٹونمنٹ بورڈز کی آٹھ وارڈز میں سنتالیس امیدواروں نے حصہ لیا۔

 بعض لوگ اس  الیکشن کے نتائج کو اگلے جنرل الیکشن میں کسی بڑی تبدیلی سے مشروط کر رہے ہیں جبکہ بعض کا خیال ہے کہ کنٹونمنٹ کا علاقہ زیادہ وسیع نہیں ہوتا  یہ چند شہروں تک محدود ہوتا ہے اور  یہاں کا ووٹر بھی  گلی محلے کے ووٹر زسے مختلف ہوتا ہے۔ بہرحال یہ بات تو طے ہے کہ بلدیاتی الیکشن کی ہار جیت سےسیاسی جماعتوں  اور دوراندیش لیڈروں کوآئندہ آنے والے عام انتخابات  کیلئے ایک بار سوچنے پر ضرور مجبور کر دیتی ہے۔

اس وقت پیپلز پارٹی گراؤنڈ سے مکمل غائب نظر آ رہی ہے۔ سندھ کے علاوہ باقی سارے ملک میں پیپلز پارٹی کا ووٹ بینک بہت بری طرح متاثر ہوا پڑا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ سن دو ہزار   آٹھ سے  دو ہزارتیرہ تک پانچ سال کا طرز حکمرانی  ہے۔  اس دور میں کرپشن  اور بدترین گورننس  جیسے الزامات نے پیپلز پارٹی کو تقریبا سندھ تک محدود کر کے رکھ دیا ہے۔ ایسے تمام خاندان جو ایک وقت میں جیالے ہوا کرتے تھے ان سے مایوس ہو کر تحریک انصاف کے ووٹر بن گئے۔ آپ کہہ سکتے ہوپیپلز پارٹی کا ستر فیصد ووٹر اس وقت تحریک انصاف کا نا صرف ووٹر ہے بلکہ انکی آنے والی نئی نسلوں نے بھی اپنا سیاسی سفر تحریک انصاف اور عمران خان کو بطور لیڈر تسلیم کرتے ہوئے شروع کر لیا ہے۔ 

اگر بات کی جائے  مسلم لیگ ن  کی تو وہ اس معاملے میں بہت شاطر اور دور اندیش نظر آتی ہے۔ن لیگ کی اعلی قیادت پر کرپشن کے الزامات ثابت ہونے کے باجود  انہو ں  نےکائونٹر کرنے کی بہتر  حکمت عملی بنائی۔ نوجوان ووٹر  کو اپنی طرف متوجہ رکھنے  کے لئے مختلف  حربے اپنائے ۔بڑی ہوشیاری سے  چند  الیکٹ ایبلز کو پی ٹی آئی سے توڑ کر ن لیگ میں شامل کیا۔جس کی مثال  ڈی جی خان کے لغاری خاندان اور ملتان سے سکندر بوسن، جہانیاں گردیزی وغیرہ ہیں۔   اس کے علاوہ شہباز شریف کا پرو فوج گروپ میں رہنا اور نواز شریف اور مریم کا فوج مخالف ہونا بھی سیاسی حربہ اور ووٹر کی کسی دوسری طرف راغب ہونے کی کوشش کو ناکام بنانے کا حربہ نظر آتا ہے۔

اگر دیکھا جائے تو تحریک انصاف کیلئے  موجودہ کنٹونمنٹ الیکشن کے  نتائج خطرے کی گھنٹی سے کم نہیں۔ تحریک انصاف کی قیادت  کو یقین تھا کہ  کام کرو نہ کرو لوگ عمران خان کے نام پہ ضرور ووٹ دیں۔مگر حقیقت تلخ ہے۔عوام سمجھدار ہو چکی ہے۔ آپ اندازہ لگائیں تحریک انصاف نے اپنے کئی مضبوط علاقوں سے شکست کھائی ہے اور بعض جگہوں پر تو بہت ہی  بدترین شکست ہوئی ہے۔ راولپنڈی میں تحریک انصاف نے پچھلے انتخابات میں ایک طرح سے سوئپ کیا تھا اور  اس بار چکلالہ پنڈی سے انہیں بہت بری طرح  شکست ہوئی ہے۔ آپ  واہ کینٹ  کو دیکھ لیں وہاں بھی  تحریک انصاف کو اچھا خاصہ ڈنٹ پڑا ہے۔ اگر لاہور  کی بات کی جائے تو وہاں انکی قیادت خواب خرگوش میں شادیانے بجاتی نظر آ رہی تھی ۔ میں نے الیکشن سے پانچ دن پہلے بلدیات کے ایک فوکل پرسن کو بتایا کہ لاہور میں تحریک انصاف کیلئے کچھ اچھے حالات نظر نہیں آ رہے تو انہوں مجھے جواب دیا کہ ہم آدھی سے ذیادہ سیٹیں آسانی سے جیت لیں گے۔ مجھے اس وقت بھی ان کی یہ بات بہت عجیب لگی لیکن پھر یہ سوچ کر بات دوبارہ سوال نہیں کیا  کہ شاہد ان لوگوں نے اندر کھاتے کچھ بہتر سوچ رکھا ہو گا۔

لاہور کینٹ کے علاقے میں پی ٹی آئی کا ووٹ کافی ذیادہ ہے۔ اندرون لاہور  کی اگر بات کی جائے جس میں باغبان پورہ اور اچھرہ وغیرہ کے علاقے شامل ہیں کم ہے۔ لاہور کینٹ میں ن لیگ نے جتنا ووٹ لیا اس کی امید شاہد خود تحریک انصاف کو  بھی نہیں تھی ۔

  اگر بات کی جائےملتان  کی تو تحریک انصاف کو بہت بری طرح  شکست کا سامنا کرنا پڑا ۔ ملتان میں ذیادہ طرح آذاد  امیدواروں نے میدان مارا ہے۔ اس پہ شاہ محمود قریشی کے سیاسی مستقبل پر بھی سوالیہ نشان اٹھ  رہا ہے کیونکہ ملتان شاہ صاحب کا حلقہ ووٹ اور پہچان سمجھا جاتا ہے۔

بعض لوگ کہتے پھر رہے ہیں کہ جو آذاد امیدوار جیتے ہیں وہ بھی ہمارے ہی لوگ تھے تو یہاں ٹکٹ دینے والوں پہ سوالیہ نشان اٹھاتا ہے۔ ایسے لوگوں کو ٹکٹ ہی کیوں دیتے ہو جن کا ووٹ بینک ہی نہیں ہوتا۔ کیا یہ مقامی تنظیم کی ناکامی نہیں؟

 اگر بات کی جائے  کھاریاں کینٹ اور بہاولپور  کینٹ کی تو یہاں  تحریک انصاف نے عزت بچا لی ۔ اگر ان دو علاقوں کا رزلٹ بھی ویسا ہی آتا جیسا باقی  پنجاب کی جگہوں سے آیا تو پھر  پنجاب میں ان کا صفایا ہوجانا تھا۔ کھاریاں میں تحریک انصاف نے توقع سے ذیادہ اچھا رزلٹ دیا ۔

 اگر بات کی جائے پشاور کی تو یہاں  پی ٹی آئی  کوکلین سویپ کرنا چاہئے تھا  کیونکہ  عام انتخابات میں تحریک انصاف  نے پشاور  سے سوئپ کیا تھا۔ اس بار پشاور میں تحریک انصاف ذیادہ اچھا رزلٹ نہ دے سکی۔ پشاور کے علاوہ  نوشہرہ میں بھی تحریک انصاف کو بہت  نقصان ہوا۔ اتنے اچھے رزلٹس نہیں آئے جتنے کے پی سے توقع کی جا رہی تھی۔ بہر حال کے پی نے  تحریک انصاف کو سہارا دیا ہےورنہ پنجاب  میں ن لیگ نے تحریک انصاف کو شکست دی ہے۔ آپ کہہ سکتے ہو کہ پنجاب میں عمران خان کیلئے خطرے کی گھنٹی بچ چکی ہے۔ 

 اب آتے ہیں کراچی کی طرف کراچی نے ایک بار پھر تحریک انصاف پر بھر پور اعتماد کا اظہار کیا ۔ کراچی میں تحریک انصاف نے پیپلز پارٹی کو کافی ٹف ٹائم دیا۔ مجموعی طور پہ کراچی کے رزلٹ تحریک انصاف کیلئے بہت اچھے رہے ہیں۔ سندھ میں مجموعی طور پر ان کی نشستیں ذیادہ ہیں، مگر کلفٹن کنٹونمنٹ بورڈ جہاں سے تحریک انصاف کو جیتنا چاہیے تھاوہاں سے ہار گئی۔ یاد رہے  کلفٹن سے پی ٹی آئی  عام انتخابات میں بھی  نشستیں نکالتی رہی ہے اور یہاں پر پارٹی کے اہم لیڈروں کے گھر بھی ہیں۔ عمران خان کو سوچنا ہو گا کہ کسی کمزور  کپتان کی قیادت میں کبھی ٹیم جیت نہیں  سکتی۔ پنجاب میں کنٹونمنٹ بورڈ کے نتیجہ نے پنجاب کے مستقبل پر سوالیہ نشان چھوڑ دیا۔اگر کسی کو کوئی شکوک و شہبات ہیں تو آئندہ آنے والے بلدیاتی الیکشن میں کلیئر ہو جائے گا۔

 عمران خان نے پنجاب ٹیم  کیلئے جو کپتان چن رکھا ہے لگ رہا ہے کہ آئندہ عام انتخابات میں اس کپتان(عثمان بزدار ) نے ساری تحریک انصاف کو دیوار میں چن کے رکھ دینا ہے۔ شرافت اور ایمانداری کیساتھ بندے کی سیاسی ساخت اور قدکاٹھ ہونا بھی ضروری ہوتا ہے جو بدقسمتی سے ابھی تک بزدار صاحب کے اندر نظر نہیں آ رہا۔

اگر ہم بات کریں مسلم لیگ ن کی تو اسکی  مجموعی نشستیں تحریک انصاف سے کچھ کم  ہیں لیکن  ن لیگ  کے لئے اچھی خبر یہ ہے کہ انہوں نے پنجاب میں واضح طور پر اپنی برتری ثابت کردی۔ رہی سہی کثر آئندہ آنے والے بلدیاتی الیکشن میں پوری ہو جائے گی۔دیکھا جائے تو  ن لیگ کی درجہ اول اور درجہ دوئم کی  قیادت  اس وقت سخت دباؤمیں ہے۔یہ سب کے سب مقدمات کا سامنا کررہے ہیں۔ نواز شریف تاحیات ناہل اور عدالتی مفرور ہے۔ مریم نواز خود نااہل اور سزا یافتہ مجرم ہیں۔ ایسے برے حالات میں بھی  اتنی اچھی کارکردگی دکھانا قابل تحسین ہے۔اس سے یہ بھی  ثابت ہوا کہ عمران خان اور ان کے حامی اپنی تمام تر کوششوں  کے باوجود ن لیگ کو پنجاب سے آؤٹ نہیں کر سکے۔ن لیگ کی  راولپنڈی کی  اچھی کارکردگی بونس پوائنٹ کے طور پر دیکھی جا رہی ہےگوجرانوالہ اور کھاریاں کی شکست نے  ن لیگ کو سوچنے پر ضرور مجبور کیا ہو گا۔ کیونکہ گجرانوالہ ن لیگ کا گڑھ سمجھا جاتا ہے۔ یہاں سے ہار کا مطلب ن لیگ کی بنیادیں کھوکھلی ہونے کے معترادف ہے۔ن لیگ نے اس بار کراچی میں نشستیں لے کر سب کو حیران کر دیا۔کیونکہ سندھ میں ن لیگ کا کوئی خاص ووٹ بینک نہیں ہے۔ن لیگ بھی پی پی کی طرح صوبائی جماعت بنتی جا رہی ہے   ۔ کے پی ,  سندھ اور بلوچستان میں ن لیگ کو بہت محنت کرنی پڑے گی۔

اگر دیکھا جائے تو پیپلزپارٹی کے لئے یہ موجودہ الیکشن  سخت مایوس کن ثابت ہوئےہیں۔ لگ رہا ہے کہ   پیپلزپارٹی صرف سندھ کی جماعت بن کر رہ گئی ہے۔ بلاول بھٹو ذرداری نے پنجاب میں محنت بھی کی ۔ کافی جلسے وغیرہ بھی کئے ۔ جنوبی پنجاب میں یوسی لیول تک جلسوں سے خطاب بھی کئے لیکن رزلٹ صفر جمع صفر برابر صفر ہی آیا۔اگلے عام انتخابات سے پہلے انہیں قومی سطح پر تاثر جمانے کے لئے بہت محنت کرنا ہوگی۔ کوئی نیا منشور پیش کرنا ہوگا۔ اپنے اوپر سے کرپشن کے لیبل ہٹانے ہوں گے۔ سب سے اہم بات سندھ میں گورننس بہتر کرنی ہو گی۔ اگر سندھ میں طرز حکمرانی بہتر کر لی تو شاہد باقی صوبوں میں بھی ووٹ بینک بن پائے۔ تحریک انصاف نے وفاق سے پہلے کے پی میں حکومت کی اپنا لوہا منکوایا ۔ لوگوں کو اعتماد دیا کہ ہمیں ووٹ دو ہم تبدیلی لے کر آئیں گے۔ بلاول کو بھی سندھ سے شروعات کرنا ہو گی۔  جس دن عوام نے سندھ میں تبدیلی محسوس کی بلاول کو ووٹ مانگنے میں دشواری نہیں ہو گی۔

اگر بات کی جائے مولانا فضل الرحمان صاحب کی جماعت کی تو جے یو آئی کیلئے یہ الیکشن بہت ہی برا رہا۔ ایسا لگ رہا ہے کہ مولانا صاحب کی پارٹی صرف رینٹ اے  جلسہ کی حد تک ہی محدود ہو کر رہ گئی ہے۔  مولانا فضل الرحمن  صاحب کی جماعت کو سب سے ذیادہ نقصان پی ڈی ایم کی وجہ سے ہوا ہے۔

اگر  بات کی جائے اے این پی  کی تو انہوں نے اس  بلدیاتی  الیکشن میں بہت  محنت کی اور پشاور میں بہترین کارکردگی دکھائی۔  اب آئندہ بلدیاتی انتخابات میں دیکھنا ہوگا کہ اے این پی کہاں کھڑی ہے اور اسے کتنے ووٹ ملتے ہیں؟ اگر اے این پی آئندہ آنے والے بلدیاتی الیکشن میں بھی بہتر کارکردگی دیکھانے میں کامیاب ہو  جاتی ہے  تو تحریک انصاف کی قیادت کو اپنے طرز حکمرانی  پر بیٹھ کر سوچنا پڑے گا۔

کنٹونمنٹ بورڈ الیکشن میں سب سے ذیادہ حیران  جماعت اسلامی نے کیا۔ طویل عرصے بعد اس نے کراچی میں بہت اعلی کارکردگی دیکھائی ہے۔  جماعت اسلامی  نے کراچی سے پانچ ,  چکلالہ پنڈی سے دو   , دو جبکہ مردان اور نوشہرہ سے  ایک ایک نشست نکالی  ہے۔ اگر بات کی جائے  کراچی  کی تو یہاں جماعت اسلامی  تیسرے نمبر پر رہی اور اس کے ووٹوں کی شرح بھی  بہت اچھی رہی۔آپ کہہ سکتے ہو کہ  جماعت اسلامی نے کراچی میں ایم کیو ایم، ن لیگ اور پی ایس پی کے مجموعی ووٹوں سے بھی زیادہ ووٹ حاصل کئے ہیں۔  اس کارکردگی پر کراچی کے امیر حافظ نعیم مبارکباد کے مستحق ہیں۔ اگر کراچی میں  مزید محنت کی جائے تو جماعت اسلامی کراچی میں اپنی جگہ بنا سکتی ہے۔  

اس وقت پورے پاکستان میں بیالیس کنٹونمنٹ بوڈ ز کی دوسو انیس وارڈز ہیں۔ لیکن الیکشن صرف  انتالیس کنٹونمنٹ بورڈز کی دوسو چھ  نشستوں پر ہی ہو پایا ہے۔  اگر پارٹی پوزیشن دیکھی جائے تو مجموعی طور پر پی ٹی آئی نے 60 نشستوں کے ساتھ سر فہرست

  ن لیگ 57 نشستوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر

 جبکہ آذاد امید وار 43نشستوں کے  ساتھ تیسرے نمبر پر ہیں۔ 

پیپلز پارٹی 14سیٹوں کے ساتھ چوتھےنمبر پر

ایم کیو ایم پاکستان 10نشستوں کیساتھ پانچوے نمبر پر

 جماعت اسلامی 6سیٹوں کیساتھ چھٹے نمبر پر

 بلوچستان عوامی پارٹی 3نشستوں کے ساتھ ساتویں نمبر پر ہے۔

ان رزلٹس سے ایک بات تو کلیئر ہے کہ آئندہ آنے والے بلدیاتی الیکشن ہوں یا جنرل الیکشن مقابلہ تحریک انصاف اور ن لیگ کے درمیان ہی ہو گا۔ خان صاحب کو پنحاب بارے ایک بار پھر تسلی سے بیٹھ کر سوچنا  پڑے گا۔ اگر پنجاب ہاتھ سے نکل گیا تو وفاق میں بیٹھنے کو کوئی فائدہ نہیں۔ 

ن لیگ پنجاب کی حد تک کلیئر ہے اب بس وفاقی میں آنے کیلئے کے پی اور بلوچستان میں محنت کرنی پڑے گی جو باآسانی ممکن  ہے کیونکہ ان صوبوں میں ن لیگ کا اچھا خاصہ  ووٹ بینک موجود ہے جبکہ خان صاحب کو صرف اور صرف پنجاب کی حد تک محنت کرنی پڑے گی۔ اس مقصد کیلئے  ٹیم کی کمان بدلنی پڑے گی  تو بھی خان صاحب کو دیر نہیں کرنی چاہئے۔  عمران خان اگر پنجاب کلیئر کر گئے تو 2023کا جنرل الیکشن جیت کر دوبارہ وزیراعظم بننا کوئی مشکل کام نہیں  ہے۔

@saif__says

Leave a reply