نومبر کے آغاز میں مولانا فضل الرحمان اپنا لشکر لیکر شہر اقتدار میں پہنچے اور اعلان کیا کہ وزیراعظم کو گریبان سے پکڑ کر ایوان سے گھسیٹ کر باہر نکالیں
ٹھیک 21 برس پہلے کی بات ہے، فروری 1999ء میں پاک بھارت کرکٹ سیریز کا ٹیسٹ میچ فیروز شاہ کوٹلہ گراؤنڈ دہلی میں کھیلا جا رہا تھا۔ جہاں کرکٹ کی
ابھی کچھ دیر پہلے میں نے محب الوطن جرنل حمید گل کی صاحبزادی عظمیٰ گل کے زور قلم سے ایک تحریر آنکھوں سے ملائی تو یہ تحریر لکھنے کے قابل
اگر پاکستان میں اسلامی نظام کی بات کی جائے تو یورپ سے پڑھے ہوئے اور نظام یورپ سے متاثرہ افراد کا یہ رونا پیٹنا ہوتا ہے کہ پاکستان اسلامی نہیں
اسکول کی گھنٹی جیسے ہی بجی، تمام بچے اسمبلی ہال میں آکر کھڑے ہوگئے۔ دعا کے بعد تمام بچوں نے بہ آوازِ بلند قومی ترانہ پڑھا اور پھر اپنی اپنی
دنیا کے نامور دانشوروں نے کہا کہ پاکستان ایک ناکام ریاست Failed State ہے مگر ریاست اس موقف پہ ڈٹی رہی کہ یہ متعصبانہ رائے ہے اور میں آپ ہاں
اندرون شہر لاہور کی کچھ گلیاں اور محلے دن کو سوتے اور رات کو جاگتے ہیں۔ایسے ہی ایک محلے کی گلی کا موڑ مڑتے ہوئے اس نے دیکھا کہ چند
جھوٹ اور ہماری سیاست کاشائید آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہے بڑے سے بڑے پارسائی کے دعویدارسیاست دان بھی بسا اوقات ایساکام کر گزرتے ہیں جن کی ان سے
ارض پاک کی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ حکومتی اداروں سے ٹکراءو ہے جس سے پاکستانی گورنمنٹ کے علاوہ عام پاکستانی عوام کا جانی اور مالی نقصان
انسانی تاریخ کا یہ المیہ رہا ہے کہ انسان خود ہی الجھنیں پیدا کرتا ہے پھر خود ہی بےچین ہوجاتا ہے یہ بےچینی بڑھتی ہے تو انسان کو انقلابی بنادیتی







