جسٹس مفتی محمد تقی عثمانی کی حالات تحریر:تعریف اللہ عفی عنہ
مفتی محمد تقی عثمانی صاحب ء۱۹۴۳ میں دیوبند کی اس سرزمین میں پیدا ہوئے جس سے پھوٹنے والے علم کے فواروں نے ایک دنیا کو سیراب کیا ،دس سال کی عمر میں اپ نے درسی نظامی کا آغاز کیا اور سترہ سال کی عمر میں اس کی تکمیل کرکے فارغ ہوئے ،تاہم انہوں نے درسی نظامی کی چند کلیوں پر قناعت نہیں کی ،بلکہ اس نصاب کےپڑھنے سے حاصل ہونے والی صلاحیت واستعداد کو علم کے مقفل دروازوں کی چابی سمجھ کر اسلام کے وسیع کتب خانے کی طرف بڑھے اور علوم کے بند دروازے وا کرتے رہے۰۰۰۰۰تاریخ کا مطالعہ کیا ،فقہ کو تعمق سے دیکھا ،تفسیر واصول تفسیر پر بار بار نظر ڈالی ،حدیث سے متعلقہ علوم کو محنت سے پڑھا اور ادب کی چاشنیاں چکھنے کیلئے راتوں جاگے۰۰۰۰۰۰۰ساتھ ساتھ عصری علوم کی طرف توجہ دی ،۱۹۵۸ میں پنجاب یونیورسٹی سے فاضل عربی کا امتحان امتیازی نمبرات سے پاس کیا ،۱۹۶۴ میں کراچی یونیورسٹی سے بی،اے کا امتحان دیا ،۱۹۶۷ میں کراچی یونیورسٹی سے ایل ایل بی کا امتحان دوسری پوزیشن اور ۱۹۷۰ میں ایم اے عربی کا امتحان پنجاب یونیورسٹی سے پہلی پوزیشن لے کر پاس کیا ،جدید معاشیات کا مطالعہ کیا اور اس میں مہارت ہی نہیں مجتہدانہ بصیرت حاصل کی اور پاکستان کیطرح ہر مغرب زدہ ملک پر چھائی ہوئی انگریزوں کی وہ زبان سیکھی جس سے واقفیت ایک عالم دین کیلئے اس دور میں اسلام کےموثر تبلیغ کے نقطہ نظر سے ہن صرف استحسان بلکہ ضرورت کی حدود میں داخل ہے اور جس کو جنٹلمین طبقہ کسی انسان کی سعادت وقابلیت کی علامت ومعیار سمجھتا ہے اور یوں وہ قدیم وجدید ،دینی،دنیوی علوم کے ایسے سنگم بن گئے جس میں مختلف علوم کی حسین لہریں جمع ہیں.اردو ان کے اپنے گھر کی لونڈی ہے،عربی ان کے جیب کی گھڑی ہےاور انگریزی وہ ضرورت کے تحت لکھتے اور بولتے ہیں ،اللہ تعالی نے ان کے قلم کی غیر معمولی صلاحیتوں سے نوازا ہے،شیخ الاسلام مولانا شبیر احمد عثمانی کی لکھی ہوئی مسلم شریف کی شہرہ افاق لیکن نامکمل شرخ "فتح المہلم” کا”تکملہ”لکھا اور ایسا لکھا کہ اگراور کچھ بھی نہ لکھتے تو یہ ان کی زندگی کی قیمت وصول کرنے کیلئے کافی تھا،اگر کسے مصنف کے حصے میں صرف یہی کتاب آجائے تو اس کو زندہ وجاوید بنادے۰
ان کے علم ومطالعہ میں انہماک کو دیکھ کر کچھ ولمی حوصلہ ہونے لگتا ہے کہ کتابوں میں اہل علم کا جو وصف پڑھا ہے اس سے متصف کچھ لوگ ہماری اس فضا میں موجود ہیں جس میں ہم سانس لے رہے ہیں،وہ خود فرماتے ہیں:”روئے زمین پر لکھنا پڑھنا مجھے ہر چیز سے زیادہ محبوب وعزیز ہے اور ہر وقت کسی نہ کسی مسلہ میں میرا ذہن مشغول رہتا ہے۰”انہوں نے طلبہ سے اپنے ایک حالیہ خطاب میں فرمایا:
"طلب علم نام ہے ایک نامٹنے والی پیاس کا ،میرے والد ماجد رح فرماتے تھے کہ طالب علم کی تعریف یہ ہے کہ جس کے دماغ میں ہر وقت کوئی نہ کوئی مسلہ چکر کاٹ رہا ہو ،علم بڑی محنت اورطلب چاہتا ہے اور بڑی بے نیاز چیز ہے،محنت اور طلب کے بغیر ادمی کو وہ اپنا کوئی ذرہ بھی نہیں دیتا ،العلم لا یعطیک بعضہ حتی تعطیہ کلک طلب علم کا ذوق جب پیدا ہوجائے گا تو یقین رکھو اگر میں قسم کھاؤں تو حانث نہ ہوں گا کہ اس کائنات میں طلب علم سے زیادہ لذیذ چیز کوئی نہیں ،بشرطیکہ طلب علم کی حقیقت حاصل ہو،تمھہیں اپنا حال بتاتا ہوں ،عرصہ دراز سے ایسے حالات میں گرفتار ہوں کہ اس بات کو ترستا ہوں کہ مجھے مطالعہ کا وقت ملے ،پانچ منٹ بھی اگر نصیب ہوجاتے ہیں تو بڑی ہی حوشی ہوتی ہے۰۰۰۰جب میں نے دورہ پڑھا تھا تو پندرہ سال کی عمر تھی سولویں سال میں فراغت ہوئی تھی ،سبق کے علاوہ میرے اوقات کتب خانے میں گزرتے تھے،پڑھنے کے زمانے میں صحیح بخاری کیلئے عمدۃ القاری ،فتح الباری ،اور فیض الباری کا مطالعہ کیا کرتاتھا,مسلم شریف کیلئے فتح المہلم ،سنن ابی داؤد کیلئے بذل المجہود اور ترمذی شریف کیلئے کوکب الدری کامطالعہ کرتاتھا چونکہ اس کیلئے وقت چاہئے تھا اس لئے میں نے کسی طرح ناظم کتب خانہ کو اس بات پر راضی کرلیا تھا کہ دوپہر کے وقفہ میں وہ گھرچلے جایا کریں "اور باہر سے کنڈی لگا کر مجھے اندر بند کردیا کریں،چناچہ وہ باہر سے تالا لگا کر چلے جایا کرتے تھے اور میں اندر مطالعہ کرتا رہتا تھا ،دوران مطالعہ مذکورہ کتابیں تو پڑھتا ہی تھا،ساتھ ساتھ کتب خانہ کی ساری کتابوں کے متعلق یہ معلومات بھی ہوگئ تھیں کہ کونسی کتاب کس موضوع پر ہے اور کہاں ہے ،ناظم کتب خانہ کو جب کتاب نہیں ملتی تھی تو مجھے بلاتے اور میں انہیں بتادیتا۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰مطالعہ کی وہ لذت مجھے آج بھی نہیں بھولتی۰۰۰۰۰۰۰تیس پینتیس سال سے ترمذی شریف پڑھارہا تھا اس لئے مطالعہ میں کوئی نہیں بات نہیں آتی تھی جب سے بخاری شریف کا سبق میرے پاس آیا تو مطالعہ کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی اور اس کے لئے اپنے اپ کو دوسرے کاموں سے فارغ کیا،اب دوبارہ وہ لذت لوٹ آئی ،ایسا لگتا ہے کہ وہ لذت مطالعہ گمشدہ متاع تھی،اب مل گئی،مطالعہ میں سبق پڑھانے کیلئے نہیں کرتا،مطالعہ کا شروع سے میرا حساب کتاب یہ ہے کہ بیچ میں جب کوئی بات اگئی،کوئی بھی سوال پیدا ہوگیاتو پھر مجھ سے ممکن نہیں ہےکہ میں آگے بڑھوں،جب تک مختلف مراجع میں اس کی تحقیق نہ کرلوں،چاہے وہ بات سبق میں بیان کرنے کی کی ہو،یا نہ ہو،میں اپ سے سچ کہت ہوں کہ اس سے زیادہ لذیذ چیز دنیا میں کوئی نہیں ہے،اللہ نے بہت لذتوں سے نوازا،دنیا کی لذتوں سے بھی بہت نوازا،اتنی کہ شاہد ہی کسی کو نصیب ہوئی ہوں لیکن جو لذت اس میں پائی وہ کسی میں نہیں ہے۰”
وقت قدر اور راہ علم میں محنت کا جذبہ ان کو اپنے عظیم والد سے ورثہءمیں ملا ہے،جب کسی محفل ومجلس میں جاتے ہیں اور ابھی ان کے خطاب میں کچھ وقت باقی ہو،اس عرصے میں وہ تسبیح لے کر ذکر شروع کردیتے ہیں تاکہ یہ مختصر سا وقت بھی رائیگاں نہ جائے،سفر کے دوران بھی لکھنے پڑھنے میں مشغول رہتے ہیں اور کوئی لمحہ ضائع جانے نہیں دیتے ،خود انہوں نے فرمایا______
آسی پہ غنیمت ہیں تیری عمر کے لمحے
وہ کام کر اب،تجھ کو جو کرنا ہے یہاں آج
اللہ تعالی حضرت کی عمر میں برکت دے اور ہم سب کو عمر کے لمحوں کن غنیمت جاننے اور آج کا کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے۰امین۰
@Tareef1234