اسلام آباد کی مقامی عدالت میں شہبازگل سے متعلق بغاوت کیس کی سماعت ہوئی
شہباز گل کے وکیل فیصل چودھری اور بابر اعوان عدالت میں پیش ہوئے، فیصل چودھری نے کہا کہ آج شہباز گل کو پیش کرنا ہے، ہائیکورٹ میں کیس زیر سماعت ہے،اوکیل نے کہا کہ اگر ایک بجے تک کیس کی سماعت کریں ہم ہائیکورٹ سے ہو کر آجائینگے، فیصل چودھری نے کہا کہ ہم ساڑھے 9 بجے تک انتظار کر لیتے ہیں ابھی پتہ کرلیں شہباز گل کوکس وقت لیکر آئینگے،جس پر جج نے کہا کہ ہم تو پتہ نہیں کراتے آپ کہتے ہیں تو پتہ کرا لیتے ہیں، عدالت نے پولیس کو ہدایت کی کہ پتہ کریں کب شہباز گل کو پیش کیا جائے گا شہباز گل کے وکیل فیصل چودھری نے ایک بجے تک سماعت ملتوی کرنے کی استدعا کر دی،عدالت نے وکیل سے سوال کیا کہ ابھی میں نے نہیں دیکھا کہ آپ کس کارروائی کی بات کر رہے ہیں ملزم کو پیش کرنے دیں پھر دیکھ لیتے ہیں
عدالت نے شہباز گل کو ساڑھے 12 بجے تک پیش کرنیکا حکم دے دیا ،جج نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اسپیشل پراسیکیوٹر اگر آجاتے ان کو بھی آگاہ کر دیتے ہیں،
دوسری جانب اسلام آباد ہائیکورٹ میں شہباز گل کا جسمانی ریمانڈ کالعدم قرار دینے کیلئے درخواست پر سماعت ہوئی .وکیل نے کہا کہ شہباز گِل پر پولیس حراست میں بدترین تشدد کیا گیا،جب تک جرم ثابت نہ ہو ملزم عدالت کا پسندیدہ بچہ ہوتا ہے،جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ یہ پورے ملک کا واحد کیس نہیں ہے اس سے پہلے بھی کیسز تھے بعد میں بھی چلتے رہیں گے، ریمانڈ کے کیسز میں ایسی مثال نہ بنائیں،ہائیکورٹ تو صرف اسی کیس کیلئے ہی رہ جائے گی،وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ شہباز گِل کی گاڑی کے شیشے توڑے گئے،جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ میں اس میں نہیں جا سکتا، کیا میں اب ٹی وی لگوا کر وہ ویڈیو دیکھوں؟ وکیل نے کہا کہ تشدد کے اثرات صرف 5 سے چھ دن رہتے ہیں،عدالت ڈاکٹرز کو بلا کر پوچھ لے وہ شہباز گل تشدد کے عینی شاہد ہیں،درجنوں مثالیں ہیں پولیس ایسے تشدد کرتی ہے جس کو ٹریس کرنا بہت مشکل ہوتا ہے،پولیس تشدد سے مار کر بھی کہتی ہے بندے نے خودکشی کرلی،بارہ دن بعد تو بڑے سے بڑا تشدد ٹھیک ہوجاتا ہے،شہباز گِل دمہ کا مریض ہے انہیں جوڈیشل مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش کیا گیا، مجسٹریٹ نے شہباز گل کو پمز اسپتال منتقل کرنے کا حکم دیا،ایسے ہی ملزم کی موت ہو جاتی ہے اور پراسیکیوشن کے خلاف 302 کا کیس بن جاتا ہے،اس کیس کی جوڈیشل انکوائری کی جائے، عدالتی حکم کے بعد وکلا اور دوستوں کو ملاقات کی اجازت نہیں دی گئی،شہباز گِل کی ویڈیوز لیک کی گئیں،مجسٹریٹ نے خود آبزرویشن دی کہ ملزم کی کنڈیشن سیریس ہے،مجھے وکالت نامہ دستخط کرنے کی اجازت بھی نہیں دی گئی، اب شہباز گل کی طبیعت بہتر ہو رہی ہے توویڈیوز لیک کی گئیں،
وکیل سلمان صفدرنے کہا کہ ایڈیشنل سیشن جج نے شہباز گل کو دوبارہ جسمانی ریمانڈ میں دیدیا،جج نے بغیر کوئی وجہ معلوم کیلئے شہباز گِل کا جسمانی ریمانڈ دیا،ہمارے خلاف سازش کی جارہی ہے ،میڈیا پر پابندی عائد کی گئی ، کیا ہم نیشنل جیوگرافک لگا کر بیٹھ جائیں؟ جس پر عدالت نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کیس پر رہیں، معاملے کو پیمرا پابندی کی طرف نہ لے جائیں ،ایسا کرنے سے اپ ایک ڈیڈ اینڈ پر پہنچ جائیں گے وکیل نے کہا کہ موبائل فون کی ریکوری کے لیے شہباز گل کے ریمانڈ کی کیا ضرورت ہے؟ گرفتاری میں ہمیشہ موبائل فون اور عینک ساتھ ہی ہوتی ہے یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ شہباز گل سے سازش کا پتہ کرنا ہے، شہباز گل کو عدالت نے جوڈیشل کردیا تو واپس کیوں لانا پڑا ؟ کریمنل کیسز میں شواہد کو عدالت اور فریقین سے چھپایا نہیں جاسکتا، میں نے کہا کہ وہ کونسے شواہد ہیں جس کے لیے مزید جسمانی ریمانڈ کی ضرورت ہے،شواہد مانگنے پر کہا گیا کہ ہم آپ سے کچھ بھی شئیر نہیں کرسکتے،
عدالت نے شہباز گل کے وکیل کو تقاریر کے حوالے سے منع کر دیا، عدالت نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ فریڈم آف ایکسپریشن کی تعریف ہم سب غلط پڑھتے ہیں،عدالت نے پراسیکیوٹر سے استفسار کیا کہ آپ شہباز گل کاریمانڈ کیوں چاہتے ہیں ؟کوئی برآمدگی کرنی ہے، کیا کرنا چاہتے ہیں، پراسیکیوٹر نے عدالت میں کہا کہ فون بر آمد کرنا ہے، تحقیقات کے کچھ پہلویہاں نہیں بتا سکتا ،کیس کو نقصان ہوسکتا ہے، عدالت نے پراسیکیوٹر سے استفسار کیا کہ فون لینڈ لائن سے ہوا پھر کیوں چاہیے؟ تفتیشی افسر کہاں ہیں؟ تفتیشی افسر نے عدالت میں جواب دیا کہ پتہ لگا لیا ہے لینڈ لائن نمبر فون بنی گالہ عمران خان کی رہائش کا ہے،فون سےپڑھ کر نجی ٹی وی پر بیان دیا گیا ٹرانسکرپٹ بر آمد کرنا ہے،تفتیشی افسر کا اختیار ہے کہ وہ بتائے اس کی تفتیش مکمل ہوئی یا نہیں، شہباز گِل موبائل استعمال کر رہا ہے، مواد سے ملزم کو کنفرنٹ کرنا ہے، دیگر ملزمان کی گرفتار ی کے لیے شہباز گل کے بیان سے کنفرنٹ کرانا ہے،
جسٹْس عامر فاروق نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اور تو آپ نے کسی کو گرفتار نہیں کیا کس سے کنفرنٹ کرانا ہے، ایڈوکیٹ جنرل اسلام آباد نے کہا کہ گرفتاریوں کیلئے تو مزید تفتیش کی ضرورت ہے،پراسیکیوٹر رضوان عباسی نے کہا کہ پولیس کی ابھی 90 فیصد تفتیش باقی ہے،ملزم لیت و لعل سے کام لیتا ہے، جھوٹ بول رہا ہے، پولی گرافک ٹیسٹ کی ضرورت ہے، جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ کیا اسلام آباد میں پولی گرافک ٹیسٹ کی سہولت موجود ہے؟ پراسیکیوٹر نے کہا کہ ایف آئی اے کے پاس اور پنجاب فرانزک لیب میں یہ سہولت موجود ہے،جسمانی ریمانڈ 15 دن کا ہوتا تو مختلف مراحل میں دیا جاسکتا ہے، عدالت نے کہا کہ اگر 15دن میں تفتیش مکمل نہ ہو تو کیا اس کے بعد بھی ریمانڈ مل سکتا ہے؟ پراسیکیوٹر نے کہا کہ 15دن سے زیادہ جسمانی ریمانڈ نہیں دیا جا سکتا،عدالت نے استفسار کیا کہ اگر اس کے بعد بھی تفتیش کی ضرورت ہو تو پھر جیل میں تفتیش کی جائے گی؟ دوران تفتیش کوئی ملزم بیمار ہو جائے تو کیا ہو گا؟ پراسیکیوٹر نے کہا کہ بیمار اور زخمیوں کے لیے بھی رولز موجود ہیں، زندگی ہے تو سب کچھ ہے، عدالت نے سوال کیا کہ اگر کوئی بیمار ہوجائے تو آپ اسلام آباد میں کہاں منتقل کرتے ہیں ؟ پراسیکیوٹر نے کہا کہ اگر کوئی بیمار ہوجائے توپمز اور پولی کلینک میں منتقل کیا جاتا ہے،ایڈیشنل سیشن جج کا مزید 48 گھنٹے کا جسمانی ریمانڈ کا آرڈر بالکل درست ہے، اسلام آباد ہائیکورٹ میں پراسیکیوٹر رضوان عباسی کے وکیل کے دلائل مکمل ہو گئے
عدالت نے وکلا پر اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ دو اہم وکلانے اپنے دلائل دئیے، باقی کسی کو دینے کی ضرورت نہیں، اسلام آباد ہائیکورٹ نے بابر اعوان کو دلائل دینے کی اجازت دے دی، وکیل جیل حکام نے کہا کہ اسلام آباد کی اپنی جیل نہیں، اڈیالہ جیل رکھنا پڑتا ہے،اگر کسی ملزم کی طبیعت خراب ہو تو قریبی اسپتال لے جایا جاتا ہے، جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ اسلام آباد کا ملزم ہو تو اسے اسلام آباد کے اسپتال میں ہی رکھا جاتا ہے،
شہباز گِل کا جسمانی ریمانڈ کالعدم قرار دینے کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا گیا ہے
شہباز گل پر تشدد اور غیر جانبدار ڈاکٹروں کی میڈیکل بورڈ بنانے سے متعلق درخواست پر بابر اعوان نے دلائل دیئے،اور کہا کہ ملزم کی حراست گرفتاری کے روز سے شروع ہو جاتی ہے،زیادہ سے زیادہ ریمانڈ پہلے ہی مکمل ہو چکا ہے،جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آپ کا تو یہ کیس ہی نہیں، یہ ساری چیزیں تو سلمان صفدر کہہ چکے ہیں،استدعا پڑھیں، اپنے دلائل اس حد تک محدود رکھیں ،ایڈووکیٹ جنرل جہانگیرجدون نے اعتراض عائد کیا اور کہا کہ درخواست میں بابر اعوان وکیل نہیں، دلائل نہیں دیئے جا سکتے، ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد جہانگیر جدون نے اسد عمر کی درخواست قابل سماعت ہونے پر اعتراض اٹھا دیا، کہا کہ اسد عمر کا نئے ڈاکٹرز پر مشتمل بورڈ بنانے کا اختیار ہی نہیں،درخواست قابل سماعت ہی نہیں، جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ یہ درخواست ابھی پینڈنگ رکھ رہے ہیں، جب سنی جائے گی تب دیکھیں گے،بابر اعوان نے کہا کہ جب وقت آئے گا بتائیں گے کہ کیسے قابل سماعت ہے،
آئی جی اسلام آباد نے شہباز گل تشدد کیس کی ابتدائی رپورٹ اسلام آباد ہائی کورٹ میں جمع کروا دی پولیس کی جانب سے شہباز گل پر تشدد کے الزمات بے بنیاد قرار دے دی گئی شہباز گل پر جسمانی یا ذہنی تشدد کے کوئی ٹھوس شواہد نہیں ملے، ملزم شہباز گل نے تفتیش میں خلل ڈالنے کے لیے ڈرامہ کیا،
شہبازگل کے ڈرائیور کے بھائی کی عبوری ضمانت منظور
سافٹ ویئر اپڈیٹ، میں پاک فوج سے معافی مانگتی ہوں،خاتون کا ویڈیو پیغام
عمران خان نے ووٹ مانگنے کیلئے ایک صاحب کو بھیجا تھا،مرزا مسرور کی ویڈیو پر تحریک انصاف خاموش
شہباز گل کی گرفتاری، پی ٹی آئی کے ڈنڈا بردار کارکن بنی گالہ پہنچ گئے
شہباز گل کی گرفتاری پی ٹی آئی نے عدالت سے رجوع کرنے کا فیصلہ کر لیا
نعرے ریاست مدینہ کےاورغلامی امریکہ کی واہ شہبازگل باجوہ
شہباز گل پر ایسا تشدد ہوا جو بتایا جا سکتا اور نہ دکھایا جا سکتا ہے، بابر اعوان