لاہورہائیکورٹ ،وزیراعلیٰ پنجاب پرویز الہٰی کے اعتماد کے ووٹ سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی
جسٹس عابد عزیز شیخ نے گورنر کے وکیل سے سوال کیا کہ اعتماد کے ووٹ سے متعلق معاملہ حل نہیں ہوا؟ وکیل گورنر پنجاب نے عدالت میں جواب دیا کہ اعتماد کا ووٹ لیں گے تو معاملہ حل ہوجائے گا، جسٹس عابد عزیز شیخ نے استفسار کیا کہ خالد اسحاق معاملے سے متعلق کیا کہتے ہیں؟ آپ نے تحریری طور پر عدالت کو بتانا ہے،وکیل گورنر پنجاب نے کہا کہ اس وقت ہم نے کہا تھا کہ 4سے 5 دن دینے کےلیے تیار ہیں، جسٹس عابد عزیز شیخ نے سوال کیا کہ گورنر پنجاب کے وکیل نے کیا آفر دی ہے وکیل خالد اسحاق نے کہا کہ ہم نے آفر دی تھی کہ 3 سے 4دن میں اعتماد کا ووٹ لیں،ہماری آفر نظر انداز کردی گئی
جسٹس عابد عزیز شیخ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ منظور وٹو کیس میں بھی 2 دن کا وقت دیا گیا تھا جو مناسب نہیں تھا، اب تو 17 دن ویسے بھی گرز چکے ہیں اورکتنا مناسب وقت چاہیے، عدالت نے پرویز الہیٰ کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم کوئی تاریخ مقرر کر دیتے ہیں اور گورنر کے آرڈر کو موڈیفائی کر دیتے ہیں، گورنر کے وکیل نے آفر دی ہے کہ اعتماد کا ووٹ لیں ، عدالت نے پرویز الہیٰ کے وکیل سے سوال کرتے ہوئے کہا کہ اعتماد کا ووٹ لینے کےلیے کتنے دن کا وقت آپکے لیے مناسب ہوگا ؟ہم وہ وقت مقرر کردیتے ہیں کہ آپکا مسئلہ حل ہوجائے گا ،اب تو 17 دن ویسے بھی گزر چکے ہیں اورکتنا مناسب وقت چاہیے،
وکیل پرویز الہیٰ نے عدالت میں کہا کہ میں اس حوالے سے کچھ گزارشات کرنا چاہتا ہوں ،گورنر پنجاب نے اعتماد کا ووٹ لینے کےلیے کہا اور اسپیکر کو خط لکھا گورنر نے اپنے خط میں لکھا کہ وزیر اعلیٰ اعتماد کھو چکے ہیں، گورنر پنجاب کے حکم کے جواب میں اسپیکر نے رولنگ دی ،اسپیکر کی رولنگ کو تاحال چیلنج نہیں کیا گیا پرویز الہٰی کے وکیل نے گورنر پنجاب کیجانب سے اعتماد کا ووٹ لینے کی آفر مسترد کر دی، وکیل نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ عدالت گورنر کی جانب سے نوٹیفکیشن کی درخواست پر میرٹ پر فیصلہ کرے ، جسٹس عابد عزیز شیخ نے استفسار کیا کہ تو کیا آپ اعتماد کا ووٹ لینے کی آفر قبول نہیں کر رہے ؟آپ کا اعتراض تھا کہ گورنر نے اعتماد کے ووٹ کے لیے مناسب وقت نہیں دیا ، جسٹس عاصم حفیظ نے کہا کہ اس بات میں تو کوئی شک ہی نہیں کہ وزیر اعلی ٰکو 24 گھنٹے اکثریت کا اعتماد حاصل ہونا چاہیے ،
وفاق کے وکیل منصور عثمان نے وزیر اعلیٰ کو پھر عدم اعتماد کا ووٹ لینے کا پابند کرنے کی پیش کش کر دی ،وفاقی حکومت کے وکیل نے عدالت میں کہا کہ عدالت تاریخ اور وقت مقرر کر دے،پرویز الہیٰ کے وکیل نے کہا کہ گورنر کا ڈی نوٹیفائی کرنے کا آرڈر ہی غیر قانونی ہے،جسٹس عابد عزیز شیخ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اسمبلی نے ہی طے کرنا ہے کس نے رہنا ہے ، اٹارنی جنرل نے عدالت میں کہا کہ عدالتی حکم کے17 روز گزر جانے کے باوجود پرویزالہٰی نے اعتماد کا ووٹ نہیں لیا ،جسٹس عابد عزیز شیخ نے کہا کہ آپ مل بیٹھ کر عدم اعتماد کے ووٹ کے لیے وقت اور تاریخ طے کر لیں،علی ظفر نے کہا کہ گورنر صرف اس صورت میں اعتماد کا ووٹ لینے کا کہہ سکتے ہیں جب صورتحال خراب ہو،اسمبلی اجلاس جاری تھا، گورنر ڈ ی نوٹیفا ئی نہیں کر سکتے تھے ،عدالت درخواست پر میرٹ پر فیصلہ کرے،
جسٹس عابد عزیز شیخ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اسکا مطلب ہے آپ عدم اعتماد کے ووٹ کے لیے اٹارنی جنرل کی پیشکش قبول نہیں کر رہے ؟اسمبلی کا فلور ہی وزیر اعلیٰ کے رہنے کے بارے میں فیصلہ کرے گا ،پھر ہم اس درخواست کا میرٹ پر فیصلہ کر دیتے ہیں ،وکیل علی ظفر نے کہا کہ کل سے اپنے دلائل کا آغاز کر دوں گا ،جسٹس عابد عزیز شیخ نے کہا کہ کل سے نہیں، آپ اپنے دلائل شروع کریں،ہمارا تو خیال تھا کہ آپ آفر قبول کریں گے اور اعتماد کا ووٹ لے لیں گے ، بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ ہم گورنر کی آفر پر بعد میں آئیں گے ،جسٹس عابد عزیز شیخ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اگر آپ اعتماد کا ووٹ لیں تو گورنر تو نوٹیفکیشن واپس لینے کو تیار ہیں ،خالد اسحاق معاملے سے متعلق کیا کہتے ہیں؟ علی ظفر نے کہا کہ ہم اٹارنی جنرل کی پیشکش قبول نہیں کر رہے
وفاق کے وکیل منصور عثمان نے درخواست کے قابل سماعت ہونے پر اعتراض کر دیا، کہا کہ گورنر کا کوئی فیصلہ کرتے ہوئے وجوہات دینا ضروری نہیں ،جسٹس عاصم حفیظ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ سیاسی کشیدگی جاری ہے ،سیاسی جماعتیں چاہتی ہیں کہ پہلے جو کال کرے وہ پھنسے،ہم نے اتفاق راے سے اعتماد کے ووٹ کی ہدایت کی تھی،آئین کے تحت اعتماد کے ووٹ کے لیے کم سے کم 3 روزضروری ہیں،جسٹس عابد عزیز شیخ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ گورنر کا اعتماد کے ووٹ کے لیے مناسب وقت دینا ضروری ہے
پرویزالہٰی کے وکیل نے اعتماد کا ووٹ لینے کی حکومتی پیشکش مسترد کر دی ،عدالت نے علی ظفر کو میرٹ پر ہونے سے متعلق دلائل دینے کی ہدایت کر دی،جسٹس عابد عزیز شیخ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ہم روزانہ کی بنیاد پر کیس کو سنیں گے،عدم اعتماد کی تحریک آنے پر رائے شماری ہوتی ایسے میں گورنر پرویز الہٰی کو ہٹا سکتے ہیں،
علی ظفر نے کہا کہ عدم اعتماد کی تحریک آنے کے 20منٹ پر گورنر نے اعتماد کا ووٹ لینے کا کہا،گورنر نے خود ہی وزیر اعلیٰ اور کابینہ کو برطرف کر دیا ,عدالت نے کہا کہ وزیر اعلیٰ 186 ووٹ لے کرخود آنا تھے پرویز الہٰی کو ثابت کرنا تھے کہ انکے پاس اکثریت ہے،علی ظفر نے کہا کہ اب عدم اعتماد آنے پر انکو ثابت کرنا تھا کہ پرویز الہٰی کو اکثریت نہیں رہی،یہی صورتحال وزیراعظم کے آفس کی ہے،یہاں صدر اسمبلی اجلاس بلاکر وزیر اعظم کو اعتماد کا ووٹ لینے کا کہہ سکتے ہیں،رولز اف بزنس اس بارے واضح ہیں،آئین نے گورنر کو اختیارات دیئے ہیں مگر اس کا بھی طریقہ کار ہے،گورنر پنجاب اگر وزیر اعلیٰ کے اعتماد پر مطمئن نہیں تھے ،تو اسپیکر کو اجلاس بلوانے کا کہتے،اسپیکر اسمبلی گورنر کے نوٹیفکیشن کے بعد ممبران کو نوٹسز جاری کرتا ہے ،موجودہ کیس میں ایسا نہیں کیا گیا گورنر پنجاب اعتماد کے ووٹ کے لیے دن مقرر نہیں کرسکتا ,
لاہور ہائیکورٹ نے پرویز الہیٰ کی درخواست پر سماعت کل تک ملتوی کردی .عدالت نے کہا کہ عدالت کل صبح 9 بجے سماعت کا آغاز کرے گی پرویز الہٰی کو ثابت کرنا تھا کہ انکے پاس اکثریت ہے،
تحریک انصاف کا پنجاب اسمبلی سے بھی استعفوں پرغور
وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ کا کہنا تھا کہ ہائوس میں جانے سے کسی کو بھی اندر جانےسے روکا جا سکتا،
گیٹ پر سکیورٹی اسٹاف اور اسمبلی ارکان کے درمیان دھکم پیل ہوئی
عثمان بزدار کے گرد گھیرا تنگ،مبشر لقمان نے بطور وزیر بیورو کریسی کیلئے کیسے سٹینڈ لیا تھا؟ بتا دیا