جب تک مسنگ پرسنز کے کیسز ہوتے رہیںگے یہ عدالتیں کام کرینگی،جسٹس محسن اختر کیانی

لاپتہ افراد سے متعلق کیس کی سماعت 14 جون تک ملتوی
0
141
islamabad highcourt

اسلام آباد ہائیکورٹ میں بلوچ طلبا کی بازیابی سے متعلق قائم کمیشن کی سفارشات پرعملدرآمد کیس کی سماعت ہوئی،

اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس محسن اخترکیانی نے سماعت کی،گمشدہ بلوچ طلبا کی جانب سے وکیل ایمان مزاری اور ہادی علی چٹھہ عدالت میں پیش ہوئے،اٹارنی جنرل نے لاپتہ افراد کیلئے قائم کمیٹی کی رپورٹ عدالت میں پیش کردی ،جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اس عدالت نے ایک کمیٹی بنائی تھی،اس کمیٹی کے کچھ ٹی او آرز تھے،گزشتہ 10سال میں بلوچ طلبا کیخلاف دہشتگردی کے کتنے کیسز درج کئے گئے؟ کوئی بھی جج، وکیل،صحافی، پارلیمنٹیرینز ایجنسیوں کو کام سے روکنے کی بات نہیں کرتے، صرف خلاف قانون کام کرنے سے روکنے کی بات کرتے ہیں، ایجنسیزکا کام کرنے کا طریقہ کارواضح ہو جائے تو اچھا ہوگا، قانون میں ایف آئی اے اور پولیس تفتیش کر سکتی ہیں,،جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ایجنسیز تفتیش میں معاونت کرسکتی ہیں،ہمیں قانون کے دائرہ اختیار میں رہ کر کام کرنا چاہئے،یہ 21ویں سماعت ہورہی ہے،آپ کی محنت سے کئی سٹوڈنٹس بازیاب ہوئے ہیں

جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ الزام ہے کہ بہت سے لوگ ایجنسیوں کی تحویل میں ہوتے ہیں، وہ کھاتے پیتے بھی ہونگے، خرچ سرکاری خرانے پر آتا ہے؟ایجنسیوں کے فنڈز کا کوئی سالانہ آڈٹ ہوتا ہے؟ہم نے پولیس، سی ٹی ڈی اور ایف آئی اے کو موثر بنانا ہے،یہی تین ادارے ہیں جنہوں نے تفتیش کرنی ہوتی ہے باقی ایجنسیاں انکی معاونت کر سکتی ہیں،”ایجنسیوں کے کام پر کسی کو اعتراض نہیں، اعتراض ماورائے قانون کام کرنے پر ہے،ہم سب نے قانونی دائرہ اختیار میں رہتے ہوئے کام کرنا ہے،جنگ میں بھی سفید جھنڈا لہرا کر سیز فائر کی جاتی ہے بات چیت کر کے حل نکالا جاتا ہے”،جب تک مسنگ پرسنز کے کیسز ہوتے رہیں گے یہ عدالتیں کام کرینگی،وزیرِ اعظم شہباز شریف کو عدالت میں طلب کیا، انہوں نے بھی یہی کہا، ہم سب نے قانونی دائرہ اختیار میں رہتے ہوئے کام کرنا ہے اس ملک نے دہشت گردی میں 70 ہزار جانیں گنوائی جا چکی ہیں، قانونی دائرے میں جو اختیار ملتا ہے اس پر عمل درآمد کریں،اٹارنی جنرل نے عدالت میں کہا کہ سیاسی طور پر اس مسئلے کے حل تک یہ مسئلہ حل نہیں ہو گا۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے استفسار کیا کہ مطلب آپ یہ مانتے ہیں کہ یہ ایک سیاسی مسئلہ ہے؟ ہم نے باہر سے کسی کو نہیں بلانا کہ آ کر مسئلہ حل کرے، غلطیاں ہوتی ہیں غلطیوں سے سیکھ کر آگے بڑھنا ہوتا ہے، یہ 21 ویں سماعت ہے، آپ کی محنت سے کئی اسٹوڈنٹس بازیاب ہوئے،اٹارنی جنرل نے کہا کہ ہم نے لاپتہ افراد کیسز میں بہت کام کیا، جو رہ گیا وہ بھی کریں گے، تھوڑا وقت دے دیں، لاپتہ افراد سے متعلق سیاسی حل بھی تلاش کیا جا رہا ہے، ہماری بھی یہی استدعا ہے کہ تھوڑا وقت دے دیا جائے۔

اٹارنی جنرل کی کاوشوں سے بہت سے لاپتہ افراد اپنے گھروں کو پہنچ گئے ،جسٹس محسن اختر کیانی
ایمان مزاری ایڈووکیٹ نے کہا کہ لواحقین کو ڈرایا دھمکایا گیا، لاپتہ افراد پر کمیٹی بنائی گئی، کمیٹی میں سے کوئی بھی لواحقین سے ملنے نہیں گیا، کمیشن بنا دیا گیا لیکن کوئی بھی پروگریس نہیں ہے، لاپتہ افراد کے لواحقین کو کوئی بھی معلومات فراہم نہیں کی جاتیں،جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آپ کے مطابق جو معلومات عدالت میں دی گئیں وہ درست نہیں ہیں، اس معاملے میں اٹارنی جنرل کی کاوشوں کو سراہنا ہو گا، اٹارنی جنرل کی کاوشوں سے بہت سے لاپتہ افراد اپنے گھروں کو پہنچ گئے ہیں، جب تک مسنگ پرسنز کے کیسز آتے رہیں گے یہ کورٹس کام کرتی رہیں گی، ایک کیس نہیں ہے کہ اس پر آرڈر کریں اور بات ختم ہو جائے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ لاپتہ افراد کا معاملہ کابینہ کے آئندہ 2 اجلاسوں میں اٹھایا جائے گا، عدالت ڈی جی آئی ایس آئی، ڈی جی ایم آئی اور ڈی جی آئی بی کی کمیٹی میں تبدیلی کرے، اس کمیٹی میں ڈی جیز لیول سے نیچے کے لوگ ڈالیں تاکہ کوآرڈی نیشن آسان ہو،عدالت نے اٹارنی جنرل اور ایمان مزاری سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ میں آرڈر جاری کروں گا وہ آپ دیکھ لیں، اٹارنی جنرل صاحب یہ بتائیں کہ آپ جیسے لوگ کہاں پر ہیں جو مسائل کو حل کرتے ہیں،اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ سر یہ بہت مشکل سوال ہے، اس معاملے کو اگر حل نہیں کیا تو مسائل بڑھیں گے،عدالت نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے پاس ایک اور لاپتہ فرد کا کیس ہے، اس میں بھی آپ آئیں،اٹارنی جنرل نے کہا کہ میں اس کیس میں ضرور آؤں گا،عدالت نے لاپتہ افراد سے متعلق کیس کی سماعت 14 جون تک ملتوی کر دی۔

لاپتہ افراد انکوائری کمیشن کی مدت میں توسیع

سپریم کورٹ، جبری گمشدگی،لاپتہ افراد بارے درخواستوں پر سماعت 9 جنوری تک ملتوی

پچاس سال بھی لگ جائیں ہم عدالت آتے رہیں گے،لاپتہ افراد کیس میں شہری کی دہائی

تعلیمی ادارے میں ہوا شرمناک کام،68 طالبات کے اتروا دیئے گئے کپڑے

 چارکار سوار لڑکیوں نے کارخانے میں کام کرنیوالے لڑکے کو اغوا کر کے زیادتی کا نشانہ بنا ڈالا

لاپتہ افراد کی عدم بازیابی، سندھ ہائیکورٹ نے اہم شخصیت کو طلب کر لیا

 لگتا ہے لاپتہ افراد کے معاملے پر پولیس والوں کو کوئی دلچسپی نہیں

سندھ ہائیکورٹ کا تاریخی کارنامہ،62 لاپتہ افراد بازیاب کروا لئے،عدالت نے دیا بڑا حکم

اگلے مرحلے پر آئی جی کو بھی طلب کرسکتے ہیں

Leave a reply