موجودہ تعلیمی نظام اور مستقبل تحریر: عثمان

0
61

میرے چھوٹے بھائی عرفان اور رضوان اللّه کے فضل و کرم سے آٹھویں جماعت پاس کر چکے تھے اور 

نویں جماعت میں داخلہ کروانے میں گھر والے تاخیر نہیں کرنا چاہتے تھے۔ ابّا جان کی طرف سے دونوں بھائیوں کو کسی اعلیٰ سکول میں تعلیم دلانے کی زمیداری مجھے دی گئی تھی۔ تو میں اپنے کچھ دوستوں کے ساتھ شہر کے سکولوں کا دورہ کرنے نکل پڑا

شہر بھر کے سکول پھرنے کے باد چند ہی ایسے سکول تھے جن کا ماحول مناسب تھا ورنہ تو سکولوں میں نا تو صفائی تھی نا ہی پینے کا صاف پانی اور نا ہی تربیت یافتہ اساتذہ ۔بہت سے سکولوں کے اساتذہ اور طلبہ سے بات کرنے کا بھی اتفاق ہوا لیکن میرا دل و دماغ مطمئن نہیں ہوئے-

پھر جب شام کے وقت ابّا  کو تمام دن کا احوال بتایا جس پر ابّا کہنے لگے بیٹا کل آپ میرے دوست اور آپ کے استاد محترم محمّد اکبر کے پاس چلے جانا ان سے مشورہ کر لینا وہ بہتر مشورہ دیں گے ۔

محمّد اکبر استاد ہیں (اسلامک سائنس کالج شہدادپور ) کے 

اتوار کے دن ابّا ہی کے ساتھ استاد محترم  کے پاس پہنچے  چائے پی ابّا نے بچوں کی تعلیم کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ آپ ہی مشورہ دیں ہمیں تو کچھ سمجھ نہیں آرہا کہ کیا کیاجائے۔

استاد محترم نے کہا آپ اپنے بچوں کو پڑھانا چاہتے ہیں یا صرف نام کی سند دلوانی ہے۔

ابّا نے کہا بھئی پڑھانا چاہتے ہیں, استاد نے کہا کے شہر کے نامی گرامی اسکولوں کے بجائے اسلامک سائنس کالج  میں داخلے کا مشورہ دیا ۔اگلے ہی دن بھائیوں  کو لے کر اسلامک سائنس کالج پہنچا تو وہاں بچوں کا سکول یونیفارم دیکھ کر حیران ہوگیا وہ پینٹ شرٹ نہیں بلکے قومی لباس شلوار قمیض میں تھے۔ ہم جیسے ہی کلاس میں داخل ہوئے بچوں نے اسلام و علیکم کہاں 

ہم نے جواب میں وعلیکم اسلام کہا ۔کچھ ہی دیر تک اندازہ ہوگیا تھا کہ یہاں صرف دنیاوی تعلیم ہی نہیں بلکہ دین ِاسلام کی تربیت بھی دی جاتی ہے تہذیب یافتہ طلباء و استاد تھے اور ساتھ ہی مسجد تھی پینے کے صاف پانی کی سہولت تھی پارک، کھیل کا میدان تھا ۔

دونوں بھائیوں کا ٹیسٹ ہوا  تو وہاں موجو استاد نے کہا کے آپکے بھائی کو ہم نویں جماعت سے ارو دوسرے کو آٹھویں جماعت سے داخلہ دیں گے کیونکہ اس کی بنیادی تعلیم کمزور ہے ۔

ہم نے وہاں کے استاد کا شکریہ ادا کیا اور چل دیے۔

ابّا جان کو سارا احوال بتایا اور استاد محمّد اکبر کو بھی تمام صورت حال سےآگاہ کیا ۔پھر 

میں نے استاد محترم سے پوچھا کہ میرے بھائیوں کی بنیادی تعلیم کمزور کیسے ہو سکتی ہے جبکہ ایک  جماعت سے آٹھ  جماعت تک اچھی گریڈنگ لیتے آئے ہیں ۔

استاد نے کہا کہ صرف آپکے بھائی کو نہیں بلکہ ہمارے تمام تعلیمی اداروں میں سب کی بنیادی تعلیم کمزور ہے ۔وجہ اچھے اور قابل اساتذہ کا نہ ہونا ہے ۔ ہمارے ضلع سانگھڑ  تحصیل شہداپور میں 250 ایسے اسکول ہیں جن میں دس جماعت پاس طلبہ و طلبات کو ایک استاد کا درجہ دے دیا جاتا ہے جو میری نظر میں غلط ہے ۔

ایک دس پاس جماعت کی طلبہ جس کی بنیادی تعلیم کمزور ہو وہ کیسے بچوں کو ادب پڑھائے گی جو ایک  قابل استاد میں ہوتی ہے ؟

اور کمزوری کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ آج کل ایک بچے کو پانچ سبجیکٹ پڑھاتے ہے جوکہ بچہ ایک بھی ٹھیک سے نہیں پڑھ پاتا 

ہمارے دور میں بچے کو پہلے ایک سبجیکٹ پر محنت کروائی جاتی تھی اور بچہ لگن کے ساتھ پڑھتا تھا۔مگر آج ٹیوشن الگ اسکول الگ بچہ ٹھیک سے نہیں پڑھ پاتا ۔

ہونا یہ چاہے تھا کہ بچے کو اسلامیات اردو اور آسان انگلش اچھے سے پڑھائی جائے جو کہ یہ سب ماحول آج بھی اسلامک اسکول میں ہے وہاں کے بچوں میں ادب اخلاص صاف لباس پانچ وقت نماز کی پابندی بہترین مستقبل کی شروعات ملتی ہے یہاں کے بچے امتحانات میں نقل نہیں کرتے بچے اس قابل ہیں کے خود سے پڑھ لیتے ہیں ۔

میرے ذہن میں ایک بات آئی استاد محترم یہ دس ، بارہ پاس والے لڑکے لڑکیوں کو آخر کیا ضرورت پڑتی ہے جو وہ لوگ آگے پڑھنے کے بجائے یہاں کے اسکول میں بچوں کو پڑھانے لگ جاتے ہیں ؟

استاد نے بتایا کہ  ہمارے سندھ کا  تعلیمی نظام و دیگر وسائل کی وجہ سے

 12 جماعت پاس طلبہ و طالبات آگے پڑھ نہیں پاتے آپ کے سروے کے مطابق 20 ایسے کالج جس میں طلبہ کو بورڈ کے امتحانات میں نکل کی تمام تر سہولیات دی جاتی ہے اور طلبہ آسانی سے پاس ہو جاتے ہے ۔

کالج میں طلبہ کا مائنڈ سیٹ پہلے سے ہی بنا دیا جاتا ہے کہ آپ کو نقل مل جائے گی آپ  پاس ہیں 

اسی طرح طلبہ و طالبات کو پتا ہے کہ ہم پاس ہیں 

تعلیمی ادارے اب پہلے جیسے نہیں رہے تمام اسکول و کالجوں کو اب صرف بزنس کے طور پر چلایا جاتا ہے 

بچوں کا مستقبل تباہ کیا جا رہا ہے  ۔

پاکستان کا 85 فیصد طبقہ پڑھ رہا ہے مگر کیا پڑھ رہا ہے ؟

‏‎ارباب اختیار اس بارے  میں بھی سوچئے اور  بچوں کے مستقبل کے ساتھ کھیلنے والے ان مافیاز کے خلاف ایکشن لے؛

علم بہت بڑی دولت ہے!

یقین نہ آئے تو تعلیمی اداروں کے مالکان کو ہی دیکھ لو ۔

@UsmanKbol

Leave a reply