دفاعِ پاکستان _ تجدیدِ ایمان تحریر بینیش عباس

0
77

حُبُّ الْوَطَنِ مِنَ الْاِیْمَانِ "وطن سے محبت ایمان کا حصہ ہے”

بچپن سے پڑھتے سنتے جوان ہوئے اس مشہور مقولے کو صحت کے اعتبار سے نبی ﷺ سے منسوب نہ بھی کیا جائے تو آپ ﷺ کی وطن سے محبت بہت سے مقامات پر عیاں ہے حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے مکہ مکرمہ کو چھوڑ کر ہجرت کی تو شہر مکہ کو مخاطب کرکے یہ الفاظ ارشاد فرمائے، جو ترمذی شریف میں موجود ہیں "اے مکہ! تو کتنا پیارا شہر ہے، تو مجھے کس قدر محبوب ہے، اگر میری قوم مجھے تجھ سے نہ نکالتی تو میں تیرے سوا کسی دوسرے مقام پر سکونت اختیار نہ کرتا” معلوم ہوا کہ اپنے شہر، صوبے اور مُلک سے محبت ایک فطری جذبہ ہے جو شرعاً بھی پسندیدہ ہے۔

آج فیملی میں بیٹھے ایک انتہائی پیارے اور قریبی رشتے سے یہ بحث ہو گئی کہ "شادی کے شروع دنوں میں ہی بیوی کی بات مان کر کسی یورپی ملک میں سیٹل ہو جاتا تو آج پانچ سالہ جڑواں بچے بھی یورپ نیشنل ہوتے بروقت فیصلہ نہ کرنے اور اولاد کو پرسکون زندگی سے دور رکھ کر ان کا مستقبل داو پر لگا دیا” وطن اور جھنڈے کی حرمت پہ قربان مجھ جیسے آشفتہ سر کو بات دل سے رُلا گئی، میں نے کہا کہ حاجی صاحب اللہ کی دنیا کی سیر کرنے کی حد تک تو ٹھیک لیکن اپنے وطن جیسا تو کچھ بھی نہیں ہے، تم اچھی زندگی کا حق رکھتے ہو، لیکن اپنی جوانی کے 30-40 سال دشتِ غیر میں سکون سے گزارنے کے بعد آخر وہ کیا چیز ہے جو بیماری زدہ وجود کو وطن واپس آنے پہ مجبور کرتی ہے؟ وہ کونسی گیدڑ سنگی ہے جو لاشوں اور تہذیب سے عاری جوان اولاد کو وطن واپس کھینچ لاتی ہے؟ تو حاجی صاحب کہنے لگے وہ بے وقوف ہوتے ہیں جو ایسے فیصلے کرتے ہیں، لاش کا کیا ہے کہیں بھی دبا دو میں اولاد کا مستقبل کبھی داوء پر نہیں لگاوں گا۔ اور اس مسقتبل کو محفوظ کرنے کے لئے وہ حاجی صاحب جنہوں نے ساری جوانی باپ دادا کی وراثت شدہ مال پہ گزاری اب 41 سالہ عمر میں تن من سے انگریزی سیکھنے پہ لگے ہیں کہ زبان کا مسئلہ نہ ہو کہ بہرحال سال کے اندر اندر سویڈن یا کسی بھی دوسرے یورپی ملک کا ورک پرمٹ لے کر یہاں سے نکلنا ہے۔ اس ساری بحث میں آوازیں اونچی بھی ہوئیں اور رشتے کا احترام بھی پسِ پشت ڈالا گیا، دل بھی رویا کہ یہ ہیں وہ لوگ جن کی پرسکون نیندوں کے لئے ہزاروں جوان اپنی راتیں قربان کرتے ہیں، سینکڑوں خاندانوں کے اثاتے اپنی جان دے کر دن کا سکون قائم رکھتے ہیں۔ میرے بس میں ہو تو ان جیسوں کی لاشیں وصول کرنے سے بھی انکار کر دوں کہ یہ بھی غداری ہی ایک شکل ہے۔

یاد کریں لیبیا، شام، ایران، عراق کو۔۔۔ اور سوچیں دوسروں کی عطا کردہ زندگی کسی بھی سرزمین پر بھلا کیسے سکون دے سکتی ہے؟اسرائیل کی مثال سامنے ہے انسانیت دشمن ممالک کسیے کسی پرسکون زندگی کی ضمانت ہو سکتے ہیں؟ زیادہ پرانی بات نہیں افغانستان سے امریکہ کا حالیہ انخلاء ہم سب کے سامنے ہے کہ کس طرح لوگوں نے اچھی زندگی کے ڈھونگ( بروقت ضرورت امریکی مقاصد کے لئے استعمال) میں آ کر کیسے بزرگوں اور بڑوں اور بچوں نے کوششیں نہیں کی، کس طرح جہازوں سے لاشیں گریں اور ابھی ہفتہ بھی نہیں گزرا کہ افغان کیمپوں میں موجود لوگوں کو خوراک کی کمی اور بنیادی ضرورت کے مسائل کے انبار تلے دبا دیا، شکایت کرنے والوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ یہ زندگی ان کا ذاتی انتخاب تھا۔

ہر بیرونِ ملک مقیم پاکستانی کا کردار بھی ایک جیسا نہیں، ان میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو خاندان اور وطن کی خاطر دیارِ غیر میں اپنی زندگی کاٹ دیتے ہیں کہ اولاد کو اسی ملک میں روشن مستقبل دے سکیں، قرضے میں ڈوبا ملک غیر ملکی معاشی تسلط سے باہر آ سکے یقین جانیں ان کی یہ زندگی جہاد سے کم نہیں ان کو ممتاز کرنے والی چیز بھی ان کی وطن سے محبت و وفاداری ہی ہے۔ جن کو یہ ملک پاکستان پسند نہیں وہ بصد شوق اپنے اثاثے اور خاندان سمیٹ کر کسی بھی دوسری جگہ جا کر اپنی زندگی گزارنے میں آزاد ہیں لیکن پھر ایسوں کی لاشیں بھی ہم لینے سے انکار کرتے ہیں یہ وطنِ عزیز قبرستان نہیں ہے کہ ایسی لاشوں کے لئے خون دے کر اس کی سالمیت کو تو قائم نہیں رکھا ہوا۔

صد شکر کہ اللہ نے وطن سے محبت و وفاداری کو دل میں ایمان کی طرح غیر مشروط ہی رکھا، پرودگارا دعا کرتی ہوں ان لوگوں میں سے اٹھانا جو وطن کی حرمت کے لئے دل، دماغ، قلم، جان و مال اپنے ذاتی مفاد و آرام کو پس پشت ڈال کر قربان کرتے ہیں کہ یہ عزت یہ مقام سب کے حصے میں نہیں آتا۔ آمین۔ اس دفاع کے دن آئیے عہد کریں خود سے کہ اپنی اولادوں کو مال اور دین کی طرح وفا و حب الوطنی بھی وراثت میں دیں گے۔

‎@BetaGirl__

Leave a reply