ڈاکٹری نسخے علاج یا موت کے پروانے۔۔؟

ڈاکٹری نسخے علاج یا موت کے پروانے۔۔؟
تحریر:ڈاکٹرغلام مصطفی بڈانی
گھربیٹھا تھا، دروازے پر دستک ہوئی ،باہرگیا تو قریبی ہمسایہ موجود تھا،اس کے ساتھ ایک بچی تھی جس نے ایک معصوم بچے کو اٹھایا ہواتھاجس کی عمر ایک ماہ تھی،اس ہمسائے نے بتایا کہ یہ میرابچہ ہے اسے کھانسی تھی شہرمیں بچوں کے سپیشلسٹ ڈاکٹرکودکھایا ہے ،اس نے یہ ٹیکے لکھے ہیں اور یہ لگوانے ہیں ،مہربانی کرکے یہ ٹیکے تو لگادیں،جب معروف ڈاکٹرکالکھاہوانسخہ دیکھاتو ایک جھٹکا سالگا،ایک ماہ کے بچے کیلئے جوٹیکے لکھے گئے تھے وہ تین قسم کی اینٹی بائیوٹک پرمشتمل تھے ،پینے کیلئے الگ سے ایک اور سیرپ کی صورت چوتھی انیٹی بائیوٹک موجود تھی۔ٹیکوں کی جوڈوزلکھی ہوئی تھی وہ کم ازکم ایک سال کے بچے کوبھی نہیں دی جاسکتی تھی اور مزیدستم یہ کہ وہ تمام ادویات کٹ ریٹ والی تھیں جوعام مارکیٹ میں دستیاب بھی نہیں تھیں وہ صرف ڈاکٹرموصوف کے کلینک میں موجود اٹیچ فارمیسی پر دستیاب تھیں ۔
یہ واقعہ لکھنے کامقصد صرف یہ تھاکہ ہمارے ملک پاکستان میں نامی گرامی ڈاکٹرزعلاج کے نام پرکس طرح انسانی جانوں پر ظلم ڈھارہے ہیں ، پاکستان میں ڈاکٹرز کی جانب سے غیر ضروری طور پر اینٹی بائیوٹکس ادویات کے نسخوں سے متعلق تازہ طبی تحقیق میں ماہرین نے شہریوں کو سنگین خطرات سے خبردار کردیا ہے۔آغا خان یونیورسٹی اور لندن سکول آف ہائیجین اینڈ ٹراپیکل میڈیسن کی حال ہی میں مرتب کی گئی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں مریضوں کو اینٹی مائکروبائل ریزسٹینس (AMR) کے سنگین خطرے کا سامنا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اے ایم آر کا مطلب یہ ہے کہ بیکٹیریا، وائرس اور پیراسائٹس میں ان ادویات جو ان کے خاتمے کیلئے دی جاتی ہیں کے خلاف قوت مدافعت پیدا ہوجاتی ہے ، اس کی بنیادی وجہ ڈاکٹرز کی جانب سے مریضوں کو اندھا دھند اینٹی بائیوٹکس کا استعمال کرانا ہے،عالمی ادارہ صحت کے مطابق صرف سال 2019 میں اینٹی مائکروبائل ریزسٹینس (AMR) سے دس لاکھ سے زائد اموا ت ہوئیں۔

حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستانی ماہرین کا کہنا ہے کہ اینٹی بائیوٹکس کے اندھا دھند استعمال کے پیچھے وہ ڈاکٹرز ہیں جو مخصوص ادویات تجویز کرنے کیلئے فارماسیوٹیکل کمپنیوں سے ذاتی فوائد یا مراعات حاصل کرتے ہیں، اس صورت حال کی ایک وجہ اینٹی بائیوٹکس کی میڈیکل اسٹور پر کھلے عام فروخت بھی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 90 فیصد پرائیویٹ ڈاکٹر ہفتہ وار بنیادوں پر فارماسیوٹیکل سیلز کے نمائندوں سے ملتے ہیں اور یہ کہ پاکستان میں مراعات کو قبول کرنا یا حاصل کرنا معمول کی بات ہے۔رپورٹ کے مطابق اے ایم آر سے متعلق اقوام متحدہ کے انٹر ایجنسی کو آرڈینیٹنگ گروپ کا اندازہ ہے کہ 2050 تک اے ایم آر دنیا بھر میں 10 ملین لوگوں کی موت کا باعث بن سکتا ہے۔

پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن(پی ایم اے)کے جنرل سیکرٹری، اور سندھ ہیلتھ کیئر کمیشن کے رکن ڈاکٹر عبدالغفور شورونے تسلیم کیا کہ مفادات کے لئے کچھ ڈاکٹر دوا ساز کمپنیوں کی فروخت بڑھانے کیلئے اینٹی بائیوٹکس اور دیگر ادویات تجویز کرنے میں مصروف ہیں، وہ لوگ تحائف، دوروں پر جانے کی پیشکش اور دیگر مالی فوائد کے بدلے میں ایسا کرتے ہیں۔

عالمی ماہرین ادویات و صحت نے عالمی سطح پر اینٹی بائیوٹک ادویات کے استعمال کے رجحان کے بارے میں حال ہی میں شائع ہونے والی اہم تحقیق میں کہا ہے کہ عالمی سطح پر اینٹی بائیوٹک ادویات کے استعمال میں سن دو ہزارسے اب تک پینسٹھ فیصدسے زائد تک اضافہ دیکھا گیا ہے۔ یہ پیش رفت لوگوں کی صحت پر منفی اثرات کے حوالے سے انتہائی تشویش ناک ہے۔ دنیا کے ستر سے زائد ممالک میں ہونے والی اس نئی تحقیق میں اینٹی بائیوٹک ادویات کے استعمال میں اضافے کے حوالے سے پاکستان کو چین اور بھارت کے بعد تیسرے نمبر پر رکھا گیا ہے۔

امریکا کی نیشنل اکیڈمی آف سائنسز کی اس تحقیق میں محققین نے خبردار کیا ہے کہ ان ادویات کے غیر محتاط استعمال میں اضافے سے بیماریوں کے خلاف ان ادویات کا اثر کم ہو رہا ہے جبکہ پاکستان میں مختلف بیماریوں کے خلاف اینٹی بائیوٹک ادویات غیر مئوثرثابت ہو رہی ہیں۔ یہ تحقیق حال ہی میں امریکا کی اکیڈمی آف سائنسز کے پروسیڈنگس میں شائع ہوئی ہے۔

نومبر 2022ء کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں اینٹی بائیوٹکس کا بے دریغ استعمال جاری ہے اور ملک میں 70 فیصد مریض غیر ضروری اینٹی بائیوٹکس استعمال کر رہے ہیں۔قومی ادارہ صحت کے مطابق اینٹی بائیو ٹکس کے بے دریغ استعمال سے جراثیموں میں ان ادویات کے خلاف مزاحمت بڑھ رہی ہے اور ہر سال ہونے والی 25 فیصد اموات کی وجہ اینٹی بائیو ٹکس کا غیر ضرروی استعمال بھی ہے۔

ستمبر 2022 میں عالمی ادارہ صحت(ڈبلیو ایچ او)نے پاکستانی عوام سے اپنی مرضی سے ادویات استعمال نہ کرنے کی اپیل کی تھی،
نمائندہ ڈبلیو ایچ او کے مطابق پاکستان میں اینٹی بائیوٹکس کا بے دریغ استعمال کیا جارہا ہے، اینٹی بائیو ٹکس کے بے دریغ استعمال سے جراثیموں میں ان ادویات کے خلاف مزاحمت بڑھ رہی ہے۔عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ پاکستان کو ایکس ڈی آر ٹائیفائیڈ جیسی مہلک بیماری کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، یہی حال رہا تو زیادہ تر اینٹی بائیوٹکس بیماریوں کے خلاف بے اثر ہو جائیں گی ،ڈبلیو ایچ او کی اپیل کے باوجود پاکستان میں اینٹی بائیوٹک ادویات کے استعمال میں تشویشناک حد تک اضافہ ہوا ہے، 2021 کے مقابلے میں 2022 میں اینٹی بایوٹکس کے استعمال میں 17 فیصد اضافہ ہوا ،پاکستانی حکام کے مطابق صرف 2022 میں ہی ملک بھر میں 134.5 ارب روپے کی اینٹی بایوٹکس ادویات خریدی گئیں۔

اب ذرا اینٹی بائیوٹک کے چیدہ چیدہ نقصانات کو دیکھتے ہیں۔
٭غیر محتاط استعمال سے ان کا استعمال بیماریوں کے خلاف کم ہوتا جا رہا ہے
٭زیادہ دیر تک اینٹی بائیوٹک کا استعمال بڑی آنت میں کینسر کا سبب بن جاتا ہے
٭اینٹی بائیوٹک کا استعمال ہمیشہ ٹیسٹ و تشخیص کے بعد ہی کیا جائے ٹائیفائیڈ اور یرقان میں اینٹی بائیوٹک کا استعمال نقصان دہ ہوتا ہے
٭اینٹی بائیوٹک کے زیادہ استعمال سے جگر کو بھی نقصان پہنچتا ہے
٭اینٹی بائیوٹک کے زیادہ استعمال سے الرجی اور پیٹ خراب ہو جاتا ہے
٭ اینٹی بائیوٹک کا بار بار استعمال ان کا اثر کم کر دیتا ہے
٭اینٹی بائیوٹک کا بار بار استعمال آپ کو ذیابیطس کے مرض میں مبتلا کر سکتا ہے
٭اینٹی بائیوٹک جب خون کے ذریعے آپ کے جسم میں داخل ہو جاتی ہے تو یہ بیکٹیریا کو ختم کر دیتی ہے لیکن ہمارے جسم میں کچھ اچھے بیکٹیریا بھی ہوتے ہیں یہ دوا ان کا بھی خاتمہ کر دیتی ہے جس سے صحت متاثر ہوتی ہے۔
جنوری 2011 کی رپورٹ کے مطابق ترقی یافتہ ممالک کے برعکس پاکستان سمیت اکثر ترقی پذیر ملکوں میں اینٹی بائیوٹک ادویات کھلے عام فروخت ہوتی ہیں اور ان کی خرید کے لئے کسی ڈاکٹری نسخے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ خاص طور پر کم عمر بچوں کو اینٹی بائیوٹک دوا دینے کی صورت میں اس کے نتائج انتہائی خطرناک برآمد ہوسکتے ہیں،ایک حالیہ تحقیق سے ظاہر ہوا ہے کہ ایک سال سے کم عمر بچوں کواینٹی بائیوٹک دئے جانے سے ان میں شدید اور مہلک علامتیں پیدا ہونے کا خطرہ 40 فی صد تک ہوتاہے۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ چھوٹے بچوں کو اگر اینٹی بائیوٹک دوا کا دوسرا کورس کرایا جائے تو یہ خطرہ 70 فی صد تک بڑھ جاتا ہے ۔

امریکہ کی ییل یونیورسٹی میں سائنس دانوں کی ایک ٹیم نے ایسے بچوں پر تحقیق کی جو اینٹی بائیوٹک کے استعمال کے بعد دمے یا سانس کی بیماری میں مبتلا ہوئے تھے۔تازہ ترین تحقیقی جائزے سے یہ معلوم ہوا کہ بچوں میں دمے اور سانس کی بیماریوں کا اینٹی بائیوٹک دواسے گہرا تعلق موجودہے۔ برطانیہ میں دمے میں گیارہ لاکھ بچے مبتلا ہیں ۔ یہ تعداد دنیا کے کسی بھی ملک میں اس مرض میں مبتلا بچوں سے زیادہ ہے۔اس سے قبل ہونے والے کئی سائنسی مطالعوں میں بھی یہ امکان ظاہر کیا گیا تھا کہ بچوں میں دمے کا مرض پیدا ہونے میں اینٹی بائیوٹک ادویات کا بھی ہاتھ ہے، لیکن اس خدشے کو مسترد کرنے والے طبی ماہرین کی تعداد بھی کچھ کم نہیں تھی۔ تاہم اس سلسلے میں تازہ تحقیق زیادہ جامع اور ٹھوس شواہد پیش کرتی ہے۔

اگرچہ اکثر معالج کم عمر بچوں کو انٹی بائیوٹک دینے سے گریز کرتے ہیں لیکن انفکشن کی شدت اور چھاتی کے امراض میں اس کا استعمال ضروری ہوجاتا ہے۔ییل یونیورسٹی کی اس سائنسی تحقیق میں 1400 بچوں کے کیسوں کا مطالعہ کیا گیا اور یہ جاننے کی کوشش کی گئی کہ آیا کم عمری میں اینٹی بائیوٹک ادویات کے استعمال سے وہ چھ برس کی عمر کو پہنچنے تک دمے یا سانس کی کسی بیماری کے مریض تو نہیں بن گئے تھے۔ تحقیق میں یہ امور بھی پیش نظر رکھے گئے کہ آیا متاثرہ بچوں کے والدین یا ان کے خاندان میں دمے کا مرض موجود تو نہیں تھا اور یہ جائزہ بھی لیا گیا کہ اینٹی بائیوٹک کا استعمال چھ ماہ کی عمر سے پہلے ہوا تھا یا بعد میں۔تحقیق سے یہ ظاہر ہوا کہ کم عمر بچوں کو اینٹی بائیوٹک دیے جانے سے ان میں عمر بڑھنے پر دمے اور سانس کی بیماریوں میں مبتلا ہونے کے خطرے میں نمایاں اضافہ ہوا۔

ڈاکٹر کیری رائزنز جنہوں نے اس تحقیق کی قیادت کی کا کہنا ہے کہ مطالعے کے نتائج یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ڈاکٹروں کو اینٹی بائیوٹک ادویات کے استعمال سے ممکنہ حدتک گریز کرنا چاہیے ، خاص طورپر کم عمر بچوں میں کیونکہ ان کا معدافتی نظام کمزور ہوتا ہے اور جراثیم کش ادویات ان کی نشوونما کو نقصان پہنچا سکتی ہیں۔ عالمی ادارہ صحت نے اپنی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ دنیا کے 87 ممالک سے حاصل کیے گئے اعداد و شمار سے معلوم ہوا ہے کہ اینٹی بائیوٹک ادویات کے غلط اور زیادہ استعمال سے بیماریوں کے ساتھ ساتھ انفیکشنز میں بھی اضافہ ہوا ہے۔

ان تحقیقاتی رپورٹس کا مطالعہ کرنے کے بعدیہ سوال پیداہوتا ہے کہ پاکستان میں ڈاکٹرجو نسخوں میں ادویات لکھ رہے ہیں وہ عوام الناس کو صحت یاب کرنے کی بجائے موت کے منہ میں دھکیل رہے اور ڈاکٹروں کے یہ لکھے ہوئے نسخے موت کے پروانے ثابت ہورہے ہیں ،آخرکب تک عوام کے ساتھ علاج کے نام پر یہ کھلواڑ کھیلا جاتا رہے گا،کیا کوئی ہے جو پاکستانی عوام کو اس مکروہ دھندے میں ملوث مافیاء کے کارندوں سے بچاسکے؟۔

Leave a reply