گالم گلوچ چلانا کیا آزادی اظہار میں آتا ہے، چیف جسٹس

وکیل صاحب آپ بال کی کھال اتارنے جیسی بات کر رہے ہیں، چیف جسٹس کا وکیل سے مکالمہ
0
188
supreme

سپریم کورٹ، فیصل واوڈا اور مصطفیٰ کمال کے خلاف کیس کی سماعت ہوئی

چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی سربراہی میں 3رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی،سینیٹرفیصل واوڈااور مصطفی کمال ذاتی حیثیت میں سپریم کورٹ میں پیش ہوئے،بیرسٹرفروغ نسیم نے عدالت میں کہا کہ مصطفیٰ کمال نےغیرمشروط معافی مانگی اب پریس کانفرنس میں بھی ندامت کا اظہار کرچکے ہیں،فیصل واوڈا عدالت پیش ہوئے تو چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ کے وکیل نہیں آئے؟کیا آپ نے بھی معافی مانگی ہے، فیصل واوڈا نے کہا کہ جی میں نے بھی معافی مانگی ہے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ کے کلائنٹس کہاں ہیں؟ وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ 26 چینل کی جانب سے میں ہوں،چیف جسٹس قاضٰی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ کے کسی کلائنٹ نے ابھی تک کوئی جواب جمع نہیں کروایا،آپ نے عدالتی حکم پر عمل نہیں کیا، وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ تمام چینلز کے نمائندگان عدالت میں موجود ہیں،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ چینلز کی جانب سے جواب جمع نہیں کرایا گیا، وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ تحریری جواب جمع کروا چکا ہوں، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ جواب پر دستخط وکیل کے ہیں چینلز کے نہیں،توہین عدالت کیس میں دستخط چینلز کے ہونا لازمی ہیں، وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ شوکاز نوٹس ہوتا تو جواب چینلز کے دستخط سے جمع ہوتا،میڈیا اداروں کو شوکاز نوٹسز نہیں تھے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کیا آپ میڈیا اداروں کو شوکاز کروانا چاہتے ہیں ؟جسٹس عقیل عباسی نے کہا کہ کم از کم میڈیا اداروں کے کسی ذمہ دار افسر کا دستخط شدہ جواب جمع ہونا چاہیے تھا ،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ جو باتیں کر رہے ہیں وہ کہاں سے کر رہے ہیں؟ پیمرا سے یا کسی بین الاقوامی کنونشن سے دکھائیں،وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ حقائق اور سچ میں فرق ہوتا ہے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ یہ میں آج آپ سے نئی بات سیکھوں گا، وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ میں کہاں آپ کو کچھ بھی سکھا سکتا ہوں،سچ کا تناظر وسیع ہوتا ہے،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ ہمارے سامنے کھڑے ہیں یہ حقیقت ہے یا سچ؟بال کی کھال اتارنے جیسی بات کر رہے ہیں، صدیقی صاحب وکیل نے اپنے کلائنٹ کا مفاد دیکھنا ہوتاہے،

کس قانون میں لکھا ہے آپ نے پریس کانفرس لائیو ہی دکھانا تھی،سارا دھندا پیسے کا ہے ایمان ،نیت ،اخلاق و تہذیب کا نہیں،چیف جسٹس
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے وکیل فیصل صدیقی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ کیا آپ کو آئین پسند نہیں؟ میں سمجھا آپ آئین سے بات کا آغاز کریں گے،کوئی کسی کو چور ڈاکو کہے اور میڈیا کہے ہم نے صرف رپورٹنگ کی ہے کیا یہ درست ہے؟کیا ایسے آزاد میڈیا کی اجازت ہونی چاہیے یا نہیں؟ آزادی صحافت اور آزادی اظہار رائے دو الگ الگ چیزیں ہیں،گالم گلوچ چلانا کیا آزادی اظہار میں آتا ہے، کیا آئین میں صحافت کی کچھ حدود ہیں یا نہیں، ایک وکیل دوسرے کو جھوٹا اور چور کہے تو میڈیا بغیر تصدیق چلا دیتا ہے، کیا توہین آمیز مواد چلانا توہین عدالت نہیں،کس قانون میں لکھا ہے آپ نے پریس کانفرس لائیو ہی دکھانا تھی،سارا دھندا پیسے کا ہے ایمان ،نیت ،اخلاق و تہذیب کا نہیں، ایسا بھی نہیں ہوا کہ ایک بار غلط بات آنے پر پریس کانفرنس کوکاٹ دیا ہو، اب فریڈم آف ایکسپریشن کے تحت بتائیں اس پریس کانفرنس سے کتنے پیسے کمائے، وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ میں کلائنٹس سے ہدایات لے لیتا ہوں، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہم ایک ایک سے بلا کر پوچھ لیتے ہیں،

ڈائریکٹر نیوز جیوٹی وی رانا جوادروسٹرم پر آگئے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ آپ نے کتنی بار وہ پریس کانفرنس چلائی کتنے پیسے بنائے؟رانا جواد نے کہا کہ گیارہ بارہ بلیٹن میں وہ پریس کانفرنس چلی،پیسوں کا نہیں پتہ میں صرف ایڈیٹوریل دیکھتا ہوں فنانس نہیں،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ پریس کانفرنس کرنے والے کہہ رہے ہیں ان سے غلطی ہو گئی،آپ مگر کہہ رہے ہیں کہ آپ کا فرض ہے یہ دکھائیں گے، جسٹس عقیل عباسی نے کہا کہ کوئی بھی شخص آکر کہہ دے میں عوام کا نمائندہ ہوں آپ اسے نشر کریں گے؟

آپ ہمارے ساتھ گیمز کھیلیں گے تو آپ کو موقع نہیں دیں گے، ہم بھی پھرسختی سے پیش آئیں گے،چیف جسٹس
وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ فریڈم آف پریس کی وضاحت 200سال سے کرنے کی کوشش ہو رہی ہے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ 200سال سے کیوں؟ 1400سال سے کیوں شروع نہیں کرتے،آپ کو 1400سال پسند نہیں؟ 200سال کا ذکر اس لئے کر رہے ہیں کہ تب امریکا آزاد ہوا؟ وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ میں 200 سال کی بات اس لئے کر رہا ہوں کہ ماڈرن آئین کی ابتدا تب ہوئی، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ بسم اللہ الرحمٰن الرحیم سے آغاز ہو رہا ہے آئین کا،اس میں کہاں ماڈرن ایج کا ذکر ہے؟ آپ نے بطور ٹی وی چینلز ان کی گفتگو پھیلائی آپ ان پر تہمت اب لگا رہے ہیں توہین کی خود کہتے ہیں کچھ نہیں کیا،باہر کے ممالک میں تو پریس کانفرنس لائیو نہیں دکھائی جاتی، وہاں پریس کانفرنس سن لی جاتی ہے پھر کچھ چیزیں کاٹ لیتے ہیں، اب آپ امریکا کی مثال نہیں دیں گے، آپ نے خود مان لیا توہین ہوئی ہے پھر آپ کو نوٹس کر دیتے ہیں، یہ تو اب آپ کے اعتراف پر توہین عدالت کی کارروائی ہو گی، وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ مجھے آپ پر پورا اعتبار ہے آپ جو بھی فیصلہ کریں، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ ہمیں سرٹیفکیٹ نہ دیں، کیا یہ آئینی دلیل ہے کہ آپ پر پورا اعتبار ہے؟ وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ عدالت چاہتی ہے کہ چینلز کے دستخط سے جواب دیں تو دے دوں گا،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ ہمارے ساتھ گیمز کھیلیں گے تو آپ کو موقع نہیں دیں گے، ہم بھی پھر آپ کے ساتھ سختی سے پیش آئیں گے،

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ میں تو خود توہین عدالت کی کارروائی پر یقین نہیں رکھتا، ایک ساتھی جج نے کمرہ عدالت میں بات کر دی تھی اس لیے کارروائی شروع کرنا پڑی، ٹی وی چینلز کی جانب سے آپ کا جواب جارحانہ ہے، آپ جواب میں پریس کانفرنس کو توہین کہہ کر اسے نشر کرنا اپنا حق بھی کہہ رہے ہیں، یہ فساد فی الارض کی بات ہے اور اب ہمارا فرض ہے کہ کچھ کریں،

فیصلے سے پہلے تنقید شروع کر دیں تو کیا کریں، کچھ ایسے ہیں جنہیں لگتا ہے انہیں جج کی کرسی پر ہونا چاہیے، چیف جسٹس
جسٹس نعیم اختر افغان نے کہا کہ عام لوگوں کے ذہن پر میڈیا کا بہت اثر ہوتا ہے، آپ نے پریس کانفرنس چلائی پھر بار بار ٹکرز چلے،ہ ٹی وی چینلز پر ان لوگوں کو بٹھایا جاتا ہے جنہیں قانون کا کچھ علم نہیں ہوتا،تبصرے لوگ ایسے کرتے ہیں جیسے سولہ سو فیصلے لکھ چکے ہیں،اگر کوئی میکنزم نہیں ہے تو بنا لیں۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ تو چاہتے ہیں تماشا بنے ورنہ آپ کا کام کیسے چلے گا، عدالتی معاون حافظ عرفات کی جانب سے غیبت، بدگمانی اور فاسق کی خبر کی ممانعت میں قرآنی آیات کا حوالہ دیا گیا، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہمیں کوئی شوق نہیں کسی کیخلاف توہین عدالت کی کارروائی کریں،کیا کریں مگر معاشرہ تباہ ہو رہا ہے،میڈیا کی آزادی سے متعلق ہم بہت محتاط ہیں، کورٹ رپورٹنگ کرنے والے معاشرے میں ایک کام کر رہے ہیں جا کر بتاتے ہیں یہ ہو رہا ہے،اب وہ فیصلے سے پہلے تنقید شروع کر دیں تو کیا کریں، کچھ ایسے ہیں جنہیں لگتا ہے انہیں جج کی کرسی پر ہونا چاہیے،

سپریم کورٹ،توہین عدالت کیس میں فیصل واوڈا،مصطفیٰ کمال کی معافی تسلیم
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ کیا وکیل ٹی وی چینلز کی جانب سے جواب پر دستخط کر سکتا ہے؟جسٹس عقیل عباسی نے ریمارکس دیئے کہ چینلز کے کنڈکٹ پر آپ کی کیا رائے ہے؟اٹارنی جنرل روسٹرم پرآگئے اور کہا کہ اپنی رائے دینے میں محتاط رہوں گا کیونکہ کارروائی آگے بڑھی تو مجھے پراسیکیوٹر بننا ہوگا۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ پھر ایسی بات نہ کریں جس سے کیس متاثر ہو،جتنا بڑا آدمی ہوتا ہے اسکی ذمہ داری بھی اتنی ہی ہوتی ہے، چینلز کا موقف ہے کہ پریس کانفرنس نشر کرنا بدنیتی پر مبنی نہیں تھا۔وقفے کے بعد سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو سپریم کورٹ نے فیصل واوڈا اور مصطفیٰ کمال کی غیر مشروط معافی تسلیم کر لی،چیف جسٹس نےریمارکس دیئے کہ آئین کے آرٹیکل 66 میں آپ پارلیمنٹ میں کھڑے ہوکر بات کرسکتے ہیں،آپ لوگوں کی غیر مشروط معافی قبول کرتے ہیں،آئندہ اس معاملے میں ذرا احتیاط کیجئے گا۔سپریم کورٹ نے فیصل واوڈا اور مصطفیٰ کمال کی غیر مشروط معافی قبول کرتے ہوئے توہین عدالت کا نوٹس واپس لے لیا،وکیل فروغ نسیم نے کہا کہ مصطفی ٰکمال نے غیر مشروط معافی مانگی ہے، مصطفیٰ کمال اب پریس کانفرنس پر بھی ندامت کا اظہار کر چکے ہیں ،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے فیصل واوڈا سے استفسار کیا کہ کیا آپ نے بھی معافی مانگی ہے ،فیصل واوڈا نے کہا کہ جی میں نے بھی معافی مانگی ہے،

سپریم کورٹ نے حکمنامہ میں کہا کہ فیصل واوڈا اور مصطفیٰ کمال کو جاری شوکاز واپس لیا جاتا ہے، توقع ہے دونوں رہنما اپنے جمع کرائے گئے جواب پر قائم رہیں گے، اگر دوبارہ کچھ ایسا ہوا تو صرف معافی قابل قبول نہیں ہو گی،

سپریم کورٹ، ٹی وی چینلز کو نوٹس جاری،،ٹی وی چینلز خود کو پارلیمان سے بھی بڑا سمجھتے ہیں ؟ چیف جسٹس
سپریم کورٹ نےتمام میڈیا چینلز کو توہین عدالت کے نوٹس جاری کرنے کا فیصلہ کیا، عدالت نے ٹی وی چینلز کو شوکاز نوٹس جاری کر دیے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ چینلز کا موقف درست ہے تو ڈٹ کر کھڑے رہیں،ٹی وی چینلز خود کو پارلیمان سے بھی بڑا سمجھتے ہیں ؟ میڈیا چینلز کے وکیل نے کہا لائیو پریس کانفرنس دکھانا انکا حق اور ڈیوٹی ہے،توہین عدالت کا قانون واضح ہے،تمام میڈیا چینلز کے جوابات ایک جیسے ہیں،26 چینلز نے وکیل کے ذریعے جواب جمع کرایا،میڈیا چینلز نے جواب پر دستخط نہیں کیے، ٹی وی چینلز شوکاز نوٹس پر دستخط شدہ جواب جمع کرائیں،ٹی وی چینلز براڈ کاسٹ سے پیسہ کماتے ہیں،ٹی وی چینلز جواب کیساتھ اشتہارات سے کمائی گئی رقم کا ریکارڈ جمع کرائیں،جوابات پر ٹی وی چینلز کے مالکان اور چیف ایگزیکٹو کے دستخط ہونے چاہیں،

فیصل واوڈا نے توہین عدالت کیس میں سپریم کورٹ سے غیر مشروط معافی مانگ لی۔

واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے سینیٹر فیصل واوڈا اور مصطفیٰ کمال کو عدلیہ مخالف بیان دینے پر توہین عدالت کا نوٹس جاری کیا تھا،سینیٹر فیصل واوڈا نے پریس کانفرنس کر کے اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا، فیصل واوڈا کا کہنا تھا کہ اداروں کی دخل اندازی کے ثبوت دیں!میرے خط کا جواب کیوں نہیں دیا؟کیا آپ انصاف کررہے ہیں؟ جج دوہری شہریت کے ساتھ کیسے بیٹھے ہوئے ہیں؟ میری ماں کے لیے سوشل میڈیا پر بیان بازی ہو رہی تھی اس وقت بھی نوٹس لیا جاتا، کل پنجاب میں بچی کو زیادتی کے بعد قتل کیا گیا اس پر بھی نوٹس لیا جاتا، جسٹس بابر ستار کو ایک سال بعد باتیں یاد آرہی ہیں، اب الزامات کے شواہد بھی دینا پڑیں گے، مداخلت کے شواہد لے آئیں ہم آپ کیساتھ کھڑے ہیں، بتایا جائے کس نے آپکے کام میں مداخلت کی،ججز کو شفاف اور الزامات سے دور ہونا چاہیئے، قانون بنانے والے دہری شہریت نہیں رکھ سکتے تو جج کیسے رکھ سکتے ہیں

بحریہ ٹاؤن،چوری کا الزام،گھریلو ملازمین کو برہنہ کر کے تشدد،الٹا بھی لٹکایا گیا

بحریہ ٹاؤن کے ہسپتال میں شہریوں کو اغوا کر کے گردے نکالے جانے لگے

سماعت سے محروم بچوں کے لئے بڑی خوشخبری

ایبٹ آباد میں "ہم جنس پرستی کلب” کے قیام کے لیے درخواست

ہنی ٹریپ،لڑکی نے دوستوں کی مدد سے نوجوان کیا اغوا

بچ کر رہنا،لڑکی اور اشتہاریوں کی مدد سے پنجاب پولیس نے ہنی ٹریپ گینگ بنا لیا

طالبات کو نقاب کی اجازت نہیں،لڑکے جینز نہیں پہن سکتے،کالج انتظامیہ کیخلاف احتجاج

امجد بخاری کی "شادی شدہ” افراد کی صف میں شمولیت

مجھے مسلم لیگ ن کے حوالے سے نہ بلایا جائے میں صرف مسلمان ہوں،کیپٹن ر صفدر

Leave a reply