چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ انتخابات کیس کا فیصلہ 12 دن میں دیا اور اختیارات سے تجاوز نہیں کیا،مثبت دلائل دیں سراہیں گے لیکن گالم گلوچ کسی طور برداشت نہیں کرینگے،
سپریم کورٹ آف پاکستان میں نئے عدالتی سال کے آغاز پر فل کورٹ ریفرنس منعقد ہوا جس کی سربراہی چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کی،جسٹس منصور علی شاہ بیرونِ ملک ہونے کی وجہ سے ریفرنس میں شریک نہیں ہوئے جبکہ شریعت اپیلٹ بینچ کے ارکان جسٹس قبلہ ایاز اور جسٹس خالد مسعود نے بھی فل کورٹ ریفرنس میں شرکت کی،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے نئے عدالتی سال کے آغاز پر فل کورٹ ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ سب کو نئے عدالتی سال کی مبارک ہو، 9 دن بعد مجھے بطور چیف جسٹس ایک سال ہو جائے گا، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ نئے عدالتی سال کے موقع پر نظر ڈالی جاتی ہے کہ ادارے کی کارروائی کیسی رہی، میرا سب سے پہلا کام فل کورٹ اجلاس بلانا تھا جو 4 سال سے نہیں ہوا تھا، لائیو ٹرانسمیشن کا مقصد عوام تک براہِ راست اپنی کارکردگی دکھانا تھا، پہلے عوام کو وہی معلوم ہوتا تھا جو ٹی وی چینلز دکھاتے تھے یا یوٹیوبر بتاتے تھے، عوامی اہمیت کے حامل مقدمات کو براہِ راست نشر کرنے کا فیصلہ کیا، ہر جج کا کوئی نہ کوئی رجحان ہوتا ہے، اتنا تعین ہو ہی جاتا ہے کہ فلاں جج کے پاس کیس لگا تو پراسیکیوشن کا وزن کیا ہو گا، یہ پوری دنیا میں ہوتا ہے، لوگوں نے 30، 40 سال میں بہت کچھ سیکھا ہوتا ہے، کسی نہ کسی طرف اتنے تجربے میں رجحان بن جاتا ہے، اب یہ کسی کی قسمت ہے کہ کس کا کیس کہاں لگ گیا۔
میرے دور میں تاریخ میں پہلی بار کسی جج کو مِس کنڈکٹ پر برطرف کیا گیا،چیف جسٹس
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ میرے دور میں تاریخ میں پہلی بار کسی جج کو مِس کنڈکٹ پر برطرف کیا گیا،ذوالفقار علی بھٹو ریفرنس کو سنا گیا اور اپنی رائے دی کہ ان کے خلاف دیا گیا فیصلہ غلط تھا، اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج کو غلط طریقے سے نکالا گیا ان کی برطرفی کو بھی کالعدم قرار دیا،پہلے بینچ دیکھ کر ہی بتا دیا جاتا تھا کہ کیس کا فیصلہ کیا ہو گا،اب توخود مجھے بھی معلوم نہیں ہوتا کہ میرے دائیں بائیں جانب کون سے ججز کیس سنیں گے، ہم نے نظر انداز کیا تو گالی کلچر شروع کردئیں ، گالی گلوچ دیکر آپ اچھے نہیں لگیں گے بچپن مین کوئی برا کہتا تو والدہ سےشکایت کرتے تو والدہ کہتیں جو کہتا ہے وہی ہوتا ہے ، اسی پر عمل پیرا ہوں ،
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا مزید کہنا تھا کہ چیف جسٹس صاحبان کو مرسڈیزبینزجیسی گاڑیوں کی ضرورت نہیں ہوتی، یہ عوام کےپیسےہیں ہمیں بھی دیکھناچاہیےعوام کے پیسے کیسے بچا سکتے ہیں،مرسڈیز بینز واپس کی ،لاہوروالی لینڈکروزربھی واپس بھیج دی،میں نےدونوں گاڑیاں حکومت کو واپس کردیں ،گاڑیوں کے پیسے عوام پرلگنے چاہئیں ،جب چیف جسٹس بنا تو چیف جسٹس پاکستان کی رہائش گاہ پر چار پانچ مور پنجروں میں رکھے گئے تھے ۔ انہیں رہا کروایا ،ری ہیبلیٹیشن کے بعد کلر کہار بھجوا دیا،
مجھے ہنسی آتی ہیں ،پرانے صحافی کہتے ہیں چیف جسٹس نےمقدمہ نہیں لگایا،چیف جسٹس
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مزید کہا کہ مجھے ہنسی آتی ہیں ،پرانے صحافی کہتے ہیں چیف جسٹس نےمقدمہ نہیں لگایا۔ آُپ تبصرے کریں پر حقیقت کی بنیاد پر مفروضوں کی بنیاد پر نہیں ، آپکی بھی کچھ ذمہ داری ہے،مقدمے چیف جسٹس نہیں لگایا بلکہ کمیٹی لگاتی ہے،چیف جسٹس مقدمہ نہیں لگا سکتا، شفافیت کے لئے سپریم کورٹ کے فیصلوں کو ویب سائٹ پر دینا شروع کر دیا ہے، کمیٹی کی میٹنگ کے منٹس موجود ہیں، تبصرے حقیقت کی بنیاد پر کریں مفروضوں پر نہیں، آپکی ذمہ داری ہے سچ بولئے، بحیثیت جج نہیں کہہ رہا کہ سوچیں کیا آپ کی والدہ اور والد اس کے برعکس کچھ کہیں تو کر دیئے،
اٹارنی جنرل منصور عثمان نے فل کورٹ ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ نئے عدالتی سال کی تقریب ماضی سے سبق سیکھنے کا بھی ایک موقع ہوتا ہے، گزشتہ سال بھی کہا تھا جوڈیشل سسٹم میں اہم ترین وہ عام سائلین ہیں جو انصاف کے لیے رجوع کرتے ہیں، سائلین کی امیدیں ٹوٹنے کی ذمے داری نظام انصاف سے منسلک ہم تمام لوگوں پر عائد ہوتی ہے،مقدمات کے فیصلوں میں تاخیر سے زیادہ سائلین کو کوئی اور چیز ناامید نہیں کرتی، فوجداری مقدمات میں لوگوں کی آزادی اور زندگیاں داؤ پر لگی ہوتی ہیں،کئی مرتبہ ملزمان اور مجرمان کے مقدمات کی باری آنے میں دہائیاں لگ جاتی ہیں، بے گناہ کا دہائیوں تک جیل میں رہ کر رہا ہونا کسی سانحے سے کم نہیں ہوتا۔
وائس چیئرمین پاکستان بار کونسل فاروق ایچ نائیک نے فل کورٹ ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آرٹیکل 184/3 کے اسکوپ اور استعمال کے اثرات پر کافی سوالات اٹھے، سیاسی مقدمات میں توہین عدالت کا اختیار استعمال ہونے پر بحث نے طول پکڑا،بحث شروع ہوئی کہ جوڈیشل اتھارٹی اور اظہار رائے کی آزادی کے درمیان توازن قائم ہونا چاہیے، نئے عدالتی سال پر عدلیہ کے اندرونی چیلنجز کو بھی دیکھنا ہو گا، نظام انصاف کی طاقت کا انحصار ججوں کے معیار پر ہے، قابل ترین ججز کو عدلیہ میں لانے کا پراسیس اپنانا ہو گا، میرٹ کی بنیاد پر ججوں کی بھرتی کیلئے سخت طریقہ کار اپنانا ہو گا، جوڈیشل کمیشن آف پاکستان عدالتی اختیار نہیں رکھتا، پارلیمانی کمیٹی کا جوڈیشل کمیشن کے فیصلوں کے برعکس کوئی فیصلہ عدلیہ میں مداخلت نہیں سمجھا جانا چاہیے۔
اسرائیل نیازی گٹھ جوڑ بے نقاب،صیہونی لابی عمران کو بچانے کیلئے متحرک
عمران خان بطور وزیراعظم اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے کیلئے تیار تھے،دعویٰ آ گیا
یو اے ای اسرائیل معاہدہ،ترکی کے بعد پاکستان کا رد عمل بھی آ گیا
فیصلہ ہو چکا،جنرل باجوہ محمد بن سلمان سے کیا بات کریں گے؟ جنرل (ر) غلام مصطفیٰ کے اہم انکشافات
پاکستان اسرائیل کو اگر تسلیم کر بھی لے تو….جنرل (ر) غلام مصطفیٰ نے بڑا دعویٰ کر دیا
اسرائیل، عرب امارات ڈیل ،غلط کیا ہوا، مبشر لقمان نے حقائق سے پردہ اٹھا دیا
خطے میں قیام امن کیلئے اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے مابین ڈیل ہو گئی
متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے مابین معاہدے پر ترکی بھی میدان میں آ گیا
اسرائیل کوتسلیم کرنےکی مہم میں عمران خان ٹرمپ کےساتھ تھا:فضل الرحمان