حکومت ہر محاذ پر ناکام ، تحریر:نوید شیخ

0
36

اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان کی حکومت کا کلہ مضبوط ہے ۔ جلسے جلوسوں، احتجاجوں اور مظاہروں سے نہ تو اسے کوئی فرق پڑتا ہے نہ حکومت ان کو اتنی اہمیت دیتی ہے ۔ کیونکہ حکومت کا کلہ مضبوط ہے ۔۔ اب اس صورتحال میں پی ڈی ایم دوبارہ سے احتجاجی تحریک شروع کرنے جارہی ہے ۔ یہ تھوڑا سمجھ سے باہر ہے ۔

۔ کیونکہ آپ دیکھیں ایک جانب وکلاء احتجاجی تحریک کا آغاز کر چکے ہیں۔ ڈاکٹروں کی پولیس سے مڈبھیڑ شروع ہو چکی ہے۔ مہنگائی اور گورننس کی تو کیا بات کرنی ۔ اس کو چھوڑ ہی دیں ۔ یہ ہماری سیاسی اشرافیہ کامسئلہ ہی نہیں ہے ۔ پر اس سب کے باوجود حکومت کو کوئی فرق پڑتا نہیں دیکھائی دے رہا ہے ۔ کسی سے بھی پوچھ لیں حکومت اپنے پیروں پر مضبوط کھڑی دیکھائی دیتی ہے ۔ پر اپوزیشن جماعتوں کے جانب سے کہا جا رہا ہے کہ پی ڈی ایم اپنی تحریک کے نئے مرحلے میں داخل ہو چکی ہے۔ مگر دیکھنے والی بات یہ ہے کہ پی ٹی ایم میں دراڑ تو کافی عرصے پہلے کی پڑی ہوئی ہے ۔ س حوالے سے حکومت کو مریم نواز اور نواز شریف کا شکر گزار ہونا چاہیے ۔ کہ انھوں نے ناممکن کو ممکن کر دیکھایا ۔ پیپلزپارٹی اور اے این پی کے بغیر پی ڈی ایم ایسی ہی ہے جیسے کھیر میٹھاس کے بغیر ہو۔ اب آپ دیکھیں جہاں حکومت پی ڈی ایم کو آڑے ہاتھوں لیتی ہے تو پیپلزپارٹی والے تو ان کی بینڈ بجاتے دیکھائی دیتے ہیں ۔

۔ اب پی ڈی ایم کا حالیہ کراچی جلسہ تو کافی بڑا تھا ۔ اسلام آباد مارچ کا بھی اعلان ہوچکا ہے ۔ شہباز شریف ، مولانا فضل الرحمان ، نواز شریف اور دیگر نے بلند و بانگ دعوے بھی خوب کیے ہیں ۔ مگر قوم دوبار پہلے بھی ان کی احتجاجی تحریکوں اور اسلام آباد پر چڑھائی کو دیکھ چکی ہے ۔ اس لیے حکومت سے شکایتیں اپنی جگہ پر اپوزیشن کی کارکردگی بھی کوئی خاص خاطر خواہ نہیں رہی ۔ یوں پی ڈی ایم بارے یہ کہنا کہ آج بھی یہ ایک مقبول سیاسی اتحاد ہے تو مجھے اس پر کچھ خاص بھروسہ نہیں رہا ۔ ایک سیاسی تحریک کے لئے جو ایندھن چاہیے ہوتا ہے ۔ وہ اس وقت موجود ہے اور یہ خود حکمرانوں نے فراہم کیا ہے۔ پر اہم اور بنیادی سوال یہ ہے کہ سیاست دانوں کے پاس ایک لگثرری ہوتی ہے کہ یہ جب چاہیئں یہ کہہ کر موقف بدل لیتے ہیں کہ سیاست میں کچھ بھی حرف آخر نہیں ہوتا ۔ تو اس بار بھی ممکن ہے کہ یہ پی ڈی ایم والے سجی دیکھا کر کھبی مار جائیں اور عوام یوں ہی منہ تکتے رہ جائیں ۔ تو مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان کے ورکرز وغیرہ تو نکلیں گے ۔ خوب ہلہ گلہ بھی ہوگا ، تقریریں بھی ہوں گی ۔ میڈیا پر برینگنگ نیوز کے پھٹے بھی چلیں گے ، تجزیے بھی ہوں گے ۔ مگر حکومت کو کوئی فرق نہیں پڑے گا ۔ حکومت جہاں کھڑی تھی وہاں ہی کھڑی رہے گی اور پانچ سال عزت کے ساتھ پورے کر گی ۔ بلکہ مجھے تو یہ لگتا ہے کہ عمران خان کے پاس نادر موقع ہے کہ وہ پاکستان کے پہلے وزیر اعظم بن جائیں جو اپنے پانچ سال پورے کرے ۔ اس طرح کرکٹ کے ساتھ ساتھ وہ سیاست میں بھی ایک نیا ریکارڈ بناتے ہوئے دیکھائی دیتے ہیں ۔

۔ کیونکہ آپ پراپیگنڈہ کہہ لیں ۔ میڈیا ہینڈلنگ کہہ لیں ۔ عمران خان کی حکومت اس معاملے میں کامیاب ضرور دیکھائی دیتی ہے کہ لوگوں کو اب بھی اس سے امیدیں وابستہ ہیں ۔ چاہے مہنگائی ریکارڈ توڑ رہی ہے ۔ بے روزگاری بڑھ رہی ہے ۔ گورننس کی صورتحال خراب ہے ۔ پر اس سب کے باوجود ابھی تک عوام اپوزیشن کے بیانیے کو own کرتے دیکھائی نہیں دیتی ۔ الٹا سوشل میڈیا پر تو اکثر خوب تنقید کرتے دیکھائی دیتے ہیں ۔ یوں لوگ ابھی بھی ملک لوٹنے والوں اور احتساب کے قصے پھنسے دیکھائی دیتے ہیں ۔ حالانکہ احتساب ہوتا کہیں دیکھائی نہیں دیتا ۔ اور شاید لوگوں نے یہ بھی کڑوی گولی سمجھ کر نگل لی ہے کہ جہاں تین سال عثمان بزدار اور محمود خان کے ساتھ گزارا کر لیا ہے اگلے دو سال بھی کر لیں گے ۔ کہ ایک بار اس حکومت کو پانچ سال پورے کر ہی لینے دیں ۔ پھر ان سے کارکردگی کا حساب مانگیں گے ۔ پھر ایک اہم چیز یہ بھی ہے کہ پی ڈی ایم اپنا تمام اخلاقی جواز تب کھو بیٹھتی ہے جب نواز شریف تقریر کرنے آتے ہیں ۔ ان کی توپوں کو جو رُخ اسٹبلشمنٹ کی جانب ہوتا ہے ۔ اس سے ہر بار شہباز شریف کی جانب سے کی ہوئی محنت پر پانی تو پھر ہی جاتا ہے ۔

دوسرا آپ لاکھ توجیہات دے دیں لوگ یہ ماننے کو تیار نہیں کہ نوازشریف بیماری کا بہانہ کرکے باہر بیٹھے رہیں اور خواہش ان کی ہو کہ وہ دوبارہ وزیر اعظم بن جائیں یا ان کی پارٹی کو حکومت مل جائے ۔ اس سوشل میڈیا کے دور میں لوگوں کو یوں بے وقوف بنانا ممکن نہیں ۔ میرے خیال میں اگر نواز شریف یوں دن دیہاڑے بیماری کا بہانہ کرکے نہ بھاگتے اور پاکستان میں ہی رہتے تو ن لیگ کی سیاست کو زیادہ فائدہ پہنچتا ۔ باہر جا کر انھوں نے ایک تو حکومت کو موقع فراہم کر دیا ہے کہ وہ سیاسی پوائنٹ سکورننگ کریں ۔ پھر جو وہ کبھی کافی پیتے ، چل قدمی کرتے ، پیزے کھاتے ، پولو میچ دیکھتے اور کبھی نواسے کی شادی پر ہٹے کٹے دیکھائی دیتے ہیں تو پھر لوگوں نے تو سوال کرنے ہی ہیں ۔ یعنی اب نوازشریف کے پاس چاہے کہنے کو بہت کچھ ہو۔ پر لندن میں بیٹھ کر کچھ بھی کہنے کا ہر اخلاقی جواز وہ کھو چکے ہیں۔

ایک حوالہ مریم نواز کا بھی ہے ۔ آپ دیکھیں جہاں جہاں مریم گئیں ۔ اس چیز کا بیٹرو غرق ہی ہوا ۔ چاہے ن لیگ کی اپنی حکومت ہو ۔ گلگت بلتسان ، کشمیر اور ضمنی الیکشن ہوں ۔ غرض جس جس معاملے میں مریم نواز آگے ہوئیں وہاں وہاں ن لیگ کو سبکی ہوئی ۔ دیکھا جائے تو پی ڈی ایم کا زوال بھی لاہور جلسے سے ہوا ۔ کیونکہ یہ کافی مایوس کن کارکردگی تھی ۔ لوگ بہت کم تعداد میں آئے ۔ جس کا نقصان پی ڈی ایم کی تحریک کو ہوا ۔ لوگوں نے اس وقت ہی کہنا شروع کر دیا تھا کہ مریم نے پی ڈی ایم کے غبارے سے ہوا نکال دی ہے ۔ اب کی بار یہ مریم کو ہٹا کر شہباز شریف کو آگے تو لےآئیں ہیں ۔ پر لگتا نہیں ہے کہ اکیلے شہباز شریف خود کچھ کر پائیں گے ۔ کیونکہ مریم اور نواز شریف نے اپنی spoilerکا کردار ادا کرنے والی جبلت سے رکنا نہیں ۔ پر اس سب میں مولانا فضل الرحمان کی پوزیشن دیکھنے کی ضرورت ہے ۔ اس حوالے سے تو سب سے اہم بیان اور حوالہ شیخ رشید کا ہی دیا جاسکتا ہے ۔ جس میں وہ کہتے ہیں کہ افغانستان میں studentsکی آمد سے کسی کا کچھ بنے یا نہ بنے ۔ مولانا فضل الرحمان کو البتہ ریلیف ملتا دیکھائی دیتا ہے ۔ یقیناً ان کے قد کاٹھ میں بھی مزید اضافہ ہوا ہے ۔ جس کا فائدہ ان کو آنے والے الیکشن میں ہوتا دیکھائی دے رہا ہے ۔ کچھ تو یہ کہہ بھی رہے ہیں کہ شاید 2023کے بعد کے پی کے یا بلوچستان میں سے کسی ایک صوبے میں مولانا حکومت بھی بنا لیں ۔ مگر یہ چیز ابھی قبل ازوقت ہیں ۔ پر ایک چیز طے ہے کہ پی ڈی ایم کا اس وقت کوئی چانس نہیں ہے کہ وہ حکومت کوکوئی ڈینٹ ڈال سکے ۔ ہاں البتہ جنرل الیکشن میں شاید یہ کوئی نقب لگانے میں کامیاب ہوجائیں تو علیحدہ بات ہے ۔ اس لیے مجھے پی ڈی ایم کا یہ نیا ریلا حکومت گرانے سے زیادہ الیکشن تیاری لگتا ہے ۔ حکومتی محاذ پر دیکھا جائے تو وزیرِ اعظم عمران خان ،حکومتی وزیر و مشیر اورپی ٹی آئی کے حامی ،سب کے نزدیک ملک ترقی کررہا ہے اور پی ٹی آئی حکومت گذشتہ ادوار میں قائم ہونے والی حکومتوں سے کہیں زیادہ بہتر طریقے سے ملک چلا رہی ہے۔یہ بہت حیران کن بھی ہے اور مایوس کن بھی ہے کیونکہ جب آپ کو ہر چیز ہی ٹھیک دیکھائی دے گی تو آپ بہتری کیا لائیں گے۔ حالانکہ کوئی عوام سے ان کے دل کا حال پوچھے تو وہ بتائیں کہ ان پر کیا گزر رہی ہے ۔

۔ یوں اگر موجودہ حکومت کے اِن تین برس کا غیر جانبدارانہ تجزیہ کیا جائے تو حکومت ہر محاذ پر ناکام رہی ہے۔ ایک جو سب سے بڑا مسئلہ اس حکومت کا رہا ہے کہ وہ یہ ہے کہ عمران خان ہر مسئلہ پر تجزیہ تو پیش کرتے رہے مگرمسئلہ کے حل کی جانب بڑھتے دکھائی نہیں دیے۔ پھر جن مسائل کی کی طرف بڑھنے کی کوشش بھی کی تو وہ مسئلہ مزید پیچیدہ ہو کر رہ گیا۔ بعض سماجی سطح پر جنم لینے والے اَلمیوں پر ایسے سخت بیانات اور ایسا ردِعمل دیا کہ خود کو فریق بنابیٹھے۔ اس کی مثال ہزارہ برادری پر ٹوٹنے والی قیامت کی دی جاسکتی ہے۔ وزیرِ اعظم نے اِن تین سالوں میں منصوبے ضرور بنائے ہیں۔ پر ان پر عمل نہیں کرسکے۔ جیسے وزیر اعظم نے ہسپتال تعمیر کیے،سڑکیں بنائیں،پُل بنائے ،ٹرانسپورٹ کا نظام درست کیا، تعلیمی ادارے قائم کیے ،فیکٹریاں کھڑی کیں،زراعت کے شعبے کو ترقی دی ،نوجوانوں کو نوکریاں دیں،بے روزگاری کا خاتمہ کیا،غربت کو جڑ سے اُکھاڑ پھینکا وغیرہ وغیرہ۔ یہ سب بیانات کی حد تک تو ہوا ہے ۔ گراونڈ پر کچھ دیکھائی نہیں دیتا ۔ دیکھا جائے تو حکومت ہو یا اپوزیشن دونوں ہی اپنی گیم کرتے دیکھائی دیتے ہیں ۔ جبکہ عوام سیاست سے بیزار ہوچکے ہیں۔ یوں حکومت تین سال کاجشن منا چکی ہے اب اگلے دوسال مکمل کرنے پر ’’عظیم کامیابی‘‘کا جشن منایا جائے گا اور اپوزیشن اپنے رٹے جملوں کو دُہرائے گی اور سمجھے گی کہ عوام کی ترجمانی کا خوب حق ادا کیا۔

Leave a reply