ہم جس کے حقدار ہمیں وہی مقام نہیں ملا . تحریر : آصف شاہ خان

0
43

مختلف اقوام کے لوگ اسلام کی چھتری کے نیچے جمع ہوے اور اپنے لیے ایک الگ شناخت اپنایا. ان لوگوں نے اپنے قائد ، قائداعظم محمد علی جناح کی قیادت میں کھٹن محنت کرکے کرکے اور اخرکار ۱۹۴۷ء میں یہ لوگ اپنی الگ شناخت کے ساتھ ایک ریاست کے مالک بنے. لیکن ان لوگوں کی بدقسمتی یہ تھی کہ ریاست آزاد کرانے کہ بعد ابھی اس نظام کو لاگو نہیں کیا تھا جس کا ان لوگو ں نے اللہ وعدہ کیا تھا کہ ان کے اس معجزاتی تحریک کے اکثر قیادت وفات پاگئے. اب قیادت کےلیے اس نئ شناخت والی قوم کے ساتھ کوئی حل نہیں تھا سوا اس کے کہ قیادت کو ان لوگوں کے ہاتھ دیا جائے جن نے انگریزوں کے یہاں پر حکمرانی کے وقت ان کے ساتھ مختلف عہدوں پر نوکری کر چکے تھے. لوگوں کا خیال تھا کہ یہ چونکہ مختلف نوکریاں انجام دے چکے ہیں تو ملک چلانا اسان ہوگا یہ سوچ تو چلانے کے حد تک ٹھیک تھی لیکن مسلہ ایک اور جگہ پر تھا اور وہ یہ کہ ین نئی قیادت کے پاس اس نظام کو لاگو کرنے کے بارے کوئی علم نہیں تھا جس کے خاطر ملک کو حاصل کیا گیا تھا.

اس نظام کے بارے میں علم نہ ہونے، انگریزوں کے ظاہری عیاشیاں قریب سے دیکھنے اور انگریزوں کی دنیا پر حکمرانی کو مد نظر رکھتے ہوئے اس نئی قیادت نے بجائے اس کے کہ اپنے نظام کو لاگو کرتے ان لوگو نے انگریزوں کے غلاموں کے لیے بنائے ہوئے نظام کو ترجیح دی. اس نئی قیادت کی نظر میں تھا کہ انگریزوں کے ظاہری عادات و اطوار کو اپنا کر، غلامی کے نظام کو لے کر اسلامی نظام کے بغیر ترقی حاصل کرینگے. اس قیادت کا خیال تھا کی انگریزوں کی ترقی ان کے ظاہری عادات و اطوار اور اس نظام کی وجہ سے ہے. لیکن یہ ان کی غلط فہمی تھی. انگریزوں کے عادات و اطوار توغلاموں پر حکمرانی کا نشہ اور ان کا یہاں بنایا ہوا نظام الگ غلاموں کیلئےتھا تاکہ غلام غلام رہے اور حکمرانی طویل عرصے کیلئے ریے. جن لوگوں کو حکمرانی ملی وہ تو تحریک پاکستان کا حصہ نہ تھے ہاں لیکن یہ ضرور تھا کہ وہ انگریزوں کے غلامی کے نظام کا حصہ تھے. اس لیے ان کے پاس اپنے نظام کا علم نہیں تھا لیکن انگریزوں کے غلامی والے نظام کے بارے جانتے تھے. اس لیے قیادت ملنے کے بعد رفتہ رفتہ اس نئی قیادت نے وہی غلامی کا نظام رائج کرنے کیلئے اقدامات شروع کیے اورانگریزوں کے ظاہری عادات و اطوار کو اپنا کر اپنے لیے باعث فخر سمجھ کر اس کو ترقی کا معیار مقر ر کیا. نتیجہ یہ نکلا کہ حکمرانوں میں اور عوام میں انگریرزوں کے دور کے طرح فاصلے بڑھ گئے .

اپنے ظاہر کو انگریزوں کے طرح کرنے کیلئے عیاشیوں کے پیچھی پڑھ گئےاور پھر کیسی نے عوام کے مسائل اور ترقی کا نہیں سوچا کیونکہ وہ نظام اور حکمرانی کا نشہ ایسا تھا کہ جو غلاموں کو غلامی میں رکھنے کیلئے تھا. اور اس طرح عوام غلامی کے دور سے نجات نہیں پائے بس مالک بدلے. جو آج تک عوام بگھت رہے ہیں عمران خان سے پہلے ہم تاریخ دیکھ لے تو نظر آتا ہے کہ ہمارے حکمران انگریزوں سے اتنے متاثر ہیں کہ اپنے قومی لباس تک پر شرماتے ہیں . جس قوم کے حکمرانوں کا یہ معیار ہو وہ کیسے ترقی کرسکتی ہے؟ ہمارے نجات اور ترقی کا واحد زریعہ نظام کو تبدیل کرنا ہے ہمیں غلامی کے نظام کے بجائے اسلامی نظام جس کا ہم نے وعدہ کیا تھا لانا ہوگا. نظام کو تبدیل کرکے ہم ترقی حاصل کرسکتے ہیں.

@IbnePakistan1

Leave a reply