حسد اور غرور کیا ہے؟ از قلم مشی حیات

0
65

حسد اور غرور کیا ہے_؟

از قلم__مشی حیات

ہمارے معاشرے کے تقریبا ہر فرد میں یہ دونوں برائیاں انتہائی حد تک موجود ہیں۔۔۔۔
لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ کوئی بھی خود کا محاسبہ نہیں کرتا۔۔۔۔
قارئین۔۔۔۔۔!!
ہم دیکھتے ہیں کہ حسد کیا ہے اور کیا ہم حاسد تو نہیں۔۔؟
امام راغب اصفہانی حسد کی تعریف بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں، "جس شخص کے پاس نعمت ہو اس سے نعمت کے زوال کی تمنا کو حسد کہتے ہیں”

یعنی کہ کسی دوسرے کی خوشحالی پر جلنا اور تمنا کرنا کہ اس کی نعمت اور خوشحالی دور ہو کر اسے مل جائے۔۔۔۔!!
اب سوچیں۔۔۔!!
کیا یہ برائی آپ کے اندر ہے۔۔۔؟
کیا آپ بھی ایسا سوچتے ہیں کہ کسی کی نعمت اس کی بجائے آپ کے پاس ہو یا اس کی خوشحالی پر خوش ہوتے ہیں۔۔۔۔!!
حسد کے بارے میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) نے کیا فرمایا۔۔۔۔۔!!

حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، قَالَ : حَدَّثَنِي أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : لَا تَبَاغَضُوا وَلَا تَحَاسَدُوا وَلَا تَدَابَرُوا وَكُونُوا عِبَادَ اللَّهِ إِخْوَانًا ، وَلَا يَحِلُّ لِمُسْلِمٍ أَنْ يَهْجُرَ أَخَاهُ فَوْقَ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ .

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”آپس میں بغض نہ رکھو، حسد نہ کرو، پیٹھ پیچھے کسی کی برائی نہ کرو، بلکہ اللہ کے بندے آپس میں بھائی بھائی بن کر رہو اور کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ ایک بھائی کسی بھائی سے تین دن سے زیادہ سلام کلام چھوڑ کر رہے۔“۔۔۔۔۔!!

دوسرے موقع پر آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا۔۔۔۔!!

حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ ، قَالَ : حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، قَالَ : حَدَّثَنِي إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبِي خَالِدٍ عَلَى غَيْرِ مَا حَدَّثَنَاهُ الزُّهْرِيُّ ، قَالَ : سَمِعْتُ قَيْسَ بْنَ أَبِي حَازِمٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مَسْعُودٍ ، قَالَ : قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : لَا حَسَدَ إِلَّا فِي اثْنَتَيْنِ ، رَجُلٌ آتَاهُ اللَّهُ مَالًا فَسُلِّطَ عَلَى هَلَكَتِهِ فِي الْحَقِّ ، وَرَجُلٌ آتَاهُ اللَّهُ الْحِكْمَةَ فَهُوَ يَقْضِي بِهَا وَيُعَلِّمُهَا .

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ حسد صرف دو باتوں میں جائز ہے۔ ایک تو اس شخص کے بارے میں جسے اللہ نے دولت دی ہو اور وہ اس دولت کو راہ حق میں خرچ کرنے پر بھی قدرت رکھتا ہو اور ایک اس شخص کے بارے میں جسے اللہ نے حکمت ( کی دولت ) سے نوازا ہو اور وہ اس کے ذریعہ سے فیصلہ کرتا ہو اور ( لوگوں کو ) اس حکمت کی تعلیم دیتا ہو۔
البخاری__حدیث نمبر 73

یعنی کہ حسد صرف دو باتوں میں جائز ہے۔۔۔۔
ایک یہ کہ اللہ نے اپنے بندے کو دولت دی تاکہ وہ اسے استعمال میں لائے مگر اس نے اس دولت کو اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی بجائے اپنی قدرت رکھ لینا کہ یہ مال میرا ہے جب میرا جی چاہے میں استعمال میں لاوں ورنہ نہیں۔۔۔۔
اب سوچیں۔۔۔۔!!
کیا یہ دونوں باتیں آپ کے اندر موجود ہیں۔۔۔۔؟
اللہ نے آپ کو مال دیا اور آپ نے اس میں کہیں حسد کو تو شمار نہیں کیا کہ وہ مال صرف آپ کے پاس رہے کسی اور پاس نہ جائے۔۔۔۔۔؟

تیسری جگہ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کا فرمان ہے کہ۔۔۔۔۔!!

حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ ، عَنْ هَمَّامِ بْنِ مُنَبِّهٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : إِيَّاكُمْ وَالظَّنَّ فَإِنَّ الظَّنَّ أَكْذَبُ الْحَدِيثِ ، وَلَا تَحَسَّسُوا وَلَا تَجَسَّسُوا وَلَا تَحَاسَدُوا وَلَا تَدَابَرُوا وَلَا تَبَاغَضُوا وَكُونُوا عِبَادَ اللَّهِ إِخْوَانًا .

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”بدگمانی سے بچتے رہو کیونکہ بدگمانی کی باتیں اکثر جھوٹی ہوتی ہیں، لوگوں کے عیوب تلاش کرنے کے پیچھے نہ پڑو، آپس میں حسد نہ کرو، کسی کی پیٹھ پیچھے برائی نہ کرو، بغض نہ رکھو، بلکہ سب اللہ کے بندے آپس میں بھائی بھائی بن کر رہو۔“
البخاری حدیث نمبر 6064

قارئین۔۔۔۔!!
بار بار تلقین کی گئی ہے کہ اپنے مسلمان بھائی کے ساتھ حسد نہ کرو۔۔۔کسی مسلمان کلمہ پڑھنے والے کو زیب نہیں دیتا کہ وہ اپنے بھائی کے پاس موجود نعمت پر شکر اور خوش ہونے کی بجائے حسد کا شکار ہو۔۔۔۔۔!!
حسد زندگی تباہ کر دیتا ہے۔۔۔۔!!
*نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم)نے فرمایا۔۔۔!!
قیامت کے نزدیک ایک ایسی قوم ہو گی جس میں حسد بہت پایا جائے گا۔۔۔۔۔!!

قارئین۔۔۔۔!!
اب ہمیں خود سے محاسبہ کرنا ہے کہ کیا ہم حاسد ہیں۔۔۔؟
ہمارے اندر حاسد کی علامات ہیں۔۔۔؟
اگر موجود ہیں تو ان کا محاسبہ کریں۔۔۔۔!!
اس پہلے کہ اجل کا فرشتہ آئے اور ہمیں ان برائیوں کے ساتھ اچک لے۔۔۔۔!!

حسد کے ساتھ بہت بڑی دوسری برائی غرور ہے۔۔۔۔۔!!

غرور کیا ہے۔۔۔؟

ایک ایسی انسانی کیفیت اور حالت کہ جس میں انسان اپنے آپ کو دوسرے انسانوں سے زیادہ فضیلت اور فوقیت دیتا ہے ۔۔۔۔۔!!

غرور دکھاوے کو بھی کہتے ہیں۔۔۔۔اور تکبر کے معنی میں بھی آتا ہے۔۔۔!!

غرور کو سمجھنے کے لیے سب سے پہلے حدیث کا مطالعہ کرتے ہیں ۔۔۔۔!!

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص اپنا کپڑا ( پاجامہ یا تہبند وغیرہ ) تکبر اور غرور کی وجہ سے زمین پر گھسیٹتا چلے تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی طرف نظر رحمت سے دیکھے گا بھی نہیں، اس پر ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ میرے کپڑے کا ایک حصہ لٹک جایا کرتا ہے۔ البتہ اگر میں پوری طرح خیال رکھوں تو وہ نہیں لٹک سکے گا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آپ تو ایسا تکبر کے خیال سے نہیں کرتے ( اس لیے آپ اس حکم میں داخل نہیں ہیں ) موسیٰ نے کہا کہ میں نے سالم سے پوچھا، کیا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے اس حدیث میں یہ فرمایا تھا کہ جو اپنی ازار کو گھسیٹتے ہوئے چلے، تو انہوں نے کہا کہ میں نے تو ان سے یہی سنا کہ جو کوئی اپنا کپڑا لٹکائے۔
البخاری حدیث نمبر 3665
اس حدیث سے بات بلکل واضح ہو چکی ہے۔۔۔۔!!
اگر ایک انسان کوئی لباس پہنتا ہے اور اسے لوگوں کے درمیان دکھاوا کرتا ہے۔۔ اکڑ اکڑ کر چلتا ہے۔۔۔تاکہ لوگوں کی نگاہیں اس پر جم جائیں تو اللہ رب العزت اس شخص کی طرف رحمت سے دیکھے گا بھی نہیں۔۔۔۔!!
ہمارے ہاں اکثریت ہوچکی ہے شلوار ٹخنوں کے اوپر رکھنے کا حکم تھا مگر یہاں زمین پر گھسیٹ رہے ہیں۔۔۔!!
کیا ایسی حالت میں اللہ ہماری طرف دیکھے گا جب ہم نے اس کا حکم ہی نہ مانا۔۔۔۔۔!!

مزید اللہ تعالی نے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وسلم ) سے کیا فرمایا۔۔۔۔۔!!

{‏ قل من حرم زينة الله التي أخرج لعباده‏}
وقال النبي صلى الله عليه وسلم ‏””‏ كلوا واشربوا والبسوا وتصدقوا ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ في غير إسراف ولا مخيلة ‏””‏‏.‏ وقال ابن عباس كل ما شئت والبس ما شئت ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ما أخطأتك اثنتان سرف أو مخيلة‏

حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، قَالَ : حَدَّثَنِي مَالِكٌ ، عَنْ نَافِعٍ ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ ، وَزَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ يخبرونه ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : لَا يَنْظُرُ اللَّهُ إِلَى مَنْ جَرَّ ثَوْبَهُ خُيَلَاءَ .

” اے رسول ! کہہ دو کہ کس نے وہ زیب وزینت کی چیزیں حرام کیں ہیں جو اس نے بندوں کے لیے ( زمین سے ) پیدا کی ہیں ( یعنی عمدہ عمدہ لباس ) “
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کھاؤ اور پیو اور پہنو اور خیرات کرو لیکن اسراف نہ کرو اور نہ تکبر کرو اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا جو تیرا جی چاہے ( بشرطیکہ حلال ہو ) کھاؤ اور جو تیرا جی چاہے ( مباح کپڑوں میں سے ) پہن مگر دو باتوں سے ضرور بچو اسراف اور تکبر سے ۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اللہ تعالیٰ اس کی طرف قیامت کے دن نظر رحمت نہیں کرے گا جو اپنا کپڑا تکبر و غرور سے زمین پر گھسیٹ کر چلتا ہے۔“
صحیح بخاری 5783

اللہ تعالی نے بار بار تلقین کی کہ اپنی امت سے کہہ دیجئیے۔۔۔۔۔اا
کھاؤ پیو اور پہنو ساتھ خیرات بھی کرو مگر اسراف اور تکبرنہ کرو۔۔۔۔۔۔!!
جس شخص کے اندر غرور یعنی تکبر کی علامت آ گئی کپڑے پہنیں اور اسے زمین پر گھسیٹ کر چلا اللہ رب العزت ایسے شخص کی طرف رحمت کی نگاہ سے نہیں دیکھے گا۔۔۔۔۔۔!!

قارئین۔۔۔۔۔۔!!
آئیں سوچیں۔۔۔۔!!
کیا ہمارے اندر حسد کے ساتھ ساتھ غرور بھی موجود ہے۔۔۔۔؟؟
کیا ہم بھی دکھاوے کے لیے کپڑے پہنتے ہیں۔۔۔۔؟
جب ہم بازار نکلتے ہیں تو ہمارے زیب تن کیےکپڑے تکبر کی وجہ سے زمین پر تو نہیں لٹک رہے۔۔۔۔۔!!
اگر واقعی ایسا ہے تو خدارا ہمیں خود کو بدلنا ہو گا۔۔۔۔!!
ہم رب کی رحمت کے بنا کچھ بھی نہیں۔۔۔۔!!
اگر ہم پر رب کی رحمت نہ ہوئی تو ہم کیا جہنم برداشت کر سکے گے۔۔۔۔!!؟

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آخر زمانہ میں کچھ ایسے لوگ نکلیں گے جو دین کے ساتھ دنیا کے بھی طلب گار ہوں گے، وہ لوگوں کو اپنی سادگی اور نرمی دکھانے کے لیے بھیڑ کی کھال پہنیں گے، ان کی زبانیں شکر سے بھی زیادہ میٹھی ہوں گی جب کہ ان کے دل بھیڑیوں کے دل کی طرح ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: کیا یہ لوگ مجھ پر غرور کرتے ہیں یا مجھ پر جرات کرتے ہیں میں اپنی ذات کی قسم کھاتا ہوں کہ ضرور میں ان پر ایسا فتنہ نازل کروں گا جس سے ان میں کا عقلمند آدمی بھی حیران رہ جائے گا“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: اس باب میں عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے بھی روایت ہے۔
الترمذی 2404

ہم اپنی ذاتی زندگی کا محاسبہ خود ہی کرسکتے ہیں۔۔۔۔!!
اللہ ہمیں موقع دیتا ہے فتنوں کو دور کرنے مگر ہم صم بکم والے رویے پر عمل پیرا ہوتے ہیں۔۔۔۔۔۔!!
ابھی بھی وقت ہے اگر سانس چل رہی ہے تو خود کو بدلیں اور اپنی آخرت بہتر کریں۔۔۔۔۔!!
اللہ رب العزت ہم سب پر اپنی رحمت کا سایہ تا قیامت رکھے۔۔۔!!
اور ہمیں ہر برائی سے سرخرو کرے۔۔۔۔!!
دعاوں کی طالب ۔۔۔۔۔۔
مشی حیات
وما علینا الا البلاغ المبین

Leave a reply