ہائیڈروجن بم کا کامیاب تجربہ کرلیاگیا،دنیاخاتمے کے بالکل قریب

0
41

واشنگٹن : ویسے تو یہی کہاجاتا ہےکہ تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے لیکن یہ بات تو طئے ہے کہ جس دن ہائیڈروجن بم چل گیا پھر تاریخ کودہرانے والے ہی نہیں‌بچیں گے تو تاریخ اپنے آپ کو کیسے دہرائے گی ،تفصیلات کے مطابق آج کے دن یکم نومبر 1952 امریکا نے دنیا کے پہلے ہائیڈروجن بم کا تجربہ کیا

عامرلیاقت میں جو خوبیاں ہیں وہ کسی دوسرے انسان میں نہیں ، سوچ سمجھ کر انتخاب کیا

ہائیڈروجن بم لمحوں میں شہر کے شہر لمحوں میں صفحہ ہستی سے مٹانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ہائیڈروجن بم جسے تھرمو نیوکلیئر بم، فیوژن بم یا ’ایچ بم‘ بھی کہا جاتا ہے، ہائیڈروجن بم کے پہلے مرحلے میں اس کے اندر موجود ایٹم بم چلایا جاتا ہے۔ جس سے بہت زیادہ گرمی اور دباؤ پیدا ہوتا ہے۔

لیبارٹری ٹیسٹ بند، آپریشن تھیٹرویران،لواحقین کے برے حال ،مریض پریشان

ہائیڈروجن بم میں فیوژن کی مدد سے دھماکہ کیا جاتا ہے جو کہ روایتی ایٹم بم کے مقابلے میں کہیں زیادہ طاقتور ہوتا ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ ہائیڈروجن بم ایسے مہلک اور خوفناک ہتھیار ہیں، جو لمحوں میں شہروں کے شہر صفحہ ہستی سے مٹا سکتے ہیں، تابکار ذرات دس سے بیس ہزار مربع میل کے علاقے کی فضا کو زہریلا کر دیتے ہیں، جس سے کروڑوں افراد متاثر ہوسکتے ہیں۔

"تلاش”جسے15 نومبر کے بعد ہرکوئی تلاش کرے گا، سندھی رومانوی فلم کے چرچے

ہائیڈروجن بم کا سب سے پہلا تجربہ امریکا نے یکم نومبر 1952 کو کیا تھا جب کہ روس، برطانیہ، فرانس اور چین کے پاس بھی ہائیڈروجن بم موجود ہیں۔جوہری سائنسدانوں کے مطابق ایک ہائیڈروجن بم جاپان پر پھینکے گئے ایٹم بموں سے ایک ہزار گنا زیادہ قوت کا حامل ہوتا ہے۔ اِسی وجہ سے اِس بےپناہ قوت والے بم کو ’سپر بم‘ کی کیٹگری میں رکھا گیا ہے۔

دنیا کا پہلا ہائیڈروجن بم سن 1952 میں امریکی سائنسدانوں نے تیار کیا تھا۔ اِس بم کے لیے امریکی حکومت نے خفیہ کوڈ ’آئیوی پِنک‘ رکھا ہوا تھا۔ اِس بم کے تجربے میں پیدا ہونے والی توانائی کا اندازہ ہیروشیما اور ناگاساکی پر پھینکے گئے ایٹم بموں سے ایک ہزار گنا سے زائد لگایا گیا تھا۔ اِس بم کا تجربہ بحر الکاہل میں واقع ایک جزیرے اینے ویٹاک پر پہلی نومبر سن 1952 کو کیا گیا تھا۔

6 سالہ بچی کی نوازشریف کوملنےکی خواہش،نوازشریف نےانکارکیوں کیا؟

تھرمو نیوکلیئر توانائی پیدا کرنے والے بم سے مراد عموماً ہائیڈروجن بم لیا جاتا ہے اور اِس میں جوہری ذرات انتہائی زیادہ حرارت خارج کرتے ہوئے پگھل کر یک جان ہوتے ہیں۔ جوہری ذرات کے ملنے یا ادغامی عمل کو فزکس میں ’فیوژن‘ کا نام دیا جاتا ہے۔ عام ایٹم بم میں انتہائی زیادہ حرارت یا حدت پر جوہری ذرات ملتے نہیں بلکہ مرکزے کا پھٹ کر چھوٹے چھوٹے ذرات میں تقسیم ہو کر بےپناہ قوت والی توانائی کا اخراج ہوتا ہے۔ یہ عمل انشقاق یا فِشن کہلاتا ہے۔

ہائیڈروجن بم کا ابتدائی نظریہ سن 1951 میں ہنگری نژاد امریکی سائنسدانوں ایڈورڈ ٹیلر اور اسٹینسلا اُلم نے امریکی حکومت کے مین ہٹن پراجیکٹ میں پیش کیا تھا۔ اِنہی دونوں سائنسدانوں نے بعد میں ہائیڈروجن بم کی تیاری کا کام مکمل کیا تھا۔

امریکا کی جانب سے ہائیڈروجن بم تیار کرنے کے بعد سابقہ سوویت یونین کی کمیونسٹ لیڈرشپ بھی ایسے سپر بم بنانے میں مصروف ہو گئی۔ سوویت یونین نے بھی اپنے ہائیڈروجن بم کا تجربہ کیا۔ اسی بم کی سیریز میں سب سے طاقتور بم کا تجربہ بھی سوویت یونین کی جانب سے سن 1961 میں کیا گیا تھا۔ اِس بم کو ’زار بم‘ کا نام دیا گیا تھا اور اِس کے تجربے میں پچاس میگال ٹن کی قوت پیدا ہوئی تھی۔

ہائیڈروجن بم کے سلسلے میں کمیونسٹ ملک شمالی کوریا نے بھی چھ جنوری سن 2016 کو کامیاب تجربے کا اعلان کیا ہے۔ کئی دوسرے ملکوں کا خیال ہے کہ یہ معمول سے زیادہ طاقت والا ایک ایٹم بم ہو سکتا ہے کیونکہ ان کے خیال میں شمالی کوریائی سائنسدان ہائیڈروجن بم کی تیاری سے بہت دور ہیں۔جبکہ مغرب میں سے چند ممالک کی خفیہ ایجنسیوں کو پاکستان پر بھی شک ہےکہ پاکستان نے ہائیڈروجن بم بھی بنا رکھے ہیں ، اس میں کتنی صداقت ہے یہ تو وقت آنے پرپتہ چلے گا

Leave a reply