اسلام آباد ہائی کورٹ میں عمران خان کی سزا معطلی کی درخواست پر سماعت ہوئی

چیرمین پی ٹی آئی کی سزا معطلی اور ضمانت کے خلاف اپیلوں پر سماعت چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس طارق محمود جہانگیری نےکی،چیرمین پی ٹی آئی کی جانب سے سلمان اکرم راجہ، لطیف کھوسہ، بابر اعوان، بیرسٹر علی ظفر، بیرسٹر گوہر، شعیب شاہین سمیت دو درجن سے زائد وکلا عدالت پیش ہوئے، الیکشن کمیشن کی جانب سے امجد پرویز و دیگر عدالت پیش ہوئے،،دوران سماعت چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ کا آرڈر ہمیں موصول ہوا ہے، سپریم کورٹ نے آج سزا معطلی کی درخواست پر سماعت کا کہا ہے،عمران خان کے وکیل لطیف کھوسہ نے عدالت میں کہا کہ سب سے پہلے عدالت نے دائرہ اختیار کو طے کرنا ہے، اس کیس میں سیکرٹری الیکشن کمیشن ڈسڑکٹ الیکشن کمشنر کو اتھارٹی دے رہا ہے، سیکرٹری الیکشن کمیشن آگے اختیار نہیں دے سکتا۔

وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ صدر پاکستان نے 14 اگست کو قیدیوں کی 6 ماہ سزا معاف کی،عمران خان کی 6 ماہ کی سزا معاف کی جا چکی،اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں سپریم کورٹ کا حکم مل گیا ہے ہم آج فیصلہ دینے کے پابند ہیں، وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ عمران خان کی سزا معطل کر کے فوری رہا کیا جائے

سردار لطیف کھوسہ نے خواجہ حارث کا بیان حلفی عدالت میں جمع کروا دیا، لطیف کھوسہ نے عدالت میں کہا کہ دائرہ کار کا معاملہ تا حال طے نہیں ہوا۔الیکشن کمیشن شکایت کر سکتی ہے ،یہاں ایک پرائیویٹ سیکریٹری نے شکایت کی ،الیکشن ایکٹ کے مطابق سیکرٹری کمشین کی تعریف پر پورا نہیں اترتا،عمران خان کی سزا معطل کر کے فوری رہا کیا جائے ،اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کھوسہ صاحب ماتحت عدلیہ سے غلطی ہوئی ہے تو اس کو اعتماد دینے کی ضرورت ہے۔لطیف کھوسہ نے کہا کہ مائی لارڈ بس غلطی؟ سیشن کورٹ ڈائرکٹ کمپلینٹ نہیں سن سکتی،الیکشن ایکٹ کے تحت الیکشن کمیشن کو شکایت دائر کرنے کا اختیار دیتا ہے۔چیئرمین الیکشن کمیشن اور چار ممبران کمیشن ہی شکایت دائر کرنے کا مجاز ہے۔میرے موکل کے خلاف شکایت سیکرٹری الیکشن کمیشن نے دائر کی۔سیکرٹری کو یہ اختیار نہیں۔ آپ کی معزز عدالت نے دو بار کیس ٹرائل کورٹ کو واپس بھیجا مگر ٹرائل کورٹ نے آرڈر کو اگنور کر دیا۔

لطیف کھوسہ نے عدالت میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اٹک جیل میں عمران خان کے سیل کے باہر ایک پولیس والا بیٹھا تھا، میں نے پوچھا تو خان صاحب نے کہا میں تو اپنی اہلیہ سے بھی علیحدگی میں بات نہیں کر سکا، یہ سر پر بیٹھا رہا، اسلام آباد ہائیکورٹ نے ٹرائل کورٹ کو آٹھ سوالات پر دوبارہ فیصلہ کرنے کا حکم دیا،ٹرائل کورٹ نے اُن سوالات کا جواب دیے بغیر اپنے پہلے آرڈر کو ہی درست قرار دیا، سپریم کورٹ نے کہا کہ ٹرائل کورٹ نے ہائیکورٹ کے فیصلے کو بھی نہیں مانا،

چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ عامر فاروق نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں پتہ ہے ہم نے کیا کرنا ہے؟ وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ آپ ہمیں سُن تو لیں،چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ عامر فاروق نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ الیکشن کمیشن کا کمپلینٹ دائر کرنے کا اجازت نامہ قانون کے مطابق نہیں؟ وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ جی بالکل، وہ اجازت نامہ درست نہیں ہے، ٹرائل کورٹ کے فیصلے میں بہت غلطیاں ہیں،میں اس حوالے سے اسلام آباد ہائیکورٹ کے آرڈرز کا حوالہ دیتا ہوں، اسلام آباد ہائیکورٹ نے ٹرائل کورٹ کو 8 سوالات پر دوبارہ فیصلہ کرنے کا حکم دیا،ٹرائل کورٹ نے اُن سوالات کا جواب دیئے بغیر اپنے پہلے فیصلے کو ہی درست قرار دیا،اسلام آباد ہائیکورٹ کا چیئرمین پی ٹی آئی کی اپیل منظوری کا فیصلہ 4 اگست کی شام ملا، 5 اگست کو خواجہ حارث کے منشی کو اغواء کیا گیا، خواجہ حارث کا بیانِ حلفی موجود ہے،خواجہ حارث نے وجہ لکھی کہ کیوں وہ ٹرائل کورٹ کے سامنے پیش نہیں ہو سکے،ہم سیشن کورٹ کی جانب سے ٹرائل کو تو چیلنج ہی نہیں کر رہے، ٹرائل سیشن کورٹ ہی کرے گی لیکن براہ راست نہیں کر سکتی، اس کیس کو سیشن کورٹ میں کیوں لیکر جایا گیا ؟ سپریم کورٹ نے واضح کر دیا ہے کہ اس نوعیت کے کیس مجسٹریٹ کے پاس جائیں گے پہلے

لطیف کھوسہ نے کہا کہ آپکو میں بتاتا ہوں کہ کس طرح ہمایوں دلاور کا کیس سننا نہیں بنتا تھا آپ کتاب کھولیں اور سیشن 190(2) اور 193 پڑھیں ، اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ جی ٹھیک، لطیف کھوسہ نے کہا کہ میں آپکو سپریم کورٹ کی ججمنٹ دیتا ہوں ،2022 SCMR 356،

کمرہ عدالت میں رش کے باعث اے سی کام کرنا چھوڑ گئے،گرمی کے باعث لطیف کھوسہ نے معاون وکیل کو قانونی نکات پڑھنے کیلئے بلا لیا،چیف جسٹس عامر فاروق نے اے سی کے وینٹ کے سامنے سے وکلا کو ہٹنے کی ہدایت کی اور کہا کہ اے سی کے وینٹ کے سامنے سے تو جگہ چھوڑ دیں، کچھ تو ہوا آئے گی، لطیف کھوسہ صاحب کو پانی پلائیں، لطیف کھوسہ کی معاون خاتون وکیل نے قانونی نکات پڑھنا شروع کر دیئے

لطیف کھوسہ نے کہا کہ عدالت کے مطابق گواہان کا تعلق انکم ٹیکس معاملات سے ہے، عدالت نے کہا کہ یہ عدالت انکم ٹیکس کا معاملہ نہیں دیکھ رہی، عدالت نے کہا وکیل دفاع گواہان کو کیس سے متعلقہ ثابت کرنے میں ناکام رہے،اس بنیاد پر ٹرائل عدالت نے گواہان کی فہرست کو مسترد کیا، جج صاحب نے کہا گواہان آج عدالت میں بھی موجود نہیں،گواہ اس روز کراچی میں موجود تھے، عدالت نے پوچھا آپ کیوں پیش کرنا چاہتے ہیں گواہان کو؟میرے گواہ ہیں، میں اپنے خرچے پر پیش کر رہا ہوں، آپ کون ہوتے ہیں پوچھنے والے؟

عمران خان کے وکیل لطیف کھوسہ نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق سے شکوہ کرتے ہوئے کہاکہ میں نے پچاس سال میں ایسا کام ہوتے نہیں دیکھا جو ٹرائل جج نے کیا ہے،حق دفاع کی ہماری درخواست آج بھی آپ کے پاس زیر التوا ہے۔ معذرت کے ساتھ آپ نے بھی ٹرائل کورٹ کو حتمی فیصلہ دینے سے نہیں روکا ،چیف صاحب حیران کن بات یہ ہے کہ ہمایوں دلاور نے 30 منٹ میں 30 صفحات کا فیصلہ کیا، 30 منٹ میں 30 صفحات سن کر چیف جسٹس عامر فاروق مسکرا دئیے، وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ جج ہمایوں نے اس وقت شارٹ آرڈر لکھوایا اور 12 بج کر 34 منٹ پر خان کو اٹھا لیا گیا خان نے مجھے کل بتایا کہ انہوں نے کہا میں آرہا ہوں وہ نہا رہے تھے واش روم کا دروازہ توڑا گیا،4 اگست کو آپ کا آرڈر آیا، آپ نے قابل سماعت کا معاملہ ریمانڈ بیک کیا، 5 تاریخ کو میں نے آپ کا آرڈر سپریم کورٹ چیلنج کردیا، خواجہ حارث کے کلرک کو اغوا کرنے کی کوشش کی گئی، خواجہ حارث نے چیف جسٹس سپریم کورٹ کے نام درخواست لکھی اور معاملہ بتایا،خواجہ صاحب 12 بج کر 15 منٹ پر ٹرائل کورٹ پہنچ گئے، جج صاحب نے کہا اب ضرورت نہیں، آپ آرڈر سنیں، 12 بج کر 30 منٹ پر جج صاحب نے شارٹ آرڈر سناتے ہوئے تین سال کی سزا سنا دی،12 بج کر 35 منٹ پر پتہ چلا لاہور پولیس گرفتار کرنے پہنچ گئی،جج ہمایوں دلاور نے اپنا جوڈیشل مائنڈ استعمال ہی نہیں کیا۔

لطیف کھوسہ کے دلائل مکمل ہوئے تو وکیل الیکشن کمیشن امجد پرویز نے کہا کہ لطیف کھوسہ میرے نکاح کے گواہ ہیں ،جس پر اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ یہ تو پھر اہم گواہ بن گئے ہیں اور یہ غیر متعلقہ بھی نہیں،جس پرعدالت میں قہقے گونج اٹھے

الیکشن کمیشن کے وکیل امجد پرویز نے وقفے کے بعد دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ریکارڈ کے مطابق چیئرمین پی ٹی آئی کو 5 اگست کو سزا سنائی گئی،8 اگست کو فیصلہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیلنج کیا گیا،اسلام آباد ہائیکورٹ نے حق دفاع ختم کرنے کیخلاف درخواست پر نوٹس جاری کیے تھے،انہوں نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر رکھا ہے، چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اس کا مطلب ہے اسلام آباد ہائیکورٹ کا یہ ڈویژن بینچ ٹرائل کورٹ اور سپریم کورٹ کے درمیان سینڈوچ بن چکا ہے، وکیل امجد پرویز نے کہا کہ ملزم 342 کے بیان میں کہتا ہے کہ وہ اپنے دفاع میں گواہان پیش کرنا چاہتا ہے، اس کا مطلب ہے کہ ملزم نے مانا کہ پراسیکیوشن نے اپنا کیس ثابت کردیا اب دفاع میں گواہ پیش کرنے چاہیئں، الیکشن کمیشن کے فارم بی پر تحریر کرنے کیلئے معلومات تو ملزم نے خود دینا ہوتی ہیں،اکاؤنٹینٹ، ٹیکس کنسلٹینیٹ نے خود سے تو معلومات پر نہیں کرنا ہوتیں، یہ مس ڈیکلیریشن کا کیس ہے،الیکشن کمیشن کے وکیل امجد پرویز نے خلیفہ راشد دوم حضرت عمر رضی الله عنه کا حوالہ دیا اور کہا کہ حضرت عمر فاروق نے سب پہلے فارم بی کا کنسیپٹ دیا تھا،حضرت عمر نے قرار دیا کہ ارباب اختیار کو اپنے اثاثے ظاہر کرنا لازمی ہیں،اپیل الیکشن ایکٹ کے سیکشن 190 کے تحت دائر کی گئی،یہ سیکشن صرف اپیل کا فورم بیان کر رہا ہے، ااس سیکشن کے تحت حتمی فیصلے کیخلاف ہائیکورٹ میں اپیل دائر کی جائے گی، اپیل کی نوعیت، سماعت کے طریقہ کار سے متعلق الیکشن ایکٹ کے حصہ 7 میں پورا چیپٹر موجود ہے،

وکیل الیکشن کمیشن امجد پرویز نے کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی نے کوئی جیولری یا گاڑی تو ڈیکلیئر نہیں کی،چیئرمین پی ٹی آئی کی ریٹرن میں چار بکریاں مسلسل ظاہر کی جاتی رہی ہیں، اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ یہ عدالت اس وقت سزا معطلی کی درخواست پر سماعت کر رہی ہے، سزا معطلی کی درخواست پر عدالت میرٹس پر گہرائی میں نہیں جائے گی، یہ سوالات تو آئیں گے کہ ملزم کو حقِ دفاع ہی نہیں دیا گیا،وکیل امجد پرویز نے کہا کہ ٹرائل کورٹ نے چیئرمین پی ٹی آئی کے گواہوں کو غیرمتعلقہ قرار دیا،گوشوارے تو اپنے کنسلٹنٹ کی مشاورت سے جمع کرائے جاتے ہیں نا،یہ تو کلائنٹ نے بتانا ہوتا ہے کہ اُس کے اثاثے کیا تھے،چیئرمین پی ٹی آئی کی فیملی کے پاس تین سال تک کوئی جیولری یا موٹرسائیکل تک نہیں تھی،اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ مجھے تو کوئی اپنے ریٹرنز فائل کرنے کا کہے تو میں تو خود نہیں کر سکتا، ان کے تین سوالات ہیں ایک مجسٹریٹ والا ہے ایک دورانیے والا ہے ایک اتھارٹی والا ہے، وکیل امجد پرویز نے کہا کہ ان کا سوال یہ بھی ہے ان کو آخری دن سنا نہیں گیا ان کا حق دفاع بھی ختم ہوا، چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ ان کا یہ کہنا ہے اگرچہ اسٹے نہیں تھا اس کے باوجود نوٹس تو اس عدالت نے کر رکھا تھا، وکیل امجد پرویز نے کہا کہ سپریم کورٹ میں بھی معاملہ زیر التوا تھا سنگل بنچ میں بھی ان کی پٹیشن زیر التوا تھی، اکاؤنٹنٹ اپنی طرف سے تو کچھ نہیں لکھتا کلائنٹ ہی بتاتا ہے، عدالت نے کہاکہ ہم اگرچہ لیگل کمیونٹی سے ہیں لیکن ٹیکس ریٹرن تو نہیں بھر سکتے، وکیل نے کہا کہ انہوں نے گوشواروں میں چار بکریاں ظاہر کیں لیکن باقی متعلقہ چیزیں ظاہر نہیں کیں، اپیل الیکشن ایکٹ کے سیکشن 190 کے تحت دائر کی گئی،یہ سیکشن صرف اپیل کا فورم بیان کر رہا ہےاس سیکشن کے تحت حتمی فیصلے کیخلاف ہائیکورٹ میں اپیل دائر کی جائے گی، اپیل کی نوعیت، سماعت کے طریقہ کار سے متعلق الیکشن ایکٹ کے حصہ 7 میں پورا چیپٹر موجود ہے،

اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے وکیل الیکشن کمیشن سے استفسار کیا کہ آپ کا اصل میں نقطہ کیا ہے؟ وکیل الیکشن کمیشن امجد پرویز نے کہا کہ درخواست گزار ریاست کی قید میں ہے، سزا سنائے جانے کے بعد اب سٹیٹس تبدیل ہو گیا ہے، ریاست کی قید میں ہونے پر ریاست کو فریق بنانا ضروری ہے،اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ابھی تو ہم ضمانت کے معاملے پر چل رہے ہیں، اپیل پر بات نہیں کررہے، وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ اس بنیاد پر اپیل خارج کر دی جائے،کہہ رہا ہوں کہ ریاست کو نوٹس جاری کر دیا جائے، قانون کی متعلقہ دونوں شقیں کہتی ہیں کہ ریاست کو نوٹس جاری کیا جانا ہے،اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ اگر آپ کی بات لی جائے، حکومت کو نوٹس جاری کر دیئے جائیں تو حکومت آ کر کیا کرے گی؟ وکیل الیکشن کمیشن امجد پرویز نے کہا کہ ملزم تو حکومت کی تحویل میں ہے نہ،یہ قانون کا تقاضا ہے، قانون آپ کے سامنے ہے، سادہ زبان ہے، ریاست کے پاس فیصلے کے دفاع کا حق موجود ہے،ریاست نے فیصلہ کرنا ہے کہ وہ فیصلے کا دفاع کرے گی یا نہیں، اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ آپ کو لگتا ہے کہ ریاست آ کر کہے گی کہ سزا غلط دی گئی؟ یہ مختصر سزا ہے اور یہ بغیر نوٹس بھی معطل ہو جاتی ہے، وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ ایسا کوئی فیصلہ موجود نہیں ہے کہ بغیر نوٹس سزا معطل ہوئی ہو، ‏مختصر سزا پر سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ کے احکامات موجود ہیں، ایک کیس میں ملزم کو ٹرائل کے بعد ساڑھے 2 سال کی سزا سنائی گئی تھی،ملزم نے ہائیکورٹ میں شارٹ سینٹس کی بنیاد پر معطلی کی اپیل کی، ہائیکورٹ نے اس کی اپیل خارج کی، معاملہ سپریم کورٹ گیا،
‏سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ نے ہائیکورٹ کا فیصلہ برقرار رکھا، سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ نے کہا کہ قابل ضمانت دفعات کے تحت مقدمات میں بھی سزا معطل نہیں ہوسکتی،3 سال کی سزا معطلی حق نہیں، عدالت کے استحقاق پر منحصر ہے،

‏اسلام آباد ہائیکورٹ ، توشہ خانہ کیس میں چیئرمین پی ٹی آئی کی اپیل ،عدالت نے کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی،اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کیس کل 11:30 پر دوبارہ سنیں گے،

واضح رہے کہ عمران خان کو  توشہ خانہ کیس میں تین سال قید کی سزا اور ایک لاکھ روپے جرمانے کی سزا ہوئی تھی عدالت کی جانب سے سزا سنائے جانے کے بعد عمران خان کو لاہور سے گرفتار کر کے اٹک جیل منتقل کر دیا گیا تھا،عمران خان اٹک جیل میں ہیں، عدالت نے فیصلے میں کہا کہ ملزم نے جان بوجھ کر الیکشن کمیشن میں جھوٹی تفصیلات دیں، ملزم کو الیکشن ایکٹ کی سیکشن 174 کے تحت 3 سال قید کی سزا سنائی جاتی ہے

آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ روزانہ کی بنیاد پر جج جو کیس سن رہے ہیں وہ جانبداری ہے ؟

آج پاکستان کی تاریخ کا اہم ترین دن ہے،

عمران خان کی گرفتاری کو اعلیٰ عدالت میں چیلنج کرنے کا اعلان 

عمران خان کی گرفتاری کیسے ہوئی؟ 

چئیرمین پی ٹی آئی کا صادق اور امین ہونے کا سرٹیفیکیٹ جعلی ثابت ہوگیا

پیپلز پارٹی کسی کی گرفتاری پر جشن نہیں مناتی

 عمران خان کی سزا معطلی کی درخواست پر سماعت ہوئی

Shares: