عمران خان کو ایک گھنٹے میں پیش کیا جائے، سپریم کورٹ

0
26
imran arrested

سپریم کورٹ میں تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی گرفتاری پر اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے کیخلاف اپیل پر سماعت ہوئی،

چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے سماعت کی،جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس اطہر من اللہ بنچ میں شامل تھے ،چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے استفسار کیا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کس کیس میں پیش ہوئے تھے ؟ وکیل حامد خان نے عدالت میں کہا کہ عمران خان نیب کیس میں ضمانت کروانے کیلئے ہائیکورٹ آئے تھے عمران خان بائیو میٹرک کروا رہے تھے کہ رینجرز نے ہلہ بول دیا دروازہ اور کھڑکیاں توڑ کر عمران خان کو گرفتارکیا گیا،بائیو میٹرک کروانا عدالتی عمل کا حصہ ہےعمران خان کے ساتھ بدسلوکی کی گئی اور گرفتاری پر تشدد ہوئی، چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ریکارڈ کے مطابق جو مقدمہ مقررتھا وہ شاید کوئی او تھا عدالتی حکم کے مطابق درخواست ضمانت دائر ہوئی تھی لیکن مقرر نہیں ، جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کیا بائیومیٹرک سے پہلے درخواست ہو جاتی ہے، حامد نے کہا کہ بائیو میٹرک کے بغیر درخواست دائر نہیں ہو سکتی، جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ پہلی بات یہ ہے کہ عمران خان احاطہ عدالت میں داخل ہو چکے تھے ایک مقدمہ میں عدالت بلایا تھا دوسرا دائر ہو رہا تھا، کیا انصاف کے رسائی کے حق کو ختم کیا جاسکتا ہے؟ یہی سوال ہے کہ کسی کو انصاف کے حق سے محروم کیا جا سکتا ہے؟ کیا مناسب ہوتا نیب رجسٹرارسے اجازت لیتا، نیب نے قانون اپنے ہاتھ میں کیوں لیا

جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ‏آپ کا کیس یہ ہے کہ جب کوئی شخص عدالتی احاطے میں داخل ہو تو اسے گرفتار نہیں کیا جا سکتا، جسٹس اطہرمن اللہ نے استفسار کیا کہ ‏آپ کی کیا استدعا ہے،وکیل حامد خان نے عدالت میں کہا کہ استدعا ہے کہ عمران خان کو رہا کیا جائے، چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ‏نیب نے عدالت کی توہین کی ہے، نیب کو کتنے افراد کو گرفتار کیا؟ وکیل عمران خان نے کہا کہ عمران خان کو 80 سے 90 افراد نے گرفتار کیا، چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ 90 افراد احاطہ عدالت میں داخل ہوئے تو عدالت کی کیا توقیر رہی؟ کسی بھی فرد کو احاطہ عدالت سے کیسے گرفتار کیا جاسکتا ہے،ماضی میں عدالت میں توڑ پھوڑ کرنے پر وکلاء کے خلاف توہین عدالت کی کاروائی کی گئی، کسی فرد نے عدالت کے سامنے سرنڈر کردیا تو اس کو گرفتار کرنے کا کیا مطلب ہے؟ کوئی شخص بھی آئندہ انصاف کیلئے خود کو عدالت میں محفوظ تصور نہیں کرے گا، گرفتاری سے قبل رجسٹرار سے اجازت لینا چاہیے تھا،

جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ‏نیب ایسے کئی سالوں سے کر رہا ہے، نیب نے منتخب عوامی نمائندوں کو تضحیک سے گرفتار کیا، یہ طریقہ کار بند کرنا ہوگا،چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کیا عمران خان نے بائیؤ میٹرک کروالی تھی؟ وکیل بیرسٹر گوہر نے کہا کہ عمران خان کی درخواست کو ڈائری نمبر لگ چکا تھا، ہم نے اسی دن درخواست سماعت کی استدعا کی تھی، وکیل عمران خان سلمان صفدر نے کہا کہ ‏عمران خان کی ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواست اسلام آباد ہائیکورٹ میں سماعت کیلئے مقرر کی گئی، ایسے واقعات ہائیکورٹ میں پہلی بار ہوئے ہیں، جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ہم اس وقت صرف عدالت کی عزت اور انصاف کی فراہمی کا معاملہ دیکھ رہے ہیں،

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ معاملہ عدلیہ کے احترام کا ہے،نیب نے ایک ملزم سپریم کورٹ پارکنگ سے گرفتار کیا تھا،عدالت نے گرفتاری واپس کرا کر نیب کے خلاف کارروائی کی نیب نے عدالت کو یقین دہانی کرائی تھی آئندہ ایسی حرکت نہیں ہو گی، نیب کی یقین دہانی سے 9 افسران توہین عدالت سے بچے تھے ،ہر کسی کو عدالت کے اندر تحفظ ملنا چاہیے، ہم ابھی اٹارنی جنرل کو طلب کرتے ہیں،ہم عدالت کی توقیر کو بحال کریں گے، میانوالی کی ڈسٹرکٹ کوٹ ہر حملہ کیا گیا جو بدقسمتی ہے،چ عدالت پر حملے پر آج میرا دل دکھا ہے، ایسے کیسے ہورہا ہے اور کوئی نہیں روک رہا؟جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ‏عمران خان لاہور میں تھے تو وارنٹ گرفتاری پر عملدرآمد کیلئے وفاقی حکومت کو کیوں لکھا؟ نیب نے پنجاب حکومت کو کیوں نہیں لکھا؟ نیب پراسیکیوٹر صاحب معاملات کو پیچیدہ مت بنائیں، نیب نے پاکستان کا بہت نقصان کردیا ہے، نیب پراسیکیوٹر کا ایسا رویہ کسی صورت قابل قبول نہیں، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ وفاقی حکومت نے وارنٹ گرفتاری پر عملدرآمد کرایا، کیا گرفتاری کے وقت نیب کا کوئی شخص وہاں موجود تھا؟ کس فورس نے عمران خان کو گرفتار کیا؟ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ بائیو میٹرک کمرے میں کس نے گرفتاری کی نیب کو یہ بھی معلوم نہیں،

وکیل عمران خان نے کہا کہ ‏انکوائری مکمل ہونے کے بعد رپورٹ ملزم کو دینا لازمی ہے، جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ کیا عمران خان شامل تفتیش ہوئے تھے، شعیب شاہین نے کہا کہ عمران خان نے نوٹس کا جواب نیب کو ارسال کیا تھا، نیب کا وارنٹ غیرقانونی تھا،جسٹس اطہر من اللہ‏ نے کہا کہ ‏بظاہر نیب نے عمران خان کے وارنٹ قانون کے مطابق نہیں لیے، سپریم کورٹ نے نیب پراسیکیوٹر کو روسٹرم پر طلب کر لیا،جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آپ نے عمران خان کو کتنے نوٹس جاری کیے؟ نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ عمران خان کو ایک نوٹس جاری کیا، جسٹس اطہر من اللہ‏ نے استفسار کیا کہ ایک کے بعد دوسرا نوٹس کیوں جاری نہیں کیا؟ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ 100 لوگوں کے داخلے سے احاطہ عدالت میں خوف پھیل جاتا ہے، ‏نیب کی خواہش ہے کہ بس دوسرے قانون پر عمل کرتے رہیں،وہ خود نہیں، سب آپ کی مہربانی ہے آج جو کچھ ہو رہا ہے آپ کی بزدلی کی وجہ سے،‏گرفتاری سے جوہوا اسے رکنا چاہئے تھا، اس کا یہ مطلب نہیں کہ غیر قانونی اقدام سے نظر چرائی جاسکے ،ایسافیصلہ دینا چاہتے ہیں جس کا اطلاق ہر شہری پر ہوگا، انصاف تک رسائی ہرملزم کا حق ہے۔

ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے عدالت میں کہا کہ ‏گرفتاری کیلئے رینجرز نے اسلام آباد پولیس کی معاونت کی،آئی جی اسلام آباد نے وارنٹ گرفتاری پر عملدرآمد کرایا، چیف جسٹس نے کہا کہ رینجرز صرف وزارت داخلہ کی اجازت پر آسکتی ہے، وزارت داخلہ نے پولیس کی بجائے رینجرز سے عملدرآمد کرایا، ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ رینجرز اسلام آباد ہائیکورٹ کی سیکیورٹی کیلئے ہر پیشی پر موجود ہوتی ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ نیب نے وارنٹ گرفتاری پر عملدرآمد سے خود کو الگ کرلیا ہے، نیب اس سے قبل احاطہ عدالت سے اپنے افسران کو گرفتاری سے روک چکا ہے،ایس او پیز کے تحت احاطہ عدالت سے گرفتاری نہیں ہوسکتی، جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ رجسٹرار اسلام آباد ہائیکورٹ کے احاطہ کے انچارج ہیں، ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے کہا کہ اسلام آباد پولیس وارنٹ گرفتاری پر عملدرآمد کیلئے لاہور گئی،گرفتاری سے قبل رجسٹرار اسلام آباد ہائیکورٹ کی اجازت ضروری نہیں ہے، جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ‏گرفتاری کیلئے اسلام آباد ہائیکورٹ کے شیشے ٹوڑے گئے، ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ عمران خان احاطہ عدالت سے باہر آئے تو ان کو گرفتار کیا گیا،عمران خان کو گرفتار کرنا ناممکن ہوگیا تھا جب بھی گرفتاری کی کوشش کی جاتی عمران خان لوگ اکٹھے کرلیتے،چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ گرفتاری سے قبل رجسٹرار اسلام آباد ہائیکورٹ سے اجازت نہیں کی گئی، ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ جس نے بھی عدالت کے شیشے توڑے اس کے خلاف کاروائی ہونی چاہیے، ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ عمران خان جس کمرے میں تھے اس کمرے کی کنڈی لگا دی گئی،جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اگر کمرہ بند ہو تو کنڈی کھٹکائی جاتی ہے نہ کے دروازہ توڑا جائے،چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ نیب نے گرفتاری کا سارا ملبہ وفاقی حکومت پر ڈال دیا ہے،جسٹس اطہر من اللہ‏ نے کہا کہ موجودہ حکومت سے اس طرح کے رویے کی توقع نہیں تھی،چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ اگر اجازت دے دی گئی تو عدالتوں کے اندر سے گرفتاری بہت آسان ہوجائے گی، ایسے تو عدالتیں گرفتاری میں سہولت کار بن جائیں گی،لاہور میں عدالت کے اندر قتل کے واقعات بڑھے، ہم نے کوشش کر کے یہ رویہ روکاجائے،اس طرح لوگ ذاتی لڑائیوں کے بدلے عدالت کے اندر لینا شروع ہوجائیں گے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ‏اٹارنی جنرل نے تسلیم کیا کہ احاطہ عدالت میں جو ہوا وہ انصاف کی راہ میں بُری مثال قائم کرے گا، اس واقعے نے پوری قوم میں بہت خوفناک تاثر قائم کیا،وقت آ گیا ہے کہ قانون کی عملداری یقینی بنائے جائے،اس معاملے ٹھیک کرنے کیلئے معاملہ ریورس کرنا پڑے گا۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ‏اس معاملے کا واحد حل اس وقت کو ریورس کر دیا جائے، جس موقع پر ملزم کے فنگر پرنٹ ہو رہے تھے۔

عدالت نے ‏عمران خان کو ایک گھنٹے میں سپریم کورٹ پیش کرنے کا حکم‏ دے دیا، جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ نیب وارنٹ کا نہیں، تعمیل کرانے کا طریقہ کار اصل مسلہ ہے، گرفتاری کو وہیں سے ریورس کرنا ہوگا جہاں سے ہوئی۔ عدالتی احاطے سے گرفتاری کیا بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہیں، جسٹس اطہرمن اللہ نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ‏آپ کیلئے دفاع کرنا مشکل ہورہا ہے، عدالت نے کہا کہ دوسری سیاسی جماعتوں کے ساتھ بھی بہت برا سلوک ہوا ہے، حالیہ گرفتاری سے ہر شہری متاثر ہورہا ہے، عدالت سے گرفتاری بنیادی حق کی خلاف ورزی ہے، کیا مناسب نہیں ہوگا کہ عوام کا عدلیہ پر اعتماد بحال کیا جائے۔

‏سپریم کورٹ کی جانب سے عمران خان کو عدالت میں پیش کرنے کا حکم جاری کرتے ہوئے ہدایات جاری کی ہیں کہ اس موقع پر پی ٹی آئی کا کوئی رہنما یا کارکن نہ آئے۔ عدالت نے کہا کہ ‏قانون پر عمل کی بات سب کرتے ہیں لیکن خود کوئی عمل نہیں کرتا،جسٹس اطہر من اللہ‏ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ سب کی خواہش ہے کہ دوسرے قانون پر عمل کریں، نیب نے وارنٹ کی تعمیل کیلئے پنجاب حکومت کو کیوں نہیں لکھا، نیب نے ملک کو بہت تباہ کیا ہے، سردار مظفر نے کہا کہ عمران خان کا کنڈکٹ بھی دکھیں، ماضی میں مزاحمت کرتے رہے، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ‏نیب نے وارنٹ کی تعمیل سے لاتعلقی کا اظہار کردیا ہے، جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ‏ضابطہ فوجداری کی دفعات 47 سے 50 تک پڑھیں، بائیو میٹرک برانچ کی اجازت کے بغیر بھی شیشے نہیں توڑے جاسکتے، ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ ‏عمران خان کو گرفتار کرنا ناممکن تھا،احتساب عدالت ریمانڈ دے چکی ہے ، جسٹس اطہر من اللہ‏ نے کہا کہ بنیاد غیرقانونی ہو تو عمارت قائم نہیں رہ سکتی، وقت آگیا ہے کہ مستقبل کیلئے مثال قائم کی جائے،اٹارنی جنرل نے کہا کہ نیب ایک آزاد ادارہ ہے ، نیب نے رینجرز تعینات کرنے کی درخوست کی تھی ‏عدالت نے اٹارنی جنرل کو روسٹرم پربلا لیا ،چیف جسٹس نے کہا کہ انصاف تک رسائی کے حق پراٹارنی جنرل کوسنیں گے ، ‏عدالتیں آزاد ہوتی ہیں ، آزاد عدلیہ کا مطلب شہریوں کو تحفظ فراہم کرنا ہے ،‏ملزم سرینڈرکرے اورگرفتارکیا جائے توعدالت گرفتاریوں کیلئےآسان مقام بن جائے گا،ملزمان کے ذہن میں عدالتیں گرفتاری کی سہولت کاربن جائینگی ، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ عدالتی دروازے سے لوگوں کو گرفتار کیا گیا تو عدالت کون آئے گا؟ عدالت نے حکم دیا کہ آئی جی اسلام آباد عمران خان کو ساڑھے 4 بجے عدالت میں پیش کریں۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ کوئی سیاسی رہنما اور کارکن عدالت نہیں آئیگا،پاکستان کو جیل نہیں بننے دیا جائیگا،کیوں نہ گھڑی کو واپس بائیو میٹرک مرحلے میں پہنچا دیں،عدالت معاملے پربہت سنجیدہ ہے ،چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کی کل تک کی مہلت کی استدعا مسترد کر دی اور کہا کہ عدالت آج مناسب حکم جاری کرے گی ،

عمران خان کی گرفتاری کیخلاف درخواست ایڈووکیٹ محبوب گجر کی جانب سے دائر کی گئی درخواست میں وفاقی حکومت، وزارت دفاع اور نیب کو فریق بنایا گیا ہے ،درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ پی ٹی آئی رہنماوں کی گرفتاری اختیارات کے ناجائز استعمال و انتقام پر مبنی ہے ،حکومت کا رویہ بنیادی حقوق، آئین کے آرٹیکل 9 ،10 اے کی خلاف ورزی ہے ،بنیادی حقوق کی خلاف ورزی پر سپریم کورٹ کی مداخلت ناگزیر ہے درخواست میں عمران خان کی رہائی کا حکم دینے اور گرفتاری کی تحقیقات کا حکم دینے کی استدعاکی گئی ہے، درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ عمران خان کی حفاظتی یقینی بنانے کا حکم دیا جائے

سپریم کورٹ، عمران خان نے گرفتاری سے متعلق اضافی دستاویزات سپریم کورٹ میں جمع کرادی ،عمران خان نے نیب کال اپ نوٹس، ڈی جی نیب کو لکھے خط کی کاپی جمع کرا دی ،عمران خان نے چئیرمین نیب کیخلاف دائر رٹ پٹیشن اوربیان حلفی جمع کرا دیا، درخواست میں کہا گیا ہے کہ مجھے بائیومیٹرک تصدیق کے دوران غیرقانونی گرفتار کیا گیا میرے وکلاء گوہرعلی اورعلی بخاری کیساتھ دوران گرفتاری بد تمیزی کی گئی،میرے وکلاء کی آنکھوں پر زہریلا اسپرے پھیکا گیا، انصاف کے تقاضوں کیلئے اضافی دستاویز کو ریکارڈ کا حصہ بنایا جائے

غیر ملکی سفارت خانوں نے اپنے شہریوں کو محتاط رہنے کی ہدایت کر دی 

 لیگل ٹیم پولیس لائن گئی تو انہیں عدالت جانے سے روک دیا گیا

نواز شریف کو سزا سنانے والے جج محمد بشیر کی عدالت میں عمران خان کی پیشی 

سیاسی مفادات کے لئے ملک کونقصان نہیں پہنچانا چاہئے

 بشریٰ بی بی کی گرفتاری کے بھی امکانات

Leave a reply