عمران خان کی سزا معطل، توشہ خانہ کیس میں ضمانت پر رہا کرنے کا حکم

درخواست پر 9 کو اگست پہلی سماعت ہوئی تھہ آج 20 روز بعد فیصلہ سنایا گیا
0
46
imran khan

عمران خان کی سزا معطل، اسلام آباد ہائیکورٹ نے تحریری فیصلہ جاری کر دیا

اسلام آباد ہائیکورٹ نے آٹھ صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کیا،تحریری فیصلے میں عدالت نے کہا کہ عدالت سمجھتی ہے کہ درخواست گزار سزا معطلی اور ضمانت پر رہائی کا حقدار ہے، سزا معطلی کی درخواست منظور کرکے 5 اگست کو ٹرائل کورٹ کا فیصلہ معطل کیا جاتا ہے، درخواست گزار کو ایک لاکھ روپے کے مچلکے داخل کرانے پر ضمانت پر رہا کیا جائے،ٹرائل کورٹ نے الیکشن ایکٹ کے تحت الیکشن کمیشن کی کمپلینٹ پر سزا کا فیصلہ سنایا

سزا معطلی کے فیصلے میں سپریم کورٹ کے قائم علی شاہ کیس کا حوالہ بھی شامل،اس کیس میں دی گئی سزا کم دورانیے کی ہے،عدالت سمجھتی ہے کہ درخواست گزار سزا معطلی اور ضمانت پر رہائی کا حقدار ہے،” سپریم کورٹ کا فیصلہ ہے کہ ضروری نہیں کہ ہر کیس میں سزا معطل ہو ، سپریم کورٹ نے فیصلے میں کہا کہ ضمانت دینا یا انکار کرنا ہائی کورٹ کی صوابدید ہے ، اس کیس میں دی گئی سزا کم دورانیے کی ہے ، عدالت سمجھتی ہے کہ درخواست گزار سزا معطلی اور ضمانت پر رہائی کا حقدار ہے ، سزا معطلی کی درخواست منظور کر کے پانچ اگست کو ٹرائل کورٹ کا فیصلہ معطل کیا جاتا ہے درخواست گزار کو ایک لاکھ روپے کے مچلکے داخل کرانے پر ضمانت پر رہا کیا جائے

اسلام آباد ہائیکورٹ: چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی توشہ خانہ کیس میں سزا کیخلاف اپیل پر عدالت نے محفوظ فیصلہ سنا دیا،

اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق جسٹس طارق محمود جہانگیری پر مشتمل ڈویژن بینچ نے فیصلہ سنایا، عدالت نے عمران خان کی سزا معطل کر دی، اسلام آباد ہائیکورٹ نے توشہ خانہ کیس میں عمران خان کو ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دے دیا ،چئیرمن پی ٹی آئی کیخلاف توشہ خانہ سزا معطلی کی درخواست منظورکر لی گئی، عدالت نے ایک لاکھ کے ضمانتی مچلکے جمع کرانے کا حکم دے دیا،چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہفیصلہ باضابطہ طور پر کمرہ عدالت میں نہیں سنا رہے، عدالت نے پی ٹی آئی کے وکلا سے کہا کہ تحریری فیصلے میں سزا معطلی کی وجوہات بتائی جائیں گی ،

عدالت نے فیصلہ سنایا تو وکلا کی بڑی تعداد عدالت کے اندر موجود تھی، عمران خان کی بہنیں عظمیٰ خان اور علیمہ بھی کمرہ عدالت میں آئیں تا ہم 12 بج کر پچاس منٹ پر عمران خان کی بہنیں فیصلہ سنے بغیر ہی واپس چلی گئیں،،اس موقع پر عدالت کے باہر سیکورٹی کے سخت انتظامات کئے گئے تھے، پولیس کی بھاری نفری کمرہ عدالت کے باہر بھی تعینات کی گئی تھی،درخواست پر 9 کو اگست پہلی سماعت ہوئی تھہ آج 20 روز بعد فیصلہ سنایا گیا، عدالت نے فیصلہ سنانے کا وقت گیارہ بجے کا مقرر کیا تھا مگر فیصلہ تاخیر سے سنایا گیا،

فیصلے کے انتظار کے دوران وکلا کمرہ عدالت میں ویڈیو بناتے رہے جس پر اسلام آباد ہائیکورٹ کے عدالتی عملے کی جانب سے تنبیہ کی گئی اور کہا گیا کہ ویڈیو نہ بنائیں، موبائل سائلنٹ کردیں، سیٹوں پر بیٹھ جائیں، کچھ ہی دیر میں ججز آنے والے ہیں،

واضح رہے کہ عمران خان کو توشہ خانہ کیس میں تین سال قید کی سزا اور ایک لاکھ روپے جرمانے کی سزا ہوئی تھی عدالت کی جانب سے سزا سنائے جانے کے بعد عمران خان کو لاہور سے گرفتار کر کے اٹک جیل منتقل کر دیا گیا تھا،عمران خان اٹک جیل میں ہیں، عدالت نے فیصلے میں کہا کہ ملزم نے جان بوجھ کر الیکشن کمیشن میں جھوٹی تفصیلات دیں، ملزم کو الیکشن ایکٹ کی سیکشن 174 کے تحت 3 سال قید کی سزا سنائی جاتی ہے

عمران خان نے سزا کے خلاف اسلام آباد ہائیکورٹ میں اپیل کی تھی، اسلام آباد ہائیکورٹ میں عمران خان کی جانب سے لطیف کھوسہ پیش ہوئے، سپریم کورٹ نے بھی اسلام آباد ہائیکورٹ کو حکم دیا تھا کہ ایک دن میں فیصلہ کریں تا ہم ایک دن میں فیصلہ نہ ہو سکا، آج عدالت نے فیصلہ سنایا ہے،

آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ روزانہ کی بنیاد پر جج جو کیس سن رہے ہیں وہ جانبداری ہے ؟

آج پاکستان کی تاریخ کا اہم ترین دن ہے،

عمران خان کی گرفتاری کو اعلیٰ عدالت میں چیلنج کرنے کا اعلان 

عمران خان کی گرفتاری کیسے ہوئی؟ 

چئیرمین پی ٹی آئی کا صادق اور امین ہونے کا سرٹیفیکیٹ جعلی ثابت ہوگیا

پیپلز پارٹی کسی کی گرفتاری پر جشن نہیں مناتی

 عمران خان کی سزا معطلی کی درخواست پر سماعت ہوئی

لاڈلے کو بچانے کے لئے خود چیف جسٹس مانیٹرنگ جج بن گئے،شہباز شریف
عدالتی فیصلے پر سابق وزیراعظم، ن لیگ کے صدر شہباز شریف کا کہنا تھا کہ لاڈلے کی سزا معطل ہوئی ہے ختم نہیں ہوئی۔ چیف جسٹس کا "گُڈ ٹو سی یو” اور "وشنگ یو گڈ لک” کا پیغام اسلامآباد ہائی کورٹ تک پہنچ گیا۔ فیصلہ آنے سے پہلے ہی سب کو پتہ ہو کہ فیصلہ کیا ہوگا تو یہ نظام عدل کے لئے لمحہ فکریہ ہونا چاہیے ۔ اعلی عدلیہ سے واضح پیغام مل جائے تو ماتحت عدالت یہ نہ کرے تو اور کیا کرے؟

سزا معطل ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ سزا ختم ہو گئی،مجرم ابھی بھی مجرم ہے
صحافی فیصل عباسی کہتے ہیں کہ سزا معطل ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ سزا ختم ہو گئی ہے اور کیس سے بری کر دیا گیا ہے۔ مجرم ابھی بھی مجرم ہے اور الیکشن کے لیے نااہل ہے۔ قانون کے مطابق ٹرائل کورٹ سے تین سال کی سزا تک کو اعلی عدلیہ اس وقت تک معطل کر سکتی ہے جب تک اس کیس کا کوئی فیصلہ نہیں سنایا جاتا۔ اس عمل میں سزا پھر بھی قائم رہتی ہے اور مجرم ، مجرم ہی رہتا ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے کرمنل پروسیجر کوڈ کے تحت عمران خان کی سزا تب تک معطل کرے گی جب تک ان کی اپیل کا فیصلہ نہیں ہو جاتا۔ سیکشن 426 کے مطابق یہ معطلی صرف اُس وقت تک ہے جب تک اسکی مین اپیل کورٹ میں پینڈنگ ہے.

Leave a reply