عمران خان کی اٹک جیل سے اڈیالہ جیل منتقلی کی درخواست،سماعت میں وقفہ
اسلام آباد ہائیکورٹ: اٹک جیل سے اڈیالہ جیل منتقلی کی چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواست پر سماعت ہوئی
چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواست پر اعتراضات کے ساتھ سماعت میں وقفہ کر دیا گیا، درخواست میں چیئرمین پی ٹی آئی کی اٹک جیل سے اڈیالہ جیل منتقلی کی استدعا کی گئی، اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے سماعت کی ،سینئر وکیل شیر افضل مروت کی عدم موجودگی کے باعث سماعت ملتوی کی گئی، معاون وکیل نے عدالت سے استدعا کی کہ سینئر وکیل راولپنڈی بنچ میں ہیں اگر آخر میں کیس کال کر لیں ، عدالت نے کیس کی سماعت میں وقفہ کر دیا
بشریٰ کی عمران خان سے ملاقات کی درخواست، قانون دیکھیں گے، عدالت
وقفہ کے بعد دوبارہ سماعت ہوئی،چیئرمین پی ٹی آئی کی اڈیالہ جیل منتقلی کی درخواست پر اعتراضات دور کر دیئے گئے، چیف جسٹس عامر فاروق نے دلائل سننے کے بعد فیصلہ سنایا ، اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آج صرف اعتراضات سن رہے ہیں، کل باقاعدہ سماعت رکھ لیتے ہیں،چیئرمین پی ٹی آئی کو وہ تمام سہولتیں جیل میں فراہم کی جائیں گی جن کے وہ حقدار ہیں، جو 3،4 وکلا ملنا چاہتے ہیں، ان کا نام دے دیں، آرڈر پاس کردوں گا، بشریٰ بیگم کے حوالے سے بھی جو باقاعدہ قانون ہوگا وہ دیکھیں گے،
چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کے وکیل نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر کی تھی کہ عمران خان کو اٹک سے اڈیالہ جیل منتقل کیا جائے جہاں اے کلاس سہولیات دستیاب ہیں اورفیملی، وکلا اورڈاکٹر سلطان کو عمران خان سے ملاقات کی اجازت دی جائے
واضح رہے کہ عمران خان کوتین روز قبل توشہ خانہ کیس میں تین سال قید کی سزا اور ایک لاکھ روپے جرمانے کی سزا ہوئی تھی عدالت کی جانب سے سزا سنائے جانے کے بعد عمران خان کو لاہور سے گرفتار کر کے اٹک جیل منتقل کر دیا گیا تھا،عمران خان اٹک جیل میں ہیں، عدالت نے فیصلے میں کہا کہ ملزم نے جان بوجھ کر الیکشن کمیشن میں جھوٹی تفصیلات دیں، ملزم کو الیکشن ایکٹ کی سیکشن 174 کے تحت 3 سال قید کی سزا سنائی جاتی ہے
آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ روزانہ کی بنیاد پر جج جو کیس سن رہے ہیں وہ جانبداری ہے ؟
آج پاکستان کی تاریخ کا اہم ترین دن ہے،
عمران خان کی گرفتاری کو اعلیٰ عدالت میں چیلنج کرنے کا اعلان
عمران خان کی گرفتاری کیسے ہوئی؟
چئیرمین پی ٹی آئی کا صادق اور امین ہونے کا سرٹیفیکیٹ جعلی ثابت ہوگیا