سپریم کورٹ ،پی ٹی آئی لانگ مارچ روکنے کیلئے سینیٹر کامران مرتضی ٰکی درخواست پر سماعت ہوئی
عدالت نے استفسار کیا کہ کیا عمران خان کے لانگ مارچ کے لیے جگہ کا تعین کیا گیا ہے؟ انتظامیہ سے پوچھ کر عدالت کو آگاہ کیا جائے،سپریم کورٹ نے ایڈشنل اٹارنی جنرل کو آدھے گھنٹے میں انتظامیہ سے پوچھ کر بتانے کا حکم دے دیا، درخواست گزار سینیٹر کامران مرتضیٰ نے عدالت میں کہا کہ دو ہفتے سے عمران خان کا لانگ مارچ شروع ہے،فواد چودھری کے مطابق جمعہ یا ہفتے کو لانگ مارچ اسلام آباد پہنچے گا،لانگ مارچ سے معاملات زندگی متاثر ہو سکتے ہیں، مارچ پی ٹی آئی کا حق ہے لیکن عام آدمی کے حقوق متاثر نہیں ہونے چاہئیں،
جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کہ کیا حکومت نے احتجاج کو ریگولیٹ کرنے کا کوئی طریقہ کار بنایا ہے؟ جسٹس اطہرمن اللہ نے استفسار کیا کہ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ انتظامیہ اتنی کمزور ہو گئی ہے کہ مارچ کنٹرول نہیں کر سکتی؟ یہ ایگزیکٹیو کا معاملہ ہے ان سے ہی رجوع کریں، غیر معمولی حالات میں ہی عدلیہ مداخلت کر سکتی ہے،جب انتظامیہ صورتحال کنٹرول کرسکتی ہے تو عدالت مداخلت کیوں کرے؟ درخواست گزار سینیٹر کامران مرتضیٰ نے کہا کہ بات اب بہت آگے جا چکی ہے، پی ٹی آئی کے لانگ مارچ میں فائرنگ سے ایک شخص کی جان گئی،جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی کا لانگ مارچ تو کافی دنوں سے چل رہا ہے، کیا آپ نے انتظامیہ سے رجوع کیا ہے؟لانگ مارچ کے معاملے میں جلدی کیا ہے اور انتظامیہ کی غفلت کیا ہے؟
دوران سماعت چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آپ نے درخواست میں ماضی کی خلاف ورزیوں کا ذکر کیا ہے، لانگ مارچ سیاسی مسئلہ ہے جس کا سیاسی حل ہو سکتا ہے، اس قسم کے مسائل میں مداخلت سے عدالت کیلئے عجیب صورتحال پیدا ہو جاتی ہے، آپ نے اپنی درخواست میں ایک آڈیو کا ذکر کیا ہے، جس میں ہتھیار لانے کا ذکر ہے،آڈیو سچ ہے یا غلط لیکن اس سے امن و امان کی صورتحال خراب ہو سکتی ہے، کیا 25 مئی کے لانگ مارچ میں لوگوں کے پاس اسلحہ تھا؟احتجاج کا حق لامحدود نہیں آئینی حدود سے مشروط ہے،
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آپ کہہ رہے ہیں لانگ مارچ ابھی پنجاب کی حدود میں ہے،کیا آپ نے پنجاب حکومت سے رابطہ کیا ہے؟اگر صوبے اور وفاق کا رابطہ منقطع ہو جائے تو کیا عدالت مداخلت کر سکتی ہے؟ جسٹس اطہرمن اللہ نے سینیٹر کامران مرتضیٰ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ ایک سینیٹر ہیں پارلیمنٹ کو مضبوط کریں، درخواست گزار نے کہا کہ میں ذاتی حیثیت میں عدالت آیا ہوں، جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کیسے مان لیں کہ آپ حکومت کا حصہ بھی ہیں اور ذاتی حیثیت میں آئے ہیں،درخواست گزار نے کہا کہ بظاہر لگتا ہے کہ انتظامیہ صورتحال کو کنٹرول نہیں کر سکتی، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ بظاہر لانگ مارچ کے معاملے میں عدالت کی مداخلت قبل از وقت ہوگی،جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آپ چاہ رہے ہیں کہ سپریم کورٹ ڈپٹی کمشنر کا کردار ادا کرے،جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ توہین عدالت کا معاملہ لارجر بینچ میں زیر التوا ہے، فریقین نے یقین دہانی کی خلاف ورزی پر جواب دینا ہے، کیا آپ چاہتے ہیں کہ یہ بینچ الگ سے لانگ مارچ کے معاملے میں مداخلت کرے؟ جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ لانگ مارچ کا معاملہ تو اسلام آباد ہائیکورٹ میں بھی زیر التوا ہے،
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی کے 25 مئی کے جلسے کیلئے ایچ نائن گراونڈ کی درخواست دی گئی تھی، انتظامیہ نے ایچ نائن گراونڈ دینے سے انکار کیا تو سپریم کورٹ نے مداخلت کی، ایچ نائن کا گراونڈ مختص ہونے کے باوجود ہجوم ڈی چوک چلا آیا،کیا آپ اس بات سے خائف ہیں کہ 25 مئی والا واقعہ دوبارہ ہو سکتا ہے؟
سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی لانگ مارچ روکنے کیلئے سینیٹر کامران مرتضٰی کی درخواست غیر موثر ہونے پر نمٹا دی، سپریم کورٹ نے کہا کہ حالات خراب ہوتے ہیں تو عدالت سے دوبارہ رجوع کیا جاسکتا ہے،اسلام آباد ہائیکورٹ میں لانگ مارچ سے متعلق کیس زیر التوا ہے ایڈوکیٹ جنرل اسلام آباد کے موقف کے بعدحکم جاری کرنے کی کوئی وجہ نہیں،جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اگر کوئی خلاف ورزی کرتا ہے تو ایگزیکٹیو کے پاس وسیع اختیارات موجود ہیں،کیا عدلیہ کی مداخلت سے انتظامیہ اور پارلیمنٹ کمزور نہیں ہو گی؟ جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ انتظامیہ کو متحرک کریں کہ وہ اپنا کردار ادا کریں، آئے روز اسلام آباد میں پارلیمنٹ سمیت کئی جگہوں پر احتجاج ہوتے ہیں،کیا کبھی باقی احتجاج کے خلاف آپ عدالتوں میں گئے ہیں؟ ایک مخصوص جماعت کے لانگ مارچ میں ہی عدالت کی مداخلت کیوں درکار ہے؟ درخواست گزار نے کہا کہ لانگ مارچ کی وجہ سے ایک پورا صوبہ مفلوج رہا ہے، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آپ کے مطابق تو ایگزیکٹیو کے اختیارات تو 27 کلومیٹر تک محدود ہیں،چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کامران مرتضیٰ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ مفروضے کی بنیاد پر ہمارے پاس آئے ہیں، کیا انتظامیہ نے پی ٹی آئی کے لانگ مارچ کے لیے جگہ کے حوالے سے کوئی فیصلہ کیا ہے؟ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ انتظامیہ نے پی ٹی آئی کو روات میں جلسے کا کہا تھا،انتظامیہ نے پی ٹی آئی سے بیان حلفی مانگا جو اب تک پر نہیں ہوا،اسلام آباد ہائیکورٹ میں بھی یہ معاملہ چل رہا ہے، آدھا گھنٹہ دیں تو انتظامیہ سے معلومات لے لیتا ہوں،
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اگر واضح طور پر آئینی خلاف ورزی کا خطرہ ہو تو عدلیہ مداخلت کرے گی، سینیٹر کامران مرتضیٰ نے کہا کہ درخواست میں ماضی کی آئینی خلاف ورزیوں کا حوالہ بھی موجود ہے،چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ہو سکتا ہے خلاف ورزیوں پر دوسرے فریق کا اپنا موقف ہو، سپریم کورٹ کے حکم کی خلاف ورزی پر عدالت کے لیے معاملہ پیچیدہ ہو جاتا ہے، عدالتی حکم عملدرآمد کے لیے ہوتے ہیں،
جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اب تو موجودہ درخواست غیر موثر ہو گئی ہے، ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت میں کہا کہ ملک میں امن و امان برقرار رکھنے کے لیے عدالتی مداخلت چاہتے ہیں، جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کیا آپ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ صورتحال ایگزیکٹیو کے بس سے باہر ہو چکی ہے؟ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ وفاق نے 5 نومبر کو بھی پنجاب کو آرٹیکل 149 کے تحت خط لکھا ہے، جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کہ کیا وفاق کو نہیں معلوم کہ اپنی ذمہ داری کیسے پوری کرنی ہے؟ سپریم کورٹ انتظامی معاملات میں کیا کر سکتی ہے؟ جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ریاست طاقت ور بااختیار ہے، سمجھ سکتے ہیں کہ آپ موجودہ صورتحال سے پریشان ہیں، سمجھ سکتے ہیں کہ آپ موجودہ صورتحال سے پریشان ہیں،
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آج کی ہیڈلائن باجوڑ اور لکی مروت میں حملے کی تھی جس سے پوری قوم متاثر ہوتی ہے، ملک میں ہنگامہ نہیں امن و امان چاہتے ہیں،ایسا حکم دینا نہیں چاہتے جو قبل از وقت ہو اور اس پر پھر عمل درآمد نا ہو،آرٹیکل 149 کے تحت وفاق کا صوبوں کو خط بہت سنجیدہ معاملہ ہوتا ہے،
خواجہ سراؤں پر تشدد کی رپورٹنگ کیلئے موبائل ایپ تیار
ہ ٹرانسجینڈر قانون سے معاشرے میں خواجہ سرا افراد کو بنیادی حقوق ملے۔
پاکستان میں 2018 سے قبل ٹرانسجینڈر قانون نہیں تھا،
ہم جنس پرستی کے مکروہ ایجنڈے کو آگے بڑھانے کی کوشش شرمناک ہے، تنظیم اسلامی
خواجہ سرا کے ساتھ بازار میں گھناؤنا کام کرنیوالے ملزمان گرفتار
عمران خان کے صاحبزادوں قاسم اور سلیمان کی زمان پارک آمد
شوکت خانم کے باہر سے مشکوک شخص گرفتار
جس کو پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکو کہتا تھا اسے ڈاکو کی وزارت اعلیٰ کے نیچے عمران خان پر حملہ ہوا