عشق تحریر انجینئرمحمد امیر عالم

0
46

 عشق محبت میں تجاوز کرنے کو کہتے ہیں
 یعنی جب محبت شدت احتیار کر لے اور قوی ہوجائے تو اس کو عشق کہا جاتا ہے ۔
 محبت کی انتہاء عشق ہے اور محبت دراصل میں ” طبیعت کا کسی سے شے کی طرف مائل ہونا ، اس سے لذت حاصل
“کرنا اور اسکو حاصل کرنے کی کوشش کرنے کا نام محبت ہے
اور جب یہ میلان پختہ اور قوی ہو جائے اسکو عشق کہتے ہیں
“عشق دراصل محبت کا آخری درجہ ہے”
عشق جب ہو جائےتو پھر اسکی کوئی انتہا نہیں رہتی ہے

بقول شاعر ۔۔!۔
تیرے عشق کی انتہا چاہتا ہوں میری
  میری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں

عشق ایک ایسی بیماری ہے جو جس کو لگ جاتی ہے پھر وہ بیمارِ عشق اس کی شفاء نہیں چاہتا بلکہ وہ اس بیماری میں مزید ترقی چاہتا ہے۔
یہ بیماری تمام بیماروں سے جدا ہے۔ کیونکہ جب کوئی دوسری بیماری لاحق ہوتی ہے تو بیمار کو مرنے کا وہم رہتا ہے وہ اس کا علاج  کرواتا ہے ۔ اپنی بیماری سے نجات حاصل کرنے کے لیے دعائیں مانگتا ہے لیکن یہ واحد بیمار ہے جس میں بیمار مزید ترقی کےلیے دعائیں مانگتا ہے۔

ایک اللہ والے نے عشق کے متعلق فرماتے ہے کہ:۔
عشق اک ایسا دریا ہے جس کی انتہا نہیں اور نہ کوئی اسکی کی گہرائی اور تہہ تک پہنچ سکتا ہے ، جس نے اس دریا میں غوطہ لگایا وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اس میں سیر کرتا رہے گا اور ہر گھڑی نیچے ہوتا جائے گا اس کا اوپر ابھرنے کا کوئی امکان نہیں اس کا نہ کبھی پتہ چلے گا اور نہ کبھی وہ دریا کی گہرائی تک پہنچے گا اور جسکو معشوق تک پہنچنے کے بعد قرار آ گیا اسے عشق نہ سمجھو اسے  ”ہوس“  کہو۔   عشق وہ ہے کہ جتنا معشوق سے قربت ہوتی جائے اور اس سے میل جول بڑھتا جائے عشق کی آگ تیز تر ہوتی جائے۔
(اللہ کے عاشقوں کی عاشقی کا منظر  ص ٢٧)

 عشق دو طرح کے ہیں ایک کو عشقِ مجازی اور دوسرے کو عشقِ حقیقی کہتے ہیں
دل سے غیراللہ کو خالی کر کے اللہ کی یاد بسانے کا نام عشق حقیقی ہے۔  اور دل میں غیر اللہ کی یاد بسا کر اللہ کی یاد سے غافل ہو جانے کا نام عشقِ مجازی ہے۔
عشق مجازی حرام ہے اور اللہ کا عذاب ہے ۔جس میں پڑھ کر انسان اپنی دونوں جہانوں کی زندگی تباہ و برباد کر دیتا ہے نہ وہ دنیا کی زندگی میں چین، سکوں، راحت حاصل کر سکتا ہے اور نہ ہی اس کو آخرت کی زندگی میں چین، سکوں، راحت مل سکے گا۔
کیونکہ جو عاشق ہوتا ہے اس کا دل ہر وقت یادِ معشوق میں رہتا ہے اپنے معشوق کی یاد سے ذرا بھی غافل نہیں رہتا اس کو ہر جانب اپنا معشوق ہی نظر آتا ہے اور اس وجہ سے وہ یاد خدا سے غافل ہو جاتا ہے خدا کی یاد اس کے دل سے نکل جاتی ہے۔

کسی نے مجنوں سے پوچھا۔۔۔! کہ
تمھارا نام کیا ہے ۔؟  ”بولا لیلی“ ۔
کسی نے کہا کہ لیلی مر گئی ۔ اس نے کہا یہ کیسے ہو سکتا ہے۔؟
وہ تو میرے دل میں ہے ، میں ہی لیلی ہوں

آج کل کتنے عاشق  ، مجنوں اپنے دلوں میں اپنی اپنی لیلی کا چہرہ بسائے ہوئے زندگی گزار رہے ہیں  اور اپنے دلوں کو یادِ خدا سے غافل کیا ہوا ہے جس خدا نے ان کو زندگی دی ماں کے پیٹ میں نو ماہ حفاظت کے ساتھ رکھا اور پھر اس اندھیرے سے نکال کر دنیا کے روشنی میں لایا اور عنقریب ایک وقت آنے والا ہے کہ دنیا سے رخصتی ہونا ہے اور قبر کے پیٹ میں چلے جانا ہے وہاں دل کی بات زبان پر جاری ہوگی ۔

ترجمہ:۔
   اور سینوں میں جو کچھ ہے اسے ظاہر کیا جائے گا
(سورت العادیات)

جو لوگ عشق مجازی میں مبتلا ہو کر دنیا سے چلے جاتے ہیں ان کا ٹھکانہ جہنم ہے۔
اک اللہ والے فرماتے ہیں کہ عشق مجازی اک عذاب ہے اگر کسی کو مردود کرنا ہو تو اللہ اس کو عشق مجازی میں مبتلا کر دیتا ہے
ایک بہت بڑے اللہ والے تھے چالیس سال تک ایک مسجد میں موذن رہے مسجد میں آذانیں دیتے رہے اک دفعہ آذان دے رہے تھے اور مسجد کے پہلو میں ایک عیسائی کا گھر تھا اور چھت سے اس کی بیٹی کو دیکھ لیا بس اس کی عشق میں مبتلا ہو کر اس کے گھر چلے گئے 
اور اسی کے عشق میں پہلے اسلام چھوڑا اسی کے کہنے پہ خنذیر کا گوشت کھایا اور شراب پی اور اس کے نشہ میں چھت پہ چڑھا اور وہاں سے گھر کر مردار کی موت دنیا سے چلے گے۔

اس کے بر عکس عشق حقیقی رحمت اور اللہ کا خصوصی انعام ہوتا ہے۔
غیر اللہ کو اپنے دل سے نکال کر اپنے رب کی یاد کو دل میں بسانے کا نام عشق حقیقی ہے۔
اللہ اپنے خاص بندے کو اس  نعمت سے نوازتے ہیں ۔ اللہ کا اپنے ان بندوں پر خصوصی کرم ہوتا ہے کہ اپنی محبت کا خزینہ ان کو دیا ہے ۔
اپنی نفسیانی خواہشات کو اللہ کے لیے ترک کرنا اور  ہر حال میں اپنے اللہ کے حکم کو پورا کرنے کا نام عشقِ الہی ہے۔
 ترجمہ :
“اور جو ایمان لانے والے ہیں وہ اللہ سے شدید محبت کرتے ہیں”
(القران)
 اس آیت سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ کے عاشق اللہ کو ہر حال میں چاہتے ہیں۔  ہر حال میں ان کے دل و زبان پر یادِ الہی رہتی ہے۔ 
 حضرت بلال رض ایسے عشق ِ حقیقی اور حبیبی مستفرق تھے کہ امیہ بن خلف اور اس کے آدمی  ان پر بہت ظلم کیا کرتے دوپہر کے وقت ان کو تپتی ہوئی ریت پہ لٹایا جاتا اور سینے پر بڑا پتھر رکھا جاتا تانکہ یہ ہل نہ سکے اور ان کے اردگرد آگ لگا دی جاتی اور ان کے جسم کو نوکیلے کانٹے سے نوچتے تھے ۔  تیز  آگ کی تپش کی وجہ سے حضرت بلال رض کا کلیجہ منہ کو آ جاتا اور کافروں کی چاہت تھی کی وہ اپنے دین سے ہٹ جائیں ان سے ایک ہی سوال کرتے بتا تیرا رب کون ہے ؟
جواب میں آپ رض  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!۔
احد ۔۔۔۔۔۔۔۔احد ۔۔۔۔۔احد۔۔۔۔۔۔۔۔۔کا مستانہ نعرہ لگاتے تھے۔۔
اللہ کے ہاں  پھر ان کا ایسا مقام بنا کہ مکہ کی گلیوں میں چلتے تھے  اور قدموں کی آہٹ عرش پہ سنائی دیتی تھی۔ جو شحض عشق الہی میں مبتلا ہو گا اللہ کی مدد اور نصرت ہمیشہ اس کے ساتھ ہو گی ۔  ہمارے جسم کے تمام اعضاء عشقِ الہی اور عشق ِ حبیبی  میں مبتلا ہوں ۔  یہ بیماری ہمارے سارے جسم میں پھیلی ہو۔ اس کے اثرات جسم کے ہر اعضاء پر ہوں ۔ ہماری آنکھیں عشق الہی میں مبتلا ہو ، ہماری زبان ،  ہمارے کان ، ہاتھ اور ہمارا دل  یعنی جسم کا ہر اعضاء عشق ِ الہی میں مبتلا ہو جائے۔ کان سے وہ سنیں جو اللہ کا حکم ہو وہ نہ سنیں جس سے اللہ اور اس کے رسول نے منع کیا ہو۔ آنکھ سے وہ دیکھیں جس کا حکم ہو اور ہماری نظر ادھر نہ اٹھے جہاں پہ اٹھانے سے اللہ اور اللہ کے رسول نے منع کیا ہے۔۔
فرمایا……!
   نظر شیطان کے تیروں میں سے اک تیر ہے جس چیز پہ پڑتی ہے اس کا عکس دل میں آ جاتا ہے۔
اگر ہم اس کو غلط استعمال کریں گے تو غلط اور گندے قسم کے عکس ہمارے دل میں آئیں گے۔ اور جو جگہ گندہ ہو جائے وہاں پاک چیز نہیں رکھی جاتی تو دل میں خدا رہتا ہے اگر دل گندہ ہوا تو اللہ کی ذات دل میں کیسے آئے گی۔  اور  اپنے دل کو ہر وقت یادِ الہی میں ہمیشہ مشغول رکھنا چاہیے تانکہ کینہ ، بخض ، حسد جیسی مہلک بیماروں سے دل کو بچایا جائے۔ ۔
جب ہم اللہ کی مان کر زندگی گزاریں گے  (عشقِ الہی)  تو ہماری دنیا بھی بنے گی اور آخرت بھی سنور جائے گی۔ اللہ والے اک لمحہ بھی یاد الہی سے غافل نہیں رہتے اور ان کو اس میں سکون ملتا ہے۔

کتنی تسکین ہے وابستہ تیرے نام کے ساتھ
نیند کانٹوں پہ بھی آجاتی ہے آرام کے ساتھ

عشق الہی جس کو عطا ہو جائے تو دنیا کی پھر ساری دولت ، طاقت ساری خوشیوں کو وہ ترک کر دیتا ہے۔ اس کو پھر دنیا کے غم میں بھی مزہ آتا ہے ۔ یہ عاشق بظاہر  غم زدہ  ہوں گے لیکن ان کے دلوں  میں سکون ہوتا ہے اور دنیا دار بظاہر خوشحال نظر آتے ہیں لیکن اندر سے ان کے دل بے چین اور ٹوٹے ہوتے ہیں۔
اللہ ہم سب کو عشق الہی عطا کرے۔

@EKohee

Leave a reply