مظلوم کی فریاد تحریر : بشارت حسین

0
90

کہا جاتا ہے کہ مظلوم کے دل سے نکلی آہ عرش کو ہلا دیتی ہے۔
ظالم سماج ہر چہرہ دکھی ہے انسان ہی انسان کا دشمن بنا پھرتا ہے۔ دولت مند کی گردن غروروتکبر سے اکڑی ہوئی ہے سر اٹھا کر ایسے چلتے جیسے زمین پہ ہر شے انکی ماتحت ہے۔
کہیں گاوں کا وڈیرہ سسٹم غریب کے گلے کی ہڈی بنا ہوا ہے تو کہیں پولیس کے بھیس میں چھپی کالی بھیڑیں انسانیت سے عاری کمزور طبقے کیلئے درد سر بنی ہوئی ہیں۔
کسی کو کوئی خوف خدا نہیں کسی کو یہ یاد نہیں کہ اللہ دیکھ رہا ہے انکے مظالم کو۔ مظلوم کی فریاد کو مظلوم کے دل سے نکلے تیر کو جو کہ محو سفر ہے کب ظالم اور اسکی خوشیوں کے درمیان حائل ہو جائے معلوم نہیں۔
سب کچھ بھولا ہوا ہے ہر سبق انسانیت کا بھولے ہوئے ہیں کچھ بھی نہیں یاد۔
محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا دیا ہوا انسانیت کا درس ہمارے پلے نہیں پڑا اس کو محض انکی زندگی کی خوبصورتی اور اعلی اخلاق کی تعریف تک محدود کر دیا۔
اب کہاں جائیں وہ مظلوم؟
کس سے اپنی فریاد کریں؟ کس کو اپنی آپ بیتی سنائیں؟ کس کو بتائیں کہ انکی بھوک کو کس طرح انکی کمزوری بنا کر ان سے نیچ کام کروائے گئے؟
کہاں ہے وہ عدالتی نظام جس میں مظلوم کی دادرسی کی جاتی تھی۔ جہاں مظلوم کو انصاف ملتا تھا ظالم کو سزائیں دی جاتی تھیں۔ لوگ عبرت پکڑتے تھے ظالم ظلم کرنے سے ڈرتا تھا۔ اب معاشرے میں یہ خوف کہاں؟ اب تو آزادی ہے کچھ بھی کر لو سب بازار میں خرید و فروخت کی طرح بک رہا ہے انصاف بک جاتا ہے گواہ بک جاتے لوگوں کی خوشیاں، غم سب کی بولی لگ جاتی کوئی پوچھنے والا نہیں۔
طاقتور اور دولت مند کو انصاف بھی ملتا ہے چھوٹیں بھی مل جاتی انکے قرضے بھی معاف ہو جاتے ہیں
لیکن
غریب کو کیا ملتا ہے تھانے کچہریوں کے چکر ؟
پولیس کی جھڑکیں عدالتوں کے چکر لمبی تاریخیں اور آخر میں جب سب بک جاتا ہے تو عدم ثبوت کی بنا پر مجرم بری اور مظلوم کی عزت نیلام ہو جاتی ہے۔
آخر ایسا کیوں اور کب تک؟
والدین اپنی بچی کیلئے اچھا رشتہ تلاش کرتے ہیں بڑی چھان بین کے بعد رشتے طے ہوتے ہیں خوشیاں منائی جاتی ہیں مٹھائیاں تقسیم کی جاتی ہیں۔ جہیز کیلئے اپنی ساری جمع پونجی خرچ کر دی جاتی ہے بچی کو خوش دیکھنے کیلئے آنے والا وقت اس کا اچھا گزرے ہر چیز لائی جاتی ہے پیسے کم پڑ جائیں تو قرض لیا جاتا ہے حتی کہ کچھ اپنا قیمتی سرمایا مکان تک گروی رکھ دیا جاتا ہے بیچ دیا جاتا ہے۔
لیکن جب شادی ہو جاتی ہے تو وہ لڑکی سسرال میں ایسے جاتی ہے جیسے کسی خطرناک جیل میں کوئی خطرناک قیدی پہنچ گیا ہو اسکی زندگی کو عذاب بنا دیا جاتا ہے خاموشی سے ظلم سہتی ہے والدین کو بھی پتا نہیں چلتا کہ بچی کو کس جانور سے باندھا ہے انھوں نے۔
آنے والا کل اچھا ہو گا اس امید سے وہ اپنے دن گزارتی ہے رو لیتی ہے چھپ کر صبر کر لیتی ہے لیکن جب یہ ظلم بڑھ جاتا ہے اس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو جاتا ہے تو آخر دل سے ایک آہ ایک تیر نکلتا ہے پھر اس قید خانے کا ہر باسی ہر ظالم اپنے انجام کی طرف جاتا ہے۔
طاقتور طاقت کے نشے سے چور اپنے ظلم کی داستانیں رقم کر رہا۔
سیاستدانوں کی اپنی بدمعاشیاں ہیں آخر مظلوم کہاں جائے پھر کس سے انصاف مانگے؟
ظلم کا دورانیہ لمبا ہو سکتا ہے لیکن ہمیشہ قائم نہیں رہ سکتا۔ ظالم کو اللہ کی طرف سے چھوٹ نہیں ہو سکتی رسی ڈھیلی ہو سکتی ہے لیکن وہ دیکھتا ہے اور جب وقت آ جاتا ہے تو کھینچ لی جاتی ہے رسی پھر سب کچھ ڈھیر ہو جاتا ۔
کمزور اور طاقتور سب کو اللہ نے پیدا کیا اس نے یہ سب انسان کی آزمائش کیلئے رکھا کون کس طرف چلتا ہے کون اپنی طاقت کا جائز استعمال کرتا ہے اور کون ناجائز استعمال کرتا ہے۔
آخر طاقت ختم ہو جاتی ہے جب محتاج کر دیا جاتا ہے پھر سب سمجھ آ جاتی ہے لیں وقت گزر چکا ہوتا۔
دولت، طاقت اور عہدے سب عارضی ہیں دائمی کچھ نہیں ہمیشہ رہنے والی ذات اللہ کی ہے انصاف اس کے ہاں نہیں بکتا نہ سفارشیں کام آتی ہیں نہ خاندانی برتریاں
وہاں انصاف ہوتا ہے مظلوم کی اپنی جاتی ہے ظالم پکڑ میں آ جاتا ہے پھر سب یاد کروایا جاتا ہے جو بھولا ہوتا ہے۔
اولاد جب نافرمان ہو جاتی ہے جوانی میں آ کر وہ اپنے خون کی گرمی کی وجہ سے یہ بھول جاتے ہیں کہ انکے والدین کا جسم کا خون انکی زندگی بناتے بناتے ٹھنڈا ہوا ہے جب والدین کو کہتے ہیں کہ تم نے ہمارے لیے کیا کیا تو پھر
والدین کے دل پہ کیا گزرتی ہے کیسے وہ سنبھالتے ہیں خود کو؟
برداشت کرتے ہیں وہ بچے کے اس ظلم کو بھی کہ کہیں ہماری آہ نہ لگ جائے لیکن جب برداشت ختم ہو جاتی ہے اور ظلم بڑھ جاتا ہے بات بات پہ ان کو طعنے ملتے ہیں رسوا کیا جاتا ہے تو آخر انکے حصے میں بھی یہ عذاب لکھ دیا جاتا ہے وہ بھی اپنے کیے کو بھگتنا شروع ہو جاتے ہیں
کیوں کہ اب انکی زندگی میں والدین کی آہ کا تیر لگ چکا ہوتا ہے انکی خوشیوں میں ایک زہر آلودہ آہ شامل پو جاتی ہے۔
زندگی انکیلئے بوجھل ہو جاتی ہے خوشیاں روٹھ جاتی ہیں
پھر سمجھ آتی ہے لیکن دیر ہو جاتی ہے بہت دور ہو جاتا ہے سب کچھ بہت دور۔
اللہ نے اگر دولت دے دی طاقت دے دی عہدہ دے دیا تو یہ سب اللہ کا انعام ہے اس کا شکر ادا کرو۔
اس کا اصل شکر یہ ہے کہ اس کو اسکی مخلوق کی بھلائی کیلئے استعمال کرو
نہ کہ مخلوق کو بتاو کہ میں ہی سب کچھ ہوں۔
نہیں ایسا نہیں سب کچھ اللہ کا ہے اس نے جس کو دیا آزمانے کیلئے دیا وہ لے بھی سکتا کسی اور کو بھی دے سکتا ہے
بس جب تمہیں دیا تو پھر یاد رکھنا کہ وہ لوگوں کی آہوں کا سبب نہ ہو بلکہ دعاوں کا سبب
Live_with_honor @

Leave a reply