اسلام میں بھیک مانگنے کی مزمت تحریر: صلاح الدین

0
60

بھیک مانگنے کی جس قدر مزمت اسلام میں کی گئی ہے شاید ہی کسی اور مذہب میں اس کی اس قدر برائی کی گئی ہو۔ جہاں تک ممکن ہو سائل کو سوال کرنے سے روکا جاۓ اور مانگنے کی برائی اور محنت و مشقت کی خوبی اس پر واضح کی جاۓ۔

اس زمانے کے گداگروں کی ڈھٹائی اس قدر بڑھ چکی ہے کہ کسی ممانعت کا ان پر اثر نہیں ہوتا۔ موجودہ حالات میں ہمارے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ غیر مستحق سائلوں کی داد رسی ہر گز نہ کی جاۓ اور جہاں تک ہو سکے مستحقین کی مدد کی جاۓ جو باوجود مستحق ہونے کے کسی سے سوال نہیں کرتے یا جو سخت مجبوری اور ناداری کی حالت میں مانگنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ غیر مستحق مانگنے کے ساتھ کوئی سلوک اور کوئی بھلائی اس سے بڑھ کر نہیں ہوسکتی کہ ان کو اس پیشے سے باز رکھا جاۓ۔

ملک و قوم کے حق میں اس بڑا احسان اور کوئی نہیں ہو سکتا کہ بھیک مانگنے کا پیشہ جو کہ ایک بیماری کی طرح افراد و قوم میں سرایت کرتا جا رہا ہے اور روز بروز بھیک مانگنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے اس کی روک تھام کی جاۓ-

علامہ مقری تاریخ اندلس میں لکھتے ہیں کہ اندلس میں جس سائل کو تندرست اور کام کے لائق دیکھتے ہیں اس کو شرم دلاتے ہیں اور سخت سست کہتے ہیں اسی کا نتیجہ ہے کہ یہاں اپاہج اور معذور آدمی کے سوا کوئی سائل نظر نہیں آتا۔ افسوس کے کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے ملک میں جس قدر مسلمان بھیک مانگتے نظر آتے ہیں اس قدر کسی قوم میں نظر نہیں آتے۔

بحیثیت پالستانی شہری ہمارا فرض ہیکہ ایسے لوگوں کی سخت مزمت کی جاۓ جو غیر مستحق ہیں اور پھر بھی بھیک مانگتے ہیں ایسے لوگوں کی ہر گز مدد نہ کی جاۓ بلکہ ان کو برا بھلا کہا جاۓ تاکہ یہ لوگ اس پیشے کو چھوڑ کر محنت مزدوری کرکے اپنے لیے روزی کما سکیں۔

مستحقین کی مدد کی جاۓ تاکہ وہ کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے پر مجبور نہ ہوں ان کی مدد ان کی گھر کی دہلیز پر جا کے کی جاۓ کیونکہ ایسے لوگ کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے کو برا سمجھتے ہیں

Twitter ID: @Salahuddin_T2

Leave a reply