اسلام اور ہمارا کردار تحریر:کرنل ریٹائرڈ افتخار نقوی

0
28

آجکل ہمارے معاشرے میں مغرب سے ایک نیا شوشہ چھوڑا گیا ہے جس سے اسلام میں تقسیم کی جا رہی ہے۔ لبرل اسلام، متشدد اسلام، متوازن اسلام وغیرہ جو لایعنی اور لغو باتیں ہیں۔ دین اسلام یا تو قبول کیا جاتا ہے یا نہیں قبول کیا جاتا۔ اس میں دو رائے نہیں کہ ایسی فضول تقسیم سے مسلم امہ اپنے آپکو متوازن مسلمان بنانے کے چکر میں لغویات میں کھونا شروع کر دیتے ہیں۔
اسلام کا لفظ "س- ل- م” سے مشتق ہے جس کے معنی صحت، عافیت اور ہر قسم کی عیب، نقص اور فساد سے دوری کے ہیں۔
نیز اسلام کا ایک معنی بغیر کسی قید و شرط کے مکمل اطاعت اور فرمانبرداری بھی ہے اسی طرح خدا کے حکم پر کامل یقین اور اس کی عبادت میں اخلاص رکھنے کو بھی اسلام کہا جاتا ہے۔
یعنی اگر ایک شخص اسلام قبول کر لے لیکن احکاماتِ اسلام سے منحرف ہو تو یا تو گناہگار تصور کیا جائے گا یا پھر دائرہ اسلام سے خارج۔ مثلا” ایک شخص نماز کو فرض تو سمجھتا ہے لیکن سستی، کاہلی، مصروفیت، طہارت وغیرہ کو بہانہ بنا کر نماز سے دور رہے تو اسے گناہگار تصور کیا جائیگا لیکن اگر نماز سے انکار کرے یا فرض نہ مانے تو ایسا شخص دائرہ اسلام میں نہیں رہتا۔
کسی شئے کو حلال یا حرام ماننا اور اس کو اپنانا یا دور رہنا بھی اسی مثال کی طرح احکامات پر عمل کرنا ہے۔ اسلام میں انسان کے کردار کی اہمیت کو سب سے زیادہ اہمیت دی گئی ہے۔ جیسے ایک شخص روزہ دار ہو تو اس کے روزے کا علم فقط اللہ کو ہوتا ہے یا روزہ دار کو خود علم ہوتا ہے۔ قریب ترین شخص بھی اس کے روزے پر گواہ نہیں ہو سکتا۔ بالکل اسی طرح نماز کیلئے طہارت و وضو کرنا اور پھر خلوت میں نماز ادا کرتے ہوئے فقط اللہ سبحانه وتعالى کے حضور ہوتا ہے۔ کیسے ادا کی، کتنا خشوع و خلوص تھا، یہ بھی اللہ ہی گواہ ہے ناکہ کوئی دوسرا۔ یہ فقط نمازی کے کردار پر منحصر ہے کہ وہ کیسے ادا کرے۔ خیانت کرنے والے کو اللہ ڈھیل دیتا ہے مگر ایک دن اس سے جواب لازمی طلب ہو گا۔

اسلام میں جو کچھ ہم کرتے ہیں، سونا، اٹھنا، بیٹھنا، چلنا پھرنا، آنکھ کا استعمال، ہاتھ کا استعمال، زبان کا استعمال، کان کا استعمال وغیرہ۔۔۔ سبھی پر سوال ہوگا۔

کردارسازی ماں کی گود سے ہوتی ہے۔ اگر کسی انداز سے ماں باپ بچے کو دھوکہ دہی، جھوٹ بولنا سکھاتے ہیں تو یوں اس بچے کا کردار بنیاد سے تباہ ہو جاتا ہے۔ جیسے کئی بار مشاہدہ میں آتا ہے کہ کوئی مہمان ضرورتمند آجائے تو صاحبِ خانہ ملاقات کسی وجہ سے نہ کرنا چاہیں تو اپنے بچوں کے ذریعہ کہلوا بھیجتے ہیں، "انکل! ابو گھر پر نہیں ہیں۔ آپ بعد میں آ جائیں۔” وغیرہ۔

ایک باپ یا ماں اپنے بچے کی تربیت کیلئے ماڈل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اگر بچپن سے ہی ایسے کبیرہ گناہوں کو عملی سبق بنا کر بچوں کو سکھایا جائیگا تو بچے جھوٹ بولنے کو کبھی غلط نہیں مانیں گے۔ یہ وہ بنیادی معاملہ ہے جس کی وجہ سے تمام بچے بڑے ہوکر جھوٹ بولنا عام سے بات سمجھتے ہیں۔ یہی بچے جو کل بڑے ہوکر ملک کی قیادت سنبھالتے ہیں، سیاستدان، ڈاکٹر، انجینئر، سرکاری افسران، حکام، عمال، حتاکہ عام مزدور بھی بنتے ہیں تو سب کا اگر کردار جھوٹ کی بنیاد پر تعمیر کیا گیا ہو تو آپ سمجھ سکتے ہیں کہ ان عہدوں پر بیٹھ کر جھوٹ سچ ملا کر کیسے عوام کو بےوقوف بنایا جاتا ہے۔

اسی طرح رشوت بھی خاص دخل رکھتی ہے ہماری زندگی میں۔ بچوں کو سکول بھیجنے کیلئے، کسی کام کے کرنے کیلئے اکثر دیکھا گیا ہے کہ والدین لالچ دیتے ہیں کسی انعام کا۔ اب جب بچونکو بچپن سے ہی لالچی بنا دیا جائے اور انعام کے نام پر رشوت کی برائی سے آشنا کر دیا جائیگا تو سوچئے کہ وہی بچے معاشرے میں بڑے ہوکر اہم منصب پر بیٹھ کر کیسے تباہی لاتے ہیں۔
اسلام ہر ایسے عمل سے روکتا ہے۔ اسلام میں اگرچہ بظاہر لالچ نظر آتا ہے کہ صالح لوگوں کیلئے جنت کی لالچ اور بدعنوان لوگوں کیلئے جہنم کا خوف رکھا گیا ہے۔ لیکن وہ وعدے اس دنیا کیلئے نہیں بلکہ ابدی زندگی کیلئے ہیں۔
بنیادی عبادات کو لالچ اور خوف سے پاک رکھنے کی ترغیب دی گئی ہے۔ جیسے حضرت علی علیہ السلام کا مشہور فرمان ہے، "میں اپنے رب کی عبادت نہ تو جنت کی لالچ میں کرتا ہوں اور نہ ہی جہنم کے خوف سے بلکہ وہ وحده لاشريك اس لائق ہے کہ فقط اس کی عبادت کی جائے۔” اس پیغام میں بہت بڑی حکمت پوشیدہ ہے۔ یہ لالچ اور خوف کو عبادت سے رد کرنے کا نظریہ ہے۔ عبادت اگر خالص نہ ہو تو کردارِ عبادت اور کردارٍ عبد دونوں ہی مشکوک ہو جاتے ہیں۔
اسلام فقط دینِ عبادت بھی نہیں۔بلکہ دینِ اسلام مکمل ضابطہُ حیات ہے۔ اس میں معاشرت سے لیکر اخلاقیات، سیاست سے لیکر معاشیات تک ہر شئے کا نظام موجود ہے۔ اسلام قبول کرنے والے کسی ایک کو قبول اور باقی کو رد کرنے کی نہ تو طاقت رکھتے ہیں اور نہ ہی اہلیت۔ لازم ہے اسلام میں پورے کے پورے داخل ہو جائیں۔ یہی قرآن میں اللہ ارشاد فرماتا ہے:

يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِى السِّلْمِ کَاۤ فَّةً ۖ وَّلَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّيْطٰنِ ۗ اِنَّهٗ لَـکُمْ عَدُوٌّ مُّبِيْنٌ
البقرۃ (٢:٢٠٨)

ترجمہ: اے ایمان والو اسلام میں پورے پورے داخل ہو جاؤ اور شیطان کے قدموں کی تابعداری نہ کرو وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔

یہاں پورے پورے داخل ہونے سے مراد یہی ہے کہ احکاماتِ الہی کو جوں کا توں بغیر حیلہ و حجت تسلیم کیا جائے۔ احکامات میں تدبر اختیار کرنے کا حکم نہیں، کہ انسان اپنی مرضی سے کسی عمل کو بدلنے کی کوشش کرے۔ مثلا” اگر فجر کی دو رکعت رکھی ہیں تو کوئی مواحد یہ چاہے کہ وہ چار رکعت پڑھے تو نماز باطل ہے۔
اسلام میں سب کے فرائض موجود ہیں، اور دوسروں کو دینے کیلئے حق بھی بتا دیے گئے ہیں۔ فرائض کیلئے کسی کو انتظار نہیں کرنا چاہیے بلکہ وقت افضل میں ادا کر لے تو مناسب ترین ہے۔ جبکہ حق ادا کرنا بھی اسی طرح فرض اولین ہے، کہ کوئی حق مانگے، اس سے پیشتر ہی حق ادا کر دیا جائے۔
آج ہم جس معاشرے میں جی رہے ہیں وہاں تربیت کا فقدان ہی اس لئے ہے کوئی کام بھی ہم فرض جان کر نہیں کرتے، اور دوسروں کو حق ناصرف روک لیتے ہیں بلکہ انکی حق تلفی کرتے ہیں جو اسلام کی بنیادی تعلیمات کے منافی ہے۔
اگر ہم اپنے فرائض سرعت سے انجام دیں تو حق ہمیں خود بخود ملیں گے۔ لیکن ہمارے یہاں تو گنگا ہی الٹی بہتی ہے۔ ہمارا حق دو جبکہ فرائض کی ادائیگی کیلئے کوئی تیار نہیں۔
قارئین کرام! اگر ہم اپنے بچوں کی تربیت گھروں میں درست راہ پر کرنا شروع کر دیں تو یقین جانیں ہمارا معاشرہ جنت بن سکتا ہے۔ یہ موضوع بہت طویل اور وقت قلیل ہے۔ مجھے ڈر ہوتا ہے کہ میرے قارئین مضمون کی طوالت سے اپنی دلچسپی چھوڑ بیٹھیں۔ لیکن اہم پیغام یہی ہے کہ تمام احباب کو اپنی سعی کرنا ہے تاکہ ہم معاشرے میں اپنا کردار احسن اور مثبت انداز میں ادا کر سکیں۔
والسلامُ عليكم ورحمة الله وبركاته
لاہور
٤ ستمبر ٢٠٢١ء

Leave a reply