ایون فیلڈ ریفرنس ،نواز شریف کو اسلام آباد ہائیکورٹ نے بری کر دیا

0
128
nawaz

اسلام آباد ہائیکورٹ،سابق وزیراعظم نواز شریف کی العزیزیہ اور ایون فیلڈ ریفرنسز میں اپیلوں پر سماعت ہوئی

نواز شریف کے خلاف صرف آخری مقدمہ العزیزیہ ریفرنس میں سزا باقی رہ گئی،نواز شریف کو انتخابی سیاست کے لیے العزیزیہ ریفرنس میں 20 دسمبر سے پہلے بری ہونا ہوگا ،نواز شریف پانامہ کیسز کے تین ریفرنسز میں سے دو میں کلئیر ہوگئے،نواز شریف ایون فیلڈ ریفرنس میں بری جبکہ فلیگ شپ ریفرنس میں نیب نے اپیل واپس لے لی ،اسلام آباد ہائیکورٹ نے العزیزیہ ریفرنس میں نواز شریف کی اپیل پر سماعت ملتوی کردی،عدالت نے رجسٹرار آفس کو العزیزیہ ریفرنس میں نواز شریف کی اپیل کو تاریخ دینے کی ہدایت کی ،آئندہ عام انتخابات کا شیڈول دسمبر کے دوسرے ہفتے میں جاری ہوگا ،8 فروری کے انتخابات کے لیے امیدواروں کو دسمبر کے تیسرے ہفتے تک کاغذات نامزدگی جمع کرانے ہوں گے،نواز شریف کی تاحیات نااہلی الیکشن قانون میں تبدیلی سے ختم ہوگئی

نیب کی العزیزیہ ریفرنس میں نواز شریف کی سزا بڑھانے اور فلیگ شپ ریفرنس میں بریت کے خلاف اپیل پر بھی سماعت ہوئی،اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نےسماعت کی،نواز شریف عدالت میں پیش ہوئے، نواز شریف کی قانونی ٹیم بھی عدالت میں پیش ہوئی،نواز شریف کی پیشی سے قبل اسلام آباد ہائیکورٹ کے اطراف میں سیکورٹی سخت کی گئی تھی،پانچ سو کے قریب اہلکار سیکورٹی کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں ،اسلام آباد کے پولیس کے ساتھ ایف سی اہلکار کے اہلکار بھی موجود ہیں،اسلام آباد ہائیکورٹ کی عمارت پر رینجرز اہلکار تعینات ہیں،نواز شریف کی پیشی سے قبل خواتین اہلکار بھی تعینات کی گئیں.

نواز شریف کے وکیل امجد پرویز ایڈوکیٹ نے کہا کہ آج میں عدالت کے سامنے فرد جرم کے بعد کی کارروائی پر دلائل دوں گا، مریم نواز اور کپٹن ریٹائرڈ صفدر پر نواز شریف کی اعانت جرم کا الزام تھا،عدالت نے نواز شریف کے دونوں شریک ملزمان کی اپیل منظور کر کے بری کیا،اسلام آباد ہائیکورٹ سے شریک ملزمان کی بریت کا فیصلہ حتمی صورت اختیار کر چکا ہے، احتساب عدالت نے ایون فیلڈ ریفرنس میں نواز شریف کو سیکشن 9 اے سے بری قرار دیا تھا، اس کیس میں اب بس سیکشن 9 اے 5 بچا ہے جو آمدن سے زائد اثاثہ جات سے متعلق ہے،

وکیل امجد پرویز نے نیب آرڈیننس کا سیکشن 9 اے 5 پڑھ کر سنایا اور کہا کہ سیکشن 9 اے 5 کے تحت استغاثہ کو کچھ حقائق ثابت کرنا ہوتے ہیں، سیکشن 9 اے 5 کا تقاضہ ہے کہ ملزم کو پبلک آفس ہولڈر ثابت کیا جائے، سیکشن 9 اے 5 کا تقاضا ہے کہ ملزم کو بے نامی دار ثابت کیا جائے، سیکشن 9 اے 5 کا تقاضا ہے کہ ثابت کیا جائے کہ ملزم کے اثاثے اس کے آمدن کے ذرائع سے مطابقت نہیں رکھتے،نیب آرڈیننس میں بے نامی دار لفظ کی تعریف کی گئی ہے،جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ میرے خیال میں سزا معطلی بھی اسی بنیاد پر ہوئی تھی،سزا معطلی کے فیصلے میں ہم نے سپریم کورٹ کے متعدد فیصلوں کا سہارا لیا تھا،بعد ازاں سپریم کورٹ نے اپنے فیصلوں میں مزید وضاحت کی ہے اس پر ہماری معاونت کریں

وکیل امجد پرویز نے کہا کہ تحقیقاتی ایجنسی نے اثاثوں کے حصول کے وقت معلوم ذرائع آمدن سے متعلق تحقیقات کرنا ہوتی ہیں،معلوم ذرائع آمدن کا اثاثوں کی مالیت سے موازنہ کرنا ہوتا ہے، یہ مقدمہ ایسا ہے جس میں اس کے مندرجات ہی ثابت نہیں کیے گئے، انہوں نے جرم کے تمام جز ثابت کرنے تھے، نہیں کیے،امجد پرویز نے نواز شریف کے اثاثوں کی تفصیلات بمع تاریخ عدالت میں جمع کرا دیں،اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ یہ اثاثہ جات ایک ہی وقت میں آئی ہیں یا الگ الگ؟ وکیل امجد پرویز نے کہا کہ 1993 سے 1996 کے درمیان یہ پراپرٹیز آئی ہیں، پورے ریفرنس میں نواز شریف کا ان پراپرٹیز سے تعلق لکھا ہی نہیں ہوا، اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ کیا پراسیکیوشن نے ریفرنس میں لکھا ہے کہ نواز شریف نے یہ پراپرٹیز کب لیں؟ وکیل امجد پرویز نے کہا کہ پورے ریفرنسز میں نواز شریف کا ان پراپرٹیز سے تعلق جوڑنے کا کوئی ثبوت موجود نہیں،اس کے بعد یہ بات سامنے آنی تھی کہ اثاثوں کی مالیت آمدن سے زائد ہے یا نہیں،اس تقابلی جائزے کے بغیر تو آمدن سے زائد اثاثے بنانے کا جرم ہی نہیں بنتا،نیب انویسٹی گیشن، جے آئی ٹی یا سپریم کورٹ کے فیصلے میں پراپرٹیز کی مالیت کا تعین موجود نہیں جو پراپرٹیز کی مالیت کا تعین یا نواز شریف کا پراپرٹیز سے تعلق ثابت کرتی ہو. واجد ضیاء سٹار گواہ تھا اس نے بھی یہ بات مانی کہ ایسی کوئی دستاویز موجود نہیں تھی. فرد جرم عائد کرتے وقت یہ بات بتائی جاتی ہے کہ آپ کے اثاثے ظاہر کردہ اثاثوں کے مطابق نہیں، اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ریفرنس تو ہے بھی بس تین چار صفحوں کا ہی ہے،وکیل امجد پرویز نے کہا کہ نواز شریف کی ان پراپرٹیز سے تعلق جوڑنے کیلئے کوئی شہادت موجود نہیں،

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے استفسار کیا کہ پراسیکیوشن نے سب سے پہلے کیا ثابت کرنا ہوتا ہے؟ وکیل امجد پرویز نے کہا کہ پراسیکیوشن نے سب سے پہلے ملزم کو پبلک آفس ہولڈر ثابت کرنا ہوتا ہے، اُس کے بعد پراسیکیوشن نے زیرکفالت اور بےنامی داروں کو ثابت کرنا ہوتا ہے،پراسیکیوشن نے پھر آمدن سے زائد اثاثوں کا تعین کرنا ہوتا ہے، پراسیکیوشن نے ذرائع آمدن کی اثاثوں سے مطابقت دیکھنی ہوتی ہے، نیب میاں نواز شریف پر لگائے گئے الزامات میں سے ایک بھی ثابت نہیں کر سکا،سب سے اہم بات ان پراپرٹیز کی آنرشپ کا سوال ہے،نہ تو زبانی، نہ دستاویزی ثبوت ہے کہ یہ پراپرٹیز کبھی نواز شریف کی ملکیت میں رہی ہوں، استغاثہ کو یہ ثابت کرنا تھا کہ مریم نواز، حسین نواز اور حسن نواز، نواز شریف کی زیر کفالت تھے، بچوں کے نواز شریف کی زیر کفالت کا بھی کوئی ثبوت موجود نہیں، ان تمام چیزوں کو استغاثہ کو ثابت کرنا ہوتا ہے، ان چیزوں کا بار ثبوت دفاع پر کبھی منتقل نہیں ہوتا، کوئی ثبوت نہیں کہ پراپرٹیز نواز شریف کی ملکیت یا تحویل میں رہیں، اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ یہ سارا پراسیکیوشن کا کام ہے؟وکیل امجد پرویز نے کہا کہ جی بالکل یہ سب استغاثہ نے ثابت کرنا ہوتا ہے،

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے نیب سے استفسار کیا کہ کیا آپ یہ نوٹ کر رہے ہیں؟ یہ بڑی اہم باتیں کر رہے ہیں،نیب وکیل نے کہا کہ جی سر میں نوٹ کر رہا ہوں،جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ آپ کے ہاتھ میں تو قلم ہی نہیں ہے، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب کے ریمارکس پر عدالت میں قہقہے گونج اٹھے،وکیل امجد پرویز نے کہا کہ استغاثہ کو پبلک آفس اور جرم میں گٹھ جوڑ بھی ثابت کرنا ہوتا ہے،استغاثہ کو ثابت کرنا ہے کہ پبلک آفس کیسے بینامی جائیداد بنانے کیلئے استعمال ہوا، استغاثہ کو مندرجات ثابت کرنے ہوتے ہیں، اس کے بعد بار ثبوت ملزم پر منتقل ہوتا ہے، کورٹ نے مفروضے پر سزا دی اور فیصلے میں ثبوت کے بجائے عمومی بات لکھی، عدالت نے کہا کہ مریم نواز بینفشل اونر تھیں اور نواز شریف کے زیر کفالت بھی تھیں،لکھا گیا کہ بچے عمومی طور والد کے ہی زیرکفالت ہوتے ہیں، لاہور ہائی کورٹ نے ایک نیب کے ملزم انٹیلیجنس بیورو کے سابق سربراہ بریگیڈئیر ریٹائرڈ امتیاز کو بری کیا ،اس بنیاد پر بریت ہوئی کہ نیب نے ملزم کی مبینہ جائدادوں کی قیمت اور ملزم کی آمدن کا تعین کئیے بغیر ہی اُس پر ریفرنس دائر کر دیا تھا،سپریم کورٹ نے بھی اس فیصلے کو برقرار رکھا، سپریم کورٹ نے اس حوالے سے کوئی بھی متضاد فیصلہ نہیں دیا،مریم نواز کے کیس میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے بھی ان عدالتی فیصلوں اور اصولوں کی توثیق کی ہے،

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ ہم نے حال ہی میں ایک فیصلہ دیا کہ بینامی کیلئے 4 مندرجات کا ثابت ہونا ضروری ہے،ان چاروں میں سے ایک بھی ثابت نہیں تو وہ بینامی کے زمرے میں نہیں آئے گا،وکیل امجد پرویز نے کہا کہ جناب میرا امتحان کیوں لے رہے ہیں،جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ وہ تو ضروری ہوتا ہے نہ، عدالت کے ریمارکس پر قہقہے گونج اٹھے،

امجد پرویز ایڈووکیٹ نے مریم نواز کی ہائی کورٹ سے بریت کا فیصلہ پڑھ کر سنا یا اور کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے احتساب عدالت کا فیصلہ کالعدم قرار دے کر مریم نواز کو بری کیا تھا، عدالت نے لکھا پراسیکیوشن کے موقف کو ثابت کرنے کے لیے کوئی ایک ڈاکومنٹ موجود نہیں، نیب پراسیکیوٹر نے نواز شریف کی ایون فیلڈ ریفرنس میں دائر اپیل کو منظور کرنے پر رضا مندی ظاہر کر دی ،نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ ایون فیلڈ ریفرنس میں مریم نواز کی بریت کا فیصلہ حتمی ہوچکا ہے اس لیئے ہم اس فیصلے سے باہر نہیں جا سکتے۔دوسری جانب نیب نے فلیگ شپ ریفرنس میں نواز شریف کی بریت کے خلاف اپیل واپس لے لی جس کے بعد ایون فیلڈ ریفرنس میں سابق وزیراعظم نواز شریف کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے بری کر دیا۔العزیزیہ ریفرنس کی سماعت ملتوی کر دی گئی،

واضح رہے کہ سابق وزیراعظم نواز شریف کو جولائی 2018 میں ایون فیلڈ ریفرنس میں 10 سال اور دسمبر 2018 میں العزیزیہ ریفرنس میں 7 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی،نواز شریف نے عدالت میں سزاؤں کے خلاف اپیل دائر کی تھی.

آئے روز وزیراعظم کو اتار دیا جائےتو پھر ملک کیسے چلے گا ،نواز شریف

قصے،کہانیاں سن رہے ہیں،یہ کردار تھا ان لوگوں کا،نواز شریف کا عمران خان پر طنز

خاور مانیکا کے انٹرویو پر نواز شریف کا ردعمل

سات منٹ پورے نہیں ہوئے اور میاں صاحب کو ریلیف مل گیا،شہلا رضا کی تنقید

پینا فلیکس پر نواز شریف کی تصویر پھاڑنے،منہ کالا کرنے پر مقدمہ درج

نواز شریف کے خصوصی طیارے میں جھگڑا،سامان غائب ہونے کی بھی اطلاعات

Leave a reply