اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہوکا دورہ عرب دنیا:کیا پاکستان پربھی اس کے اثرات مرتب ہوں گے؟خصوصی رپورٹ

0
35

اسلام آباد/تل ابیب /دبئی:اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہوکا دورہ عرب امارات کے حوالے سے رات سے خبریں بڑی تیزی سے پھیل رہی تھیں‌مگرعین وقت پر آکرنیتن یاہونے اپنا دورہ عرب امارات منسوخ کرکے اسرائیل کودرپیش خطرات کی طرف اشارہ کردیا ہے ، :

 

قائد اعظم محمد علی جناح سے عمران خان تک:اسرائیل اورپاکستان کی خفیہ محبت کا دلچسپ…

 

اسرائیلی وزیراعظم کب دورہ عرب امارات کریں گے اورکیا پاکستان پربھی اس کے اثرات مرتب ہوں گے؟اہم گفتگو اس وقت چل پڑی ہے

ویسے تو بڑے عرصے سے یہ خبریں گردش کررہی تھیں کہ اسرائیل اورعرب ملکوں کے درمیان خفیہ سفارتکاری چل رہی ہے،اس سارے منظرنامے میں پاکستان کا کرداربھی بڑا اہم رہا ہے

 

اسرائیل کو تسلیم کرنے کے سوال پر وزیراعظم نے کیا دیا جواب؟

پاکستان کے حوالے سے پچھلے چند ہفتوں سے بہت زیادہ تبصرے تجزیے پیش کئے گئے ،حکومت مخالفین نے حکومت کوعوام کی نظروں سے گرانے کےلیے بڑے بڑے الزامات بھی عائد کیے ، لیکن دوسری طرف جب حقائق سے پردہ اٹھا تو پتہ چلا کہ موجودہ حکومت نہیں بلکہ سابق وزیراعظم نوازشریف اسرائیل سے خفیہ رابطہ کاری اورسفارتکاری کرتے رہے

 

 

اسرائیل کوتسلیم نہ کرنے کی پاکستان اورکشمیریوں کوسزا دے دی گئی :اسرائیل نوازعرب…

ادھر اس حوالے سے مختلف قسم کے تحفظات اورخدشات بھی سامنے آئے لیکن یہ خدشات اورتحفظات اس وقت اپنی موت آپ مرگئے جب وزیراعظم عمران خان نے واضح کردیا کہ پاکستان نہ تو اسرائیل سےڈیل کرے گا اورنہ ہی ڈھیل دے گا

 

انڈواسرائیل چیمبرآف کامرس نے عرب امارات میں پنجے گاڑدیئے،دبئی میں مرکزی دفترکا…

وزیراعظم عمران خان کا یہ موقف کہ پاکستان آج بھی بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے موقف پرقائم ہے کہ جب تک فلسطینیوں‌ کو ان سے چھینی ہوئی زمینیں‌ واپس نہیں‌ کی جاتیں اوراسرائیل مقبوضہ علاقے خالی نہ کرتا اس وقت اسرائیل سے تعلقات قائم کرنے کا سوچا بھی نہیں جاسکتا

پاکستان کے لیے اسرائیل کو تسلیم کرنا ایک بہت بڑا فیصلہ ہے اور اس کے کئی پہلو اہم ہیں۔ یہ فیصلہ پاکستان کے شہریوں کی رائے سے براہ راست جڑا ہے۔

 

جب کہہ دیا کہ اسرائیل کوتسلیم نہیں کریں گےتوپھرپراپیگنڈہ کیوں:پاکستان سب سازشی…

یہ بھی یاد رہے کہ پاکستان کی کوئی بھی حکومت اتنا اہم فیصلہ عوام کو اعتماد میں لیے بغیر نہیں کر سکتی جس کی بڑی وجہ اسرائیل کے بارے میں عام لوگوں کے جذبات ہیں جو کئی دہائیوں سے اسے ایک ’غاصب‘ قوت سمجھتے ہیں۔

پاکستان نے عرب ممالک کوبار بار سمجھایا کہ آپ کو پتہ تو ہے کہ ‎اسرائیل نے ماضی میں فلسطینیوں اور اس کے عرب پڑوسیوں کے ساتھ دستخط کیے ہوئے تمام معاہدوں کو توڑا ہے، اس لیے یہ توقع کرنا بیوقوفی ہوگی کہ اسرائیل پاکستان کے ساتھ کیے گئے کسی معاہدے کی پاسداری کرے گا۔

 

مریم کو جواب دینا ہوگا کہ ان کے والد نے کس کس کو اسرائیل بھیجا؟ بڑا مطالبہ سامنے…

پاکستان نے اس دوران اپنے عرب مسلم ممالک کو یہ بات بھی سمجھائی کہ ‎اسرائیل فلسطین کے لیے دو یا ایک ریاستی حل میں سے کسی کے لیے بھی سنجیدہ نہیں ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو اسرائیل اقوام متحدہ کی قراردادوں کو تسلیم کرتا

شاہ جی غلطی ہوگئی:معاف کردیں‌:اسرائیل کے حوالے سے خبرکسی کے کہنے پرلگائی

پاکستانی وفود نے عرب دنیا کو یہ بات سمجھائی کہ پاکستان کے لیے اس وقت اسرائیل کو تسلیم کرنا نیتن یاھو کی صیہونی اور دائیں بازو کی حکومت کے سامنے ہتھیار ڈال دینے کے مترادف ہے۔ یہ غزہ، مغربی کنارے اور شام میں نیتن یاہو کی قیادت میں صیہونی قوم پرستوں کے ہاتھوں مسلمان عربوں پر تشدد اور بے گناہ قتل کو نہ صرف جواز مہیا کرے گا بلکہ ان کی حوصلہ بھی افزائی کرے گا۔

 

وازشریف کےاسرائیل سے خصوصی تعلقات ہیں: انہوں نے مجھے اسرائیل بھیجا : مولانا اجمل…

 

 

فلسطین کی زمینوں پر غیرقانونی قبضے کی وجہ سے پاکستان اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتا، اسی طرح وہ کشمیری اراضی پر بھارتی تسلط کو بھی نہیں مانتا ہے۔ فلسطینی زمینوں پر اسرائیلی قبضے کو تسلیم کر لینا کشمیر پر بھارتی قبضے کو اخلاقی جواز دینے کے مترادف ہو گا اور یہ فلسطینیوں اور کشمیریوں کے پاکستان پر اعتماد سے غداری ہو گی۔

ابھی اسرائیل کو تسلیم کرنا نہ صرف پاکستان کو مسئلہ کشمیر پر مسلم اقوام کی حمایت سے محروم کر دے گا، بلکہ اس سے ایران کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کو بھی نقصان پہنچ سکتا ہے جو ہمارا اہم ہمسایہ ملک ہے۔ یہ قدم پاکستان کے لیے سفارتی اور معاشی تنہائی کا باعث بھی بن سکتا ہے جس سے سی پیک منصوبے کو بھی نقصان پہنچے گا۔

 

افسوس صد افسوس :نوازشریف کو اسرائیلی و بھارتی لابی نے قابو کرلیا

 

 

پاکستان ایک کمزور ریاست کے طور پر دیکھا جائے گا جس کی اپنی کوئی خود مختار پالیسی نہیں۔ ایک ایسا ملک جس نے غیرملکی دباؤ میں آ کر اسرائیل کو قانونی حیثیت دی جس کا وہ حق دار نہیں۔ اس کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ اس وقت پاکستان یو این ایچ آر سی کا رکن ہے اور اس تناظر میں ایک غاصب طاقت کو جائز قرار دینا ایک تاریخی غلطی ہو گی اور یہ امر پاکستان کی ساکھ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچائے گا۔

 

اسرائیل نوازکون ؟عمران خان یا فضل الرحمن:اب فیصلہ کرے عوام

اسرائیل کے حامی بیانیہ رکھنے والے تجزیہ کاروں کے عقائد کے برعکس اسرائیل کو تسلیم کرنا پاکستان کے لیے عسکری طور پر بھی زیادہ سود مند ثابت نہ ہو گا۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ پاکستان اسرائیلی دفاعی منڈی میں بھارتی فوج کی قوت خرید سے مقابلہ نہیں کر سکے گا، جو پہلے ہی وہاں اپنے قدم بڑی مضبوطی سے جما چکی ہے۔

ان تمام عوامل کے تناظر میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ اسرائیل کے بارے میں پاکستان کا مؤقف اخلاقی، سیاسی اور معاشی حقائق پر مبنی ہے۔ اسے اس وقت تک نہیں بدلا جانا چاہیے جب تک کہ اسرائیل میں ایک اعتدال پسند حکومت قائم نہ ہو جو فلسطینیوں پر ہونے والے ظلم کو ختم کر کے اپنے پڑوسی ممالک اور فلسطینیوں کے ساتھ دو ریاستی حل یا ایک مشترکہ جمہوری ریاست کے حل کے تحت مسئلہ فلسطین کا تصفیہ کر کے خطہ میں پائیدار امن قائم کرنے کی خواہش مند ہو۔

 

مولانا اجمل قادری اگر نواز شریف ، شہباز شریف کو بتا کر اسرائیل گئے تو ان کیخلاف…

اس موقع پر وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ وہ اللہ کو کیا جواب دیں گے اگراسرائیل کو تسلیم کرلیا

اس کے ساتھ ساتھ پاکستان نے اپنے برادراسلامی ملکوں کی طرف سے اسرائیل کوتسلیم کرنے پرتشویش کا اظہارکیا ، عرب امارات ، بحرین ، سوڈان ،مراکش اوربھوٹان نے دیکھتے ہی دیکھتے اسرائیل کوتسلیم کرلیا توپھریہ پراپیگنڈہ شروع ہوگیا کہ پاکستان پربھی اسرائیل کوتسلیم کرنے کے حوالے سے سعودی عرب کا دباو ہے

ان خبروں کو پاکستان نے سختی سے مستردکردیا ، بہر کیف پاکستان کے متاثرہونے کے حوالے سے کچھ واقعات میں سچائی ضرور ہے، یہی وجہ ہے کہ ان دنوں‌جب اسرائیل کو تسلیم کیا جارہا تھا تو پاکستانی سرکاری شخصیات عرب ممالک کوسمجھا نے کبھی عرب امارات تو کبھی سعودی عرب کا دورہ کررہی تھیں ، گورنرپنجاب سے لیکرآرمی چیف تک عرب ممالک کو سمجھانے میں مصروف تھے

 

قائد اعظم محمد علی جناح سے عمران خان تک:اسرائیل اورپاکستان کی خفیہ محبت کا دلچسپ…

پاکستان نے سعودی عرب کی طرف سے ڈالے گئے دباو کو مسترد کیا تو پاکستان کو سعودی عرب نے دیئے گئے قرض کے پیسے فوری واپس کرنے کا پیغام دے کربلیک میل کرنے کی کوشش کی

پاکستان نے اس موقع پرثابت قدمی کا مظاہرہ کیا اوراپنے قدرتی حلیف اورواحد دوست چین کے ساتھ یہ سارے معاملات زیربحث کیئے

چین نے بھی عالمی اسٹیبلشمنٹ کی بڑھتی ہوئی کارستانیوں کو بھانپتے ہوئے پاکستان کو ڈٹ جانے کا مشورہ دیا اورسعودی عرب کو واجب الادا قرض کی رقم اپنی طرف سےادا کرنے کی حامی بھر لی

اسی دوران ایران نے یہ بھانپتے ہوئے کہ سعودی عرب اورپاکستان کے درمیان خلیج بڑھ رہی ہے ، پاکستان کے ساتھ اپنے روابط مضبوط کرنے کی کوششیں تیز کردیں اورجواد ظریف پاکستان میں‌ دو دن مصروف رہے اورپاکستانی اداروں کو ٹریک سے ہٹانے کے لیے غیر محسوس انداز میں موبلائز کرتے رہے جسے پاکستانی اداروں نے بھانپتے ہوئے ٹال دیا

ادھر پاکستان نے جب سعودی عرب کو دو ہفتوں کے اندر دو ارب ڈالرز کی دوقسطیں اورعرب امارات کے ایک ارب ڈالرز واپس کیے تو یہ دونوں عرب ملک ہل کررہ گئے اورانکو یہ یقین ہوگیا کہ پاکستان کوبلیک میل کرنے میں ناکامی کا بہت زیادہ نقصان ہوسکتا ہیے اورپاکستان ہمارے ہاتھ سے نکل جائے گا

اسی دوران شاہ سلمان نے اپنے دوسرے بیٹے سلطان بن سلمان کو نصیحت کی کہ وہ وزیراعظم عمران خان کو فون کریں اورمیری طرف سے سلام پیش کریں اوردورہ سعودی عرب کی دعوت دیں

سعودی شہزادے سلطان بن سلمان نے ایسے ہی کیا اورساتھ ہی وزیراعظم عمران خان سے یہ بھی اظہارمحبت کیا کہ خان صاحب آپ کچھ ناراض لگتے ہیں‌

جس پروزیراعظم عمران خان نے کہا کہ ایسا نہیں ہے

اس دوران پاکستان کے معروف اینکرمبشرلقمان نے بھی ان بیک ڈورمعاملات پرسیرحاصل گفتگو کی اورپھرعالمی معاملات میں‌ہونے والے حالات وواقعات کی بنیاد پریہ ثابت کیا کہ واقعی سعودی عرب پاکستان پردباو ڈال رہا ہےکہ وہ اسرائیل کو تسلیم کرے یا پھراسرائیل کو تسلیم کرنے والے ممالک کے حوالے سے خاموش رہے ، ان کی مخالفت نہ کرے

ان حقائق کی روشنی میں کچھ چیزیں‌جوسامنے آتی ہیں‌ جن کی بنیاد پرکہا جاسکتا ہے کہ پاکستان پران عرب ملکوں کی طرف سے اسرائیل کوتسلیم کرنے کےبعد بہت زیادہ اثرات مرتب ہوئے ہیں

اسرائیل کوتسلیم کرنے والے ممالک نے پاکستان کی طرف سے مزاحمت کواپنے معاملات میں مداخلت سمجھا اوریوں ان ممالک نے پاکستان کے حوالے سے اپنی پالیسیوں میں نمایاں تبدیلیاں کرلیں

ان ممالک نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کے بعد بھارت کے ساتھ تعلقات کو مضبوط کرنا شروع کردیا ، کیوں کہ اسرائیل اوربھارت کے مفادات ایک ہیں اوراس کا نقصان یہ ہوا کہ بھارت بھی پاکستان کے خلاف اس حوالے سےپراکسی پراتر آیا

ان عرب ممالک میں مقیم پاکستانیوں کے حوالے سے ان حکومتوں کے رویے میں‌سختی آگئی

ان عرب ممالک نے پاکستان کی عالمی فورموں پرحمایت سے مکمل طورپرہاتھ کھینچ لیاسعودی عرب نے ایف اے ٹی ایف میں ووٹ نہ دے کربھارت اورامریکہ کوخوش کرلیا

پاکستان کی طرف سے اسرائیل کوتسلیم کرنے سے انکارکے بعد اسرائیل نے پاکستان کے لیے عالمی سطح پرمعاملات کھڑے کردیئے ہیں‌

امریکہ نے عرب ملکوں‌پردباو ڈال کرپاکستان سے تھوڑا سا دوررہنے کا مشورہ دیا جس سے پاکستان کو اپنی ابھرتی ہوئی معیشت کو پھرسے مسائل کا سامنا کرنے کا ڈرپیدا ہوگیا

ان عرب ممالک نے کشمیر کے مسئلے پرپاکستان کے موقف کی حمایت کرنے میں سردمہری دکھانا شروع کردی ہے

پاکستان کے ساتھ سرمایہ کاری کو کم کرنے پرکام ہورہا ہے ، سعودی عرب بھارت میں بہت بڑی سرمایہ کاری کررہا ہے لیکن پاکستان میں‌ اعلان کردہ معاہدوں پرعمل کرنے سے گریزاں ہے

اس سے پاکستانی اسلحے کی ان عرب ممالک میں دلچسپی میں کمی لانے کے حوالے سے امریکہ ، اسرائیل اوربھارت مل کرکام کررہے ہیں‌

حالانکہ پاکستان نے اوآئی سی میں ان عرب ملکوں کے تمام مطالبات اورمعاملات کی کھل کرحمایت کی ہے اوریہ حمایت جاری رہے گی لیکن اسی فورم سے کشمیر کے لیے سوائے الفاظ کے ہیر پھیرسے کوئی کام نہیں ہوا

 

 

قائد اعظم محمد علی جناح سے عمران خان تک:اسرائیل اورپاکستان کی خفیہ محبت کا دلچسپ…

اب یہ بھی خبریں‌آرہی ہیں کہ سعودی عرب محمد بن سلمان کےجمال خشوگی کے قتل میں امریکہ کی طرف سے ملوث کردہ الزامات کے بعد کچھ توقعات رکھتا ہے پاکستان نے بھی اس معاملے پرسعودی عرب کے موقف کی حمایت کی ہے

پاکستان کی طرف سے اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے اورعرب ممالک کی طرف سے تسلیم کرنے کے اس عمل کے پاکستان اورچین کے درمیان تجارتی اورمعاشی لین دین پربھی بہت بڑا اثرا پڑا ہے ، یہ ممالک سی پیک کے معاملے میں بھارت نوازی کررہے ہیں عرب امارات کو تو گوادرکی بندگاہ بھاتی ہی نہیں

خطے میں ایران بھی ان معاملات پرنظررکھے ہوئے ہے ایران عرب ممالک کی طرف سے اسر ائیل کوتسلیم کرنے کے معاملے پرپاکستان کے دیرینہ موقف کی حمایت کررہا ہے ساتھ ہی عرب ممالک کے ساتھ ایران کے اپنے تعلقات میں سردمہری دکھائی جارہی ہے

بہرکیف اوربھی بہت سے ایشوز مگراس کے ساتھ ساتھ کچھ عرب ممالک کے داخلی معاملات سے پاکستان پراثرات مرتب ہورہے ہیں

اگردیکھا جائے تو ان ممالک کی طرف سے اسرائیل کوتسلیم کرنے کے حوالے سے بہت سے اشکال سامنے آرہے ہیں‌

تھوڑی سی نظردیگرممالک پربھی ڈالنا ضرور ہے جن کی وجہ سے خطے پراس کے بہت گہرے اثرات مرتب ہورہے ہیں‌

عرب ملکوں کی طرف سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حوالے سے فلسطینی سخت ناراض ہیں اورفلسطینی حکام اور حماس کی جانب سے اس معاہدے کو مسترد کیا گیا ہے۔ فلسطینی صدر محمود عباس اور حماس کے رہنما اسماعیل ہنیہ نے آپسی اختلافات پس پشت ڈال کر ٹیلی فون پر گفتگو کی۔ فلسطین نے متحدہ عرب امارات سے اپنا سفیر بھی فوری طور پر واپس بلانے کا اعلان کیا ہے۔ صدر ٹرمپ کے مطابق جب خطے کے اہم ممالک اسرائیل کے ساتھ معاہدے کر لیں گے تو فلسطینیوں کو بھی آخرکار مذاکرات کرنا پڑیں گے۔

اسرائیل کوتسلیم کرنے کے حوالےسے ترکی نے اماراتی فیصلے پر شدید تنقید کی ہے۔ ترک صدر ایردوآن نے یہ تک کہہ دیا کہ انقرہ اور ابوظہبی کے مابین سفارتی تعلقات ختم کرنے پر غور کیا جا رہا ہے۔ ترک وزارت خارجہ نے کہا کہ ایسی ڈیل کرنے پر تاریخ یو اے ای کے ’منافقانہ رویے‘ کو معاف نہیں کرے گی۔ ترکی کے پہلے سے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات ہیں تاہم حالیہ برسوں کے دوران دونوں ممالک کے مابین کشیدگی بڑھی ہے۔

ایران عرب ملکوں کی طرف سے اسرائیل کوتسلیم کیے جانے پربہت زیادہ برہم ہے اورسخت ردعمل بھی دیا ہے ، اس حوالے سے ایران نے متحدہ عرب امارات کے فیصلے کو ’شرمناک اور خطرناک‘ قرار دیتے ہوئے شدید تنقید کی ہے۔ ایرانی وزیر خارجہ نے اس معاہدے کو متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کی احمقانہ حکمت عملی قرار دیتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ اس سے خطے میں مزاحمت کا محور کمزور نہیں ہو گا بلکہ اسے تقویت ملے گی۔ خطے میں ایرانی اثر و رسوخ سے لاحق ممکنہ خطرات بھی خلیجی ممالک اور اسرائیل کی قربت کا ایک اہم سبب ہیں۔

اردن نے نہ تو مخالفت کی اورنہ ہی حمایت یہی وجہ ہے کہ اسرائیل کے پڑوسی ملک اردن کی جانب سے نہ اس معاہدے پر تنقید کی گئی اور نہ ہی بہت زیادہ جوش و خروش دکھایا گیا۔ ملکی وزیر خارجہ ایمن الصفدی کا کہنا ہے کہ امن معاہدے کی افادیت کا انحصار اسرائیلی اقدامات پر ہے۔ اردن نے سن 1994 میں اسرائیل کے ساتھ امن معاہدہ کیا تھا

دوسری اہم اورقابل غوربات یہ ہے کہ اس سارے عرصے کے دوران پاکستان اپنے عرب بھائیوں کے لیے کھڑا رہا ، پاکستان کواس نظریے پرقائم رہنے کی سخت سزا دی گئی ،جن کی خاطرپاکستان کھڑا رہا وہ بیٹھ گئے ، جن کی خاطرپاکستان نے اسرائیل سے نہ ڈیل کی نہ ڈھیل دی ، انہوں نے ڈیل بھی کرلی اورڈھیل بھی دے دی

مسئلہ یہ نہیں کہ یہ تعلقات کیوں بنانے کی کوشش کی گئی ، جس طرح معاشروں ،قوموں اوربرادریوں میں ایک فطری تعلق بہتر کرنے کی کوشش ہوتی رہتی ہے ، ایسے ہی ملکوں کے درمیان یہ خواہش پیدا ہوتی رہتی ہے ، خاص کراس دورمیں جب دنیا گلوبل یعنی ایک پیج پرہے توکسی بھی صورت میں کوئی ملک ایک دوسرے کے بغیرنہیں چل سکتا

لیکن پاکستان کا مسئلہ دنیا کی روایات اوراقدار سے مختلف ہے پاکستان لاالہ الآ اللہ کے نظریے پرقائم ہے اسی وجہ سے پاکستان لا الہ الآ اللہ کے ماننے والوں کی دلی آواز پرلبیک کہتے ہوئے ان تعلقات کوقائم کرنے سے دور ہے

دوسری طرف عرب امارات اپنے فیصلے پرڈٹ گیا ہے جس کے مطابق اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کا ان کا فیصلہ مشرق وسطیٰ میں قیام امن کے امکانات بڑھائے گا اور یہ فیصلہ مشرق وسطیٰ کے تنازعے میں ’درکار ضروری حقیقت پسندی‘ لاتا ہے۔ اماراتی وزیر خارجہ انور قرقاش کے مطابق شیخ محمد بن زیاد کے جرات مندانہ فیصلے سے فلسطینی زمین کا اسرائیل میں انضمام موخر ہوا جس سے اسرائیل اور فلسطین کو دو ریاستی حل کے لیے مذاکرات کرنے کے لیے مزید وقت مل جائے گا۔

یاد رہے کہ اسرائیل بھی پاکستان کی طرح مذہبی بنیادوں پر وجود میں آیا اور دنیا کی پہلی یہودی ریاست کے نام سے جانا جاتا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ اسرائیل پاکستان کو واحد اسلامی جوہریریاست کے بطور اسرائیل کے لیے بڑا خطرہ تصور کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے نیوکلیئر بم کو "اسلامی بم” کے نام سے اسرائیل ہی نے موسوم کیا۔اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ فلسطین پر قبضے اور فلسطینیوں کے حوالے سے پاکستان کے خصوصی جذبات ہیں جن کا خیال پاکستان کی ہر حکومت نے ہمیشہ رکھا ہے

Leave a reply