امریکی وزیر خارجہ اسرائیل اور حماس کے مابین جنگ بندی کے لئے متحرک ہیں، انٹونی بلنکن نے اسرائیلی حکام سے ملاقات کے بعد عرب رہنماؤں سے ملاقاتیں کیں

امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے عرب وزراء خارجہ سے ملاقات کی، سعودی عرب، یو اے ای سمیت دیگر ممالک کے وزرا خارجہ اجلاس میں موجو د تھے،امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے عرب رہنماؤں نے جنگ بندی کے لئے اور غزہ کی مستقبل کی منصوبہ بندی کے لئے تعاون طلب کیا ہے،امریکی حکام کے مطابق موجودہ صورتحال میں عرب ممالک کا کردار اہم ہے،بلنکن نے عمان میں حکام سے ملاقاتیں کیں،انہوں نے اقوام متحدہ کے ادارے کے سربراہ سے بھی ملاقات کی اور غزہ میں انسانی امداد فراہم کرنے پر شکریہ ادا کیا، اقوام متحدہ کے تقریبا 70 اہلکاروں کی اسرائیلی بمباری سے ہلاکت ہو چکی ہے، اقوام متحدہ کے پاس خوراک،ادویات کی کمی ہو چکی ہے،امریکی وزیر خارجہ بلنکن نے عرب رہنماؤں سے ملاقات کی تو عرب رہنماؤں نے اسرائیلی حملے کی مذمت کی اور کہا کہ فلسطینی عوام کو سزا نہ دی جائے،ایک طرف غزہ میں اسرائیلی بمباری جاری ہے ایسے میں امریکی وزیر خارجہ کو عربوں کے غصے کا سامنا کرنا پڑا ہے، اسرائیل حماس کو کچلنے کے لئے چار ہفتوں سے مسلسل حملے کر رہا مگر اسے ناکامی ہوئی،عرب رہنماؤں کے ساتھ ملاقات میں امریکہ کے وزیر خارجہ کو غصےکی بڑھتی لہر کا سامنا کرنا پڑا،بلنکن نے غزہ میں جنگ بندی کی بات کی تاہم اسرائیلی وزیراعظم نے اسکو رد کر دیاہے، عمان میں بلنکن کا کہنا تھا کہ امریکہ کا خیال ہے کہ ان تمام کوششوں کو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر توقف کے ذریعے سہولت فراہم کی جائے گی

مصری وزیر خارجہ سامح شکری، جن کا ملک غزہ کی پٹی سے وہاں جانے کے لیے امداد کے واحد راستے کے طور پر کام کر رہا ہے، نے "فوری اور جامع جنگ بندی” کا مطالبہ کیا۔

حماس نے ہفتے کو دیر گئے کہا کہ غزہ سے دوہری شہریوں اور غیر ملکیوں کا انخلاء اس وقت تک معطل رکھا جا رہا ہے جب تک کہ اسرائیل کچھ زخمی فلسطینیوں کو رفح پہنچنے کی اجازت نہیں دیتا تاکہ وہ مصر میں ہسپتال میں علاج کے لیے سرحد عبور کر سکیں۔

اسرائیلی چیف آف اسٹاف لیفٹیننٹ جنرل ہرزی حلوی نے ہفتے کے روز غزہ کے سب سے بڑے شہر کا محاصرہ مکمل کرنے کے بعدعلاقے کا دورہ کیا اور اسرائیلی فوجیوں سے ملاقات کی۔وزیر دفاع یوو گیلنٹ نے کہا کہ اسرائیلی افواج غزہ کے اندر لڑ رہی ہیں۔اسرائیلی فوج غزہ شہر کو "حماس کا مرکز” کے طور پر بیان کرتی ہے، لیکن امدادی معاونت کے لیے امریکی خصوصی ایلچی ڈیوڈ سیٹر فیلڈ نے کہا کہ شہر اور ملحقہ علاقوں میں 350,000 سے 400,000 کے درمیان شہری مقیم ہیں۔اسرائیل کا کہنا ہے کہ اس نے 7 اکتوبر سے لے کر اب تک فلسطینی سرزمین پر 12,000 اہداف کو نشانہ بنایا ہے،

امریکی وزیر خارجہ ترکی بھی جائیں گے اور ترک صدر سے ملاقات کر یں گے،ترکی نے اسرائیل سے اپنا سفیر واپس بلالیاہے،ترک وزارت خارجہ کے مطابق اسرائیل کی جانب سے غزہ پر مسلسل حملوں کے بعد ترکی نے پنے سفیر کو مشاورت کے بعد واپس بلایا ہے، ترکی میں موجود اسرائیلی سفیر بھی سیکورٹی وجوہات کی وجہ سے اسرائیل واپس جا چکا ہے،غزہ پر اسرائیلی حملوں کے بعد امریکی ملک ہونڈرورس،چلی، کولمبیا اپنے سفیر اسرائیل سے واپس بلا چکے ہیں،سفیر واپس بلائے جانے کے اقدام کا فلسطین نے خیر مقدم کیا اور کہا کہ دیگر ممالک سے بھی توقع کرتے ہیں کہ وہ ایسے فیصلے کریں

ترکی کے صدر رجب طیب اردوان کا کہنا ہے کہ فلسطین کے علاقے غزہ میں اسرائیل کے جنگی جرائم کوبین الاقوامی جرائم کی عدالت میں لے کر جائیں گے،صحافیوں سے گفتگو میں ترک صدر کا کہنا تھا کہ ترکیہ نے اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کیلئے لکیرکھینچ دی ہے ان سے اب کوئی بات نہیں ہوسکتی، نیتن یاہو ناقابل بھروسہ ہیں نیتن یاہو جوکچھ کررہےہیں اس کی بائبل، توریت اورنہ ہی زبور اجازت دیتی ہے، نیتن یاہو اسرائیلی عوام کی حمایت کھوچکےہیں

حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کے کچھ دن قبل کے دورہ ایران کی خبر سامنے آئی ہے، اسماعیل ہنیہ نے دورہ تہران میں ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای سے ملاقات کی،حماس کے عہدیدار اسامہ حمدان نے اسماعیل ہنیہ کے دورہ ایران کی مزید تفصیل نہیں بتائی

اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کے حماس حملے کی ذمہ داری کیوں لینی چاہئے؟
سات اکتوبر کو ہفتے کے دن حماس نے اسرائیل پر حملہ کیا،اس حملے کو تقریبا چار ہفتے ہو چکے،حملے میں تقریبا 1400 اسرائیلی مارے جا چکے ہیں، سینکڑوں افراد کو حماس نے یرغمال بنا لیا، اب بھی حماس کے حملوں میں اسرائیلی فوجی جہنم واصل ہو رہے ہیں، دنیا جنگ بندی کا مطالبہ کر رہی ہے تاہم اسرائیلی وزیراعظم جنگ بندی کی طرف نہیں جا رہے، یرغمالیوں کی رہائی کے لئے اسرائیلی وزیراعظم کے خلاف تل ابیب میں بھی مظاہرے ہو رہے ہیں تاہم اسرائیلی وزیراعظم خاموش ہیں،

یروشلم پوسٹ میں شائع ایک رپورٹ کے مطابق اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو،انتہائی بے حس، لاپرواہی کا مظاہرہ کر رہے ہیں،حماس کے حملوں میں چودہ سو اسرائیلیوں کی جانیں گئیں لیکن نیتن یاہو نے کسی ایک شخص کے جنازے میں شرکت نہیں کی، سینکٹروں یرغمال بنائے گئے ابھی تک اسرائیلی وزیراعظم نے یرغمال بنائے گئے افراد کے اہلخانہ میں سے کسی ایک سے بھی ملاقات نہیں کی،حماس کے حموں میں ہزاروں افراد زخمی ہوئے ان میں سے کئی اب بھی ہسپتالوں میں زیر علاج ہیں تا ہم نیتن یاہو نے کسی بھی زخمی کی ابھی تک عیادت نہیں کی،حماس کے مسلسل حملوں کے بعد اسرائیل میں 21 ہزار کے قریب افراد بے گھرہوئے لیکن اسرائیلی وزیراعظم نے کسی بھی بے گھر افراد کا حال تک نہیں پوچھا،نیتن یاہو نے یرغمال بنائے گئے افراد میں سے صرف 13 خاندانوں کے ساتھ دو ملاقاتیں کیں ،لیکن انکی رہائی کے لئے کوئی اقدام نہیں کیا، 227 سے زائد افراد حماس کے قبضے میں ہیں، انکے خاندان اذیت کا شکار ہیں لیکن نیتن یاہو حملوں پر حملے کروا رہے ہیں

یروشلم پوسٹ لکھتا ہے کہ نیتن یاہو کے پاس ابھی تک تین الفاظ ہیں: "میں ذمہ دار ہوں” – حماس کے حملے کے بعد اسرائیلی وزیر دفاع سمیت فوجی حکام نے ناکامی کا سہرا اپنے سر لیا، اور کہا کہ ہم ناکام ہوئے،انٹیلی جنیس چیف، ملٹری انٹیلی جنس کے سربراہ،اوسی سدرن کمانڈ سمیت سب نے اپنی کوتاہی کا اعتراف کیا،یہاں تک کہ وزیرخزانہ تک نے بھی کچھ انٹرویو میں کہا کہ حماس کے حملوں کی ذمہ داری حکومت پر عائد ہوتی ہے لیکن اب الزام تراشی کا وقت نہیں،نیتن یاہو کہہ چکے ہیں کہ ہم سب کو فی الوقت جواب دینے کی ضرورت ہے

نیتن یاہو کس طرح ایک اور سانحے کا الزام اپنے سر لینے سے بچنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ میں ذمہ دار ہوں لیکن اسکے ساتھ ہی کہا کہ اسرائیل کے مستقبل کی سلامتی کے لیے،نیتن یاہو واضح کر رہے تھے کہ وہ ماضی کے لئے نہیں بلکہ مستقبل کی بات کر رہے ہیں،اور سوچ رہے ہیں کہ جنگ ختم ہونے کے بعد اگلے دن کیا ہو گا،نیتن یاہو کی اپنے دور حکومت میں ہونے والی ہر آفت سے دور رہنے کی ایک طویل تاریخ ہے، جن میں سے تازہ ترین 2021 میں ماؤنٹ میرون پر مہلک ہجوم کا کچلنا تھا، جس میں 45 افراد کی جانیں گئیں۔ گزشتہ سال اس آفت کی تحقیقات کے لیے بنائے گئے سرکاری کمیشن کے سامنے اپنی گواہی میں وزیر اعظم سے پوچھا گیا تھا کہ ‘جو شخص گزشتہ 12 سالوں سے حکومت کا سربراہ تھا، کیا آپ کو یقین ہے کہ آپ عوامی اور اخلاقی طور پر ذمہ دار ہیں؟ اس آفت کے لیے؟” اس پر نیتن یاہونے جواب دیا، "کسی کو اس چیز کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جا سکتا جس کو وہ نہیں جانتا تھا۔”

اسی طرح کی ذہنیت میں، نیتن یاہو جنگ کے بعد کی انکوائری پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں، اور اس لیے وہ "میں ذمہ دار ہوں” کے الفاظ کہنے سے گریز کر رہے ہیں تاکہ یہ مخصوص الفاظ کبھی بھی کسی پروٹوکول میں ریکارڈ نہ ہوں۔ نیتن یاہو کے قریبی ساتھیوں میں سے ایک، نتن ایشیل نے اس ہفتے صحافیوں کو ایک تفصیلی پیغام بھیجا جس میں براہ راست ذمہ داری اور وزارتی ذمہ داری کے درمیان قانونی فرق کی وضاحت کی گئی،پیغام میں کہا گیا کہ "اگر کوئی سپاہی محافظ ڈیوٹی کے لیے حاضر ہونے میں ناکام ہو جاتا ہے اور دہشت گرد آرمی بیس میں داخل ہونے میں کامیاب ہو گیا تو کیا وزیراعظم ذمہ دار ہیں؟

اگرچہ نیتن یاہو ذمہ داری لینے سے گریز کرتے ہیں، اور ناکامیوں کا جائزہ لینے کے لیے جنگ ختم ہونے کا انتظار کر رہے ہیں، لیکن اس کی سیاسی پروپیگنڈہ ٹیم پہلے دن سے ہی ناکامی کو دوسروں پر ڈالنے کی کوشش میں کام کر رہی ہے۔ معتبر ذرائع کے مطابق، جنگ کے آغاز پر، وزیر اعظم کی اہلیہ سارہ نے اپنے قریبی ساتھیوں کو ہدایت کی کہ وہ آئی ڈی ایف اور سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے سینئر رہنماؤں کے بیانات کے اقتباسات جمع کریں، دونوں عوامی ذرائع کے ساتھ ساتھ خفیہ سیکیورٹی میٹنگوں سے، جس میں انہوں نے خطرے کی شدت اور حماس کی صلاحیتوں اور ارادوں کو کم کیا۔ ان ذرائع کے مطابق، جن لوگوں کے بیانات اور گفتگو کو جانچنے کی ہدایت کی گئی تھی ان کی فہرست طویل ہے، اور اس میں آئی ڈی ایف کے موجودہ اور سابق چیف آف اسٹاف، جیسے بینی گانٹز اور گاڈی آئزن کوٹ شامل ہیں، جو دونوں اس وقت ہنگامی جنگ کا حصہ ہیں۔ماضی کے وزرائے اعظم نفتالی بینیٹ اور یائر لاپڈ، وزرائے دفاع،اس طرح کے لوگ شامل ہیں جن کے بیانات کو دیکھا جا رہا ہے تا کہ کسی بھی طرح نیتن یاہو کو حماس کے حملوں کی ذمہ داری سے بچایا جا سکے اور اگر انکوائری ہو تو اس میں ان بیانات کو پیش کر کے فوج کی طرف اور انٹیلی جینس اداروں کو ذمہ دار ٹھہرایا جائے جنہوں نے حماس کے حملوں‌کی وارننگ، اطلاع کو نظر انداز کیا .

ترکی کے شہر استنبول میں اسرائیلی نمائش منسوخ کر دی گئی،
اسرائیلی فنکاروں کے فن پاروں کی نمائش استنبول میں ہونا تھی جسے منسوخ کر دیا گیا ہے، ترک منتظمین نے اسرائیلی فنکاروں کو اس حوالہ سے آگاہ کر دیا ہے،سیکورٹی وجوہات کی وجہ سے اسرائیلی فنکاروں کے فن پاروں کی نمائش منسوخ کی گئی ہے،اسرائیلی فنکار گور ایری کی نمائش "شکل دی بیوٹی” کو ہٹا دیا گیا، تاہم، طالبان کے زیر اقتدار افغانستان کی فنکارہ لیلا احمد زئی، جو فی الحال جرمنی میں مقیم ہیں ، نمائش کی جگہ پر موجود ہیں۔فینارو نے دی یروشلم پوسٹ کو بتایا کہ "تمام ترک فنکار جن سے ہم ملے وہ ایک ساتھ کام کرنا چاہتے تھے۔ پچھلے دو سالوں میں ہم ترک فنکاروں کو یہاں اسرائیللائے تھے، جسے ترک ثقافتی اسٹیبلشمنٹ نے سراہا تھا۔

اسرائیلی فنکاروں بوز کازمین، انجلیکا شیر، اور فینارو، اور حنان ابو حسین کے فن پارے اس وقت نمائش کے لیے پیش ہونا تھا،فینارو نے کہا، "اسرائیل اور اس کے فنکاروں کو اب تنہائی کا سامنا ہے،” ہمیں اپنی آواز سنانے اور اپنی موجودگی ظاہر کرنے کے لیے ہر موقع کا استعمال کرنا چاہیے۔

اسرائیل اور حماس کے مابین جنگ بندی کی تجویز پاگل پن ہے،ریپبلکن سینیٹر
فلوریڈا کے ریپبلکن سینیٹر رک سکاٹ نے اسرائیل اورحماس کے درمیان جنگ بندی کے کسی بھی مطالبے کی مذمت کرتے ہوئے ایسی تجویز کو "پاگل اور خطرناک” قرار دیا۔سکاٹ نے حماس کے ایک اہلکار کی ایک ویڈیو پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ وہ شیطانی دہشت گردانہ حملوں کو دہرائیں گے، جیسا کہ اکتوبر کے اوائل میں اسرائیلی شہریوں پر کیا گیا تھا، اس لیے جنگ بندی کا مطالبہ پاگل اور خطرناک ہے،‘‘ سکاٹ نے کہا۔ حماس کے ارکان دہشت گرد ہیں جو اسرائیل سے نفرت کرتے ہیں۔ دہشت گردی کے اس گھناؤنے خطرے کو ختم کر دینا چاہیے۔‘‘

اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے جنگ بندی کی تردید کی ہے کیونکہ اسرائیل غزہ میں حماس پرحملے جاری رکھے ہوئے ہے۔اسرائیل میں جنگ کے بارے میں، سکاٹ نے جی سیون ممالک پر زور دیا ہے کہ وہ اکتوبر کے ابتدائی دہشت گردانہ حملے کے لیے ایران پر پابندیاں لگائیں، جس میں مبینہ طور پر ایران کی پشت پناہی تھی۔سکاٹ نے ایک خط میں کہا کہ "ہم جانتے ہیں کہ حماس اور فلسطینی جہاد کے دہشت گردوں کی طرف سے معصوم شہریوں پر کیے جانے والے وحشیانہ حملوں کے پیچھے ایرانی حکومت کا ہاتھ ہے۔” "امریکہ اور ہمارے اتحادی اس حقیقت کو ایک سیکنڈ کے لیے نظر انداز نہیں کر سکتے۔”سکاٹ نے ستمبر میں امریکی-ایران قیدیوں کے تبادلے میں ایرانی حکومت کے 6 بلین ڈالر کے اثاثوں کو غیر منجمد کرنے پر بائیڈن انتظامیہ پر بھی تنقید کی ہے۔فلوریڈا کے سینیٹر نے گذشتہ ہفتے کے آخر میں سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو بھی سب سے زیادہ "اسرائیل نواز” امریکی صدر قرار دیا تھا۔سکاٹ نے کہا، "امریکہ نےداعش کو شکست دی، امریکی سفارت خانے کو یروشلم میں اپنے صحیح گھر میں منتقل کیا.

اسرائیلی ماں نے انکشاف کیا کہ اسکی بیٹی کو قتل کیا گیا اور شوہر کو لے جایا گیا
ایک اسرائیلی ماں جس کی بیٹی کو حماس نے اس کے سامنے بے دردی سے قتل کر دیا تھا اور جس کے شوہر کو اغوا کر لیا گیا تھا، اس نے جو کچھ ہوا اس کا ایک ہولناک بیان شیئر کیا ہے۔خاتون نے فیس بک اکاؤنٹ پر ویڈیو شیئر کرتے ہوئے اپنے جذبات کا اظہار کیا اور کہا کہ حماس نے جب حملہ کیا تو اسکے سامنے اسکی بیٹی کو قتل کیا گیا اور اسکے شوہر کو حماس اہلکار ساتھ لے گئے، وہ خاموش تھی لیکن اب خاموش نہیں رہ سکتی، اسرائیلی وزیراعظم میرے شوہر کو بازیاب کروائیں

اسرائیل کا حماس رہنما کے گھر پر میزائل حملہ
اسرائیل نے حماس کے رہنما کے گھر پر میزائل داغا ہے،حماس سے وابستہ الاقصیٰ ریڈیو نے ہفتے کے روز رپورٹ کیا کہ ایک اسرائیلی ڈرون نے حماس کے رہنما اسماعیل ہنیہ کے غزہ کے گھر پر میزائل داغا ،یہ واضح نہیں تھا کہ آیا اس کے خاندان کا کوئی فرد اس وقت گھر میں موجود تھا جب حملہ کیا گیا،حماس کے سیاسی سربراہ ہنیہ 2019 سے غزہ کی پٹی سے باہر ہیں، جو ترکی اور قطر کے درمیان مقیم ہیں۔دوسری جانب غزہ شہر کے شمال میں اسامہ بن زید بوائز اسکول میں، اسرائیلی ٹینک کی گولہ باری کے نتیجے میں 20 افراد ہلاک ہوئے۔اسرائیل کی فوج نے دعویٰ کیا ہے کہ اس نے "دہشت گردوں کا خاتمہ” کیا ہے اور گزشتہ روز شمالی غزہ میں سرنگوں کی تلاش کے دوران حماس سے تعلق رکھنے والے ہتھیار برآمد کیے ہیں۔اسرائیلی فوجیوں نے 15 عسکریت پسندوں کا مقابلہ کیا، ان میں سے کئی کو ہلاک کیا اور حماس کے تین مشاہداتی مراکز کو تباہ کر دیا،

اسرائیل پر حماس کے حملے کا ماسٹر مائنڈ،ایک پراسرارشخصیت،میڈیا کو تصویر کی تلاش

اقوام متحدہ کا غزہ میں جنگ بندی کا مطالبہ

ہسپتال پر اسرائیلی حملہ ،جوبائیڈن کا دورہ اردن منسوخ

ہسپتال پر ‘اسرائیلی حملہ’ ایک ‘گھناؤنا جرم’ ہے،سعودی عرب

غزہ کے الشفا ہسپتال پر بھی بمباری 

اسرائیل کی حمایت میں گفتگو، امریکی وزیر خارجہ کو مہنگی پڑ گئی

اسرائیلی بمباری سے فلسطین کے صحافی محمد ابوحطب اہل خانہ سمیت شہید

 فلسطینی بچوں کو طبی امداد کی فراہمی کے لئے متحدہ عرب امارات میدان

برسوں تک نیتن یاہو نے حماس کو سہارا دیا،ٹائمز آف اسرائیل کا دعویٰ
برسوں سے، بنجمن نیتن یاہو کی زیرقیادت مختلف حکومتوں نے ایک ایسا طریقہ اختیار کیا جس نے غزہ کی پٹی اور مغربی کنارے کے درمیان طاقت کو تقسیم کر دیا – فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا اور ایسی حرکتیں کیں جس سے حماس گروپ کو تقویت ملی۔خیال یہ تھا کہ عباس یا فلسطینی اتھارٹی کی مغربی کنارے کی حکومت میں شامل کسی اور کو فلسطینی ریاست کے قیام کی طرف پیش قدمی سے روکا جائے۔اس طرح، عباس کو نقصان پہنچانے کی اس کوشش کے دوران، حماس کو محض ایک عسکری گروپ سے ایک ایسی تنظیم میں تبدیل کر دیا گیا جس کے ساتھ اسرائیل نے مصر کے ذریعے بالواسطہ مذاکرات کیے، اور جس کو بیرون ملک سے نقد رقم وصول کرنے کی اجازت تھی۔
حماس کو اسرائیل نے غزہ کے مزدوروں کو دیے گئے ورک پرمٹ کی تعداد میں اضافے کے بارے میں بات چیت میں بھی شامل کیا، جس سے غزہ میں پیسہ بہایا جاتا رہا،

اسرائیلی حکام کا کہنا تھا کہ یہ اجازت نامے، جو غزہ کے مزدوروں کو انکلیو سے زیادہ تنخواہیں حاصل کرنے کی اجازت دیتے ہیں، امن برقرار رکھنے میں مدد کرنے کا ایک طاقتور ذریعہ ہیں۔ 2021 میں نیتن یاہو کی پانچویں حکومت کے خاتمے کے بعد، تقریباً 2,000-3,000 ورک پرمٹ غزہ کے باشندوں کو جاری کیے گئے تھے۔ یہ تعداد 5,000 تک پہنچ گئی اور بینیٹ لیپڈ حکومت کے دوران تیزی سے بڑھ کر 10,000 تک پہنچ گئی۔جنوری 2023 میں نیتن یاہو کے اقتدار میں واپس آنے کے بعد، ورک پرمٹس کی تعداد تقریباً 20,000 تک پہنچ گئی ہے۔

مزید برآں، 2014 کے بعد سے، نیتن یاہو کی قیادت والی حکومتوں نے غزہ سے آگ لگانے والے غباروں اور راکٹ فائر کی طرف عملی طور پر آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔دریں اثنا، اسرائیل نے پٹی کے حماس کے حکمرانوں کے ساتھ اپنی نازک جنگ بندی کو برقرار رکھنے کے لیے، 2018 سے لاکھوں قطری نقدی رکھنے والے کو اپنی کراسنگ کے ذریعے غزہ میں داخل ہونے کی اجازت دی ہے۔

زیادہ تر وقت، اسرائیلی پالیسی فلسطینی اتھارٹی کو بوجھ اور حماس کو اثاثہ سمجھتی تھی۔ انتہائی دائیں بازو کے MK Bezalel Smotrich، جو اب سخت گیر حکومت میں وزیر خزانہ اور مذہبی صیہونیت پارٹی کے رہنما ہیں، نے 2015 میں خود ایسا کہا تھا۔

مختلف رپورٹس کے مطابق نیتن یاہو نے 2019 کے اوائل میں ایک اجلاس میں بھی ایسا ہی نقطہ نظر پیش کیا تھا، جب ان کے حوالے سے کہا گیا تھا کہ جو لوگ فلسطینی ریاست کی مخالفت کرتے ہیں انہیں غزہ میں رقوم کی منتقلی کی حمایت کرنی چاہیے، کیونکہ فلسطینی اتھارٹی کے درمیان علیحدگی کو برقرار رکھنے کے لیے وہ غزہ میں ہیں۔ مغربی کنارے اور غزہ میں حماس فلسطینی ریاست کے قیام کو روکیں گے۔اگرچہ نیتن یاہو اس قسم کے بیانات عوامی یا سرکاری طور پر نہیں دیتے ہیں، لیکن ان کے الفاظ اس پالیسی کے مطابق ہیں جو انہوں نے نافذ کی تھی۔اسی پیغام کو دائیں بازو کے مبصرین نے دہرایا، جنہوں نے اس معاملے پر بریفنگ حاصل کی ہو یا لیکوڈ کے اعلیٰ افسران سے بات کی اور پیغام کو سمجھا۔

اس پالیسی سے تقویت پا کر، حماس مضبوط سے مضبوط تر ہوتا گیا، اسرائیل کا "پرل ہاربر”، جو اس کی تاریخ کا سب سے خونریز دن تھا – جب عسکریت پسندوں نے سرحد پار کی، سینکڑوں اسرائیلیوں کو ذبح کیا اور ہزاروں راکٹوں کو برسایا.بڑی تعداد میں شہریوں کو اغوا کر لیا۔

ابھی چند روز قبل، کان پبلک براڈکاسٹر کے ایک رپورٹر اسف پوزیلوف نے مندرجہ ذیل ٹویٹ کیا: "اسلامک جہاد تنظیم نے سرحد کے بالکل قریب ایک شور مچانے والی مشق شروع کی ہے، جس میں انہوں نے میزائل داغنے، اسرائیل میں گھسنے اور فوجیوں کو اغوا کرنے کی مشق کی۔ ”

اسلامی جہاد اور حماس کے درمیان فرق اس وقت زیادہ اہمیت نہیں رکھتا۔ جہاں تک ریاست اسرائیل کا تعلق ہے تو یہ علاقہ حماس کے کنٹرول میں ہے اور وہاں کی تمام تر تربیت اور سرگرمیوں کی ذمہ دار وہی ہے۔حماس مضبوط ہو گئی اور اس نے امن کے ان خوابوں کو استعمال کیا جس کے لیے اسرائیلی اس کی تربیت کے لیے بہت زیادہ ترس رہے تھے، اور سینکڑوں اسرائیلیوں نے اس بڑے پیمانے پر کوتاہی کے لیے اپنی جانیں قربان کیں۔اسرائیل میں شہری آبادی پر ہونے والی دہشت گردی اس قدر زبردست ہے کہ اس سے لگنے والے زخم برسوں تک مندمل نہیں ہوں گے، یہ ایک چیلنج غزہ میں اغوا ہونے والے درجنوں افراد کی وجہ سے مزید پیچیدہ ہے۔

نیتن یاہو نے گزشتہ 13 سالوں میں جس طرح سے غزہ کا انتظام کیا ہے، اس سے اندازہ نہیں لگایا جا سکتا کہ آگے جا کر کوئی واضح پالیسی ہو گی۔

Shares: