جگر مراد آبادی

0
36
muradab

جگر مرادآبادی

6 اپریل 1890

بیسویں صدی کے اردو کے مشہور شاعروں میں سے ایک بے پناہ مقبولیت کے لئے معروف. جگر آزاد طبیعت کے مالک اور حُسن پرست تھے۔ ان کا شمار اردو کے مقبول ترین شعرا میں ہوتا ہے۔ جگر کو اپنے عہد وہ شہرت اور مقبولیت ملی جو بہت کم شاعروں کو نصیب ہوئی۔ اس میں ان کی رنگا رنگ شخصیت کے ساتھ ان کے رنگِ تغزّل اور ترنم کا بڑا دخل ہے۔ کئی شعرا نے جگر کا طرزِ شاعری اپنانے اور ان کے ترنّم کی نقل کرنے کی کوشش کی، لیکن اس مقام و مرتبے کو نہ پہنچ سکے جو جگر کا خاصّہ تھا۔

ًمختصر تعارف

جگر مراد آبادی کا اصل نام علی سکندر تھا اور تخلص جگر تھا ۶ اپریل ۱۸۹۰ ء کو مراد آباد میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم گھر اور مقامی مکتب میں ہوئی، جہاں اردو اور فارسی کے علاوہ عربی بھی سیکھی۔ رسمی تعلیم میں دھیان نہ تھا، سو اسے ادھورا چھوڑ دیا۔ شاعری ورثے میں ملی تھی، کیوں کہ ان کے والد اور چچا شاعر تھے۔ جگر نے اصغر گونڈوی کی صحبت اختیار کی اور بعد میں شعروسخن کی دنیا میں نام و مقام بنایا جگر رندِ بلانوش تھے۔ ان کی زندگی اور شخصیت کے بعض پہلو ایسے بھی ہیں جنھیں بیان کرنا مناسب نہیں۔ تاہم جگر بہت مخلص، صاف گو اور ہمدرد انسان تھے۔ آخر عمر میں ترکِ مے نوشی کا انھیں خاص فائدہ نہ ہوا اور صحّت بگڑتی چلی گئی، مالی حالات دگرگوں ہوگئے اور جگر موت کے قریب ہوتے چلے گئے جگر مراد آبادی پاک و ہند کے مشاعروں کی جان ہوا کرتے تھے۔ انھیں دعوت دے کر بلایا جاتا اور منتظمین ان کی ناز برداری کرتے۔ جگر سامعین سے بے پناہ داد وصول کرتے۔ بھارتی حکومت نے انھیں ’’پدما بھوشن‘‘ خطاب دیا۔ علی گڑھ یونیورسٹی نے انھیں ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری دی۔ ان کے آخری مجموعہ کلام ’’آتِش گل‘‘ پر ان کو ’’ساہتیہ اکیڈمی‘‘ سے پانچ ہزار روپیہ انعام اور دو سو روپیہ ماہانہ وظیفہ مقرر ہوا تھا۔ ’آتش گل‘ کے علاوہ ’’داغ جگر‘‘ اور ’’شعلۂ طور‘‘ ان کے شعری مجموعے ہیں۔ ۹؍ستمبر ۱۹۶۰ کو اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔

جگر مرادآبادی کا یوم پیدائش پر ان کے کچھ منتخب اشعار بطور خراج عقیدت.

اللہ اگر توفیق نہ دے انسان کے بس کا کام نہیں
فیضان محبت عام سہی عرفان محبت عام نہیں
۔۔۔۔۔۔۔
ان کا جو فرض ہے وہ اہل سیاست جانیں
میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے
۔۔۔۔۔۔۔
ہم کو مٹا سکے یہ زمانہ میں دم نہیں
ہم سے زمانہ خود ہے زمانے سے ہم نہیں
۔۔۔۔۔۔۔
دل میں کسی کے راہ کئے جا رہا ہوں میں
کتنا حسیں گناہ کئے جا رہا ہوں میں
۔۔۔۔۔۔۔
محبت میں اک ایسا وقت بھی دل پر گزرتا ہے
کہ آنسو خشک ہو جاتے ہیں طغیانی نہیں جاتی
۔۔۔۔۔۔۔
جو ذرا سی پی کے بہک گیا اسے میکدے سے نکال دو
یہاں تنگ نظر کا گزر نہیں یہاں اہل ظرف کا کام ہے
۔۔۔۔۔۔۔
ابتدا وہ تھی کہ جینا تھا محبت میں محال
انتہا یہ ہے کہ اب مرنا بھی مشکل ہو گیا
۔۔۔۔۔۔۔
اپنا زمانہ آپ بناتے ہیں اہل دل
ہم وہ نہیں کہ جن کو زمانہ بنا گیا
۔۔۔۔۔۔۔
یہ عشق نہیں آساں اتنا ہی سمجھ لیجے
اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے
۔۔۔۔۔۔۔
آباد اگر نہ دل ہو تو برباد کیجیے
گلشن نہ بن سکے تو بیاباں بنائیے
۔۔۔۔۔۔۔
دنیا کے ستم یاد نہ اپنی ہی وفا یاد
اب مجھ کو نہیں کچھ بھی محبت کے سوا یاد
۔۔۔۔۔۔۔
کیا حسن نے سمجھا ہے کیا عشق نے جانا ہے
ہم خاک نشینوں کی ٹھوکر میں زمانا ہے
۔۔۔۔۔۔۔
اک لفظ محبت کا ادنیٰ یہ فسانا ہے
سمٹے تو دل عاشق پھیلے تو زمانہ ہے
۔۔۔۔۔۔۔
جان کر من جملۂ خاصان مے خانہ مجھے
مدتوں رویا کریں گے جام و پیمانہ مجھے.

Leave a reply