جن سے اللہ راضی ہوا تحریر: غلام زادہ نعمان صابری

0
96

جن سے اللہ راضی ہوا
غلام زادہ نعمان صابری

خلیفہ اوّل امیر المومنین حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ مکہ مکرمہ میں امارت کے لحاظ سے ایک منفرد مقام رکھتے تھے۔یہی وجہ تھی کہ آپ رضی اللہ عنہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سب سے امیر صحابی رسول صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وبارک وسلم تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ نہایت سخی اور نرم دل شخصیت کے مالک تھے کسی کو محتاجی اور پریشانی میں نہیں دیکھ سکتے تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ جب کسی صحابی رضی اللہ عنہ کو مشکل حالات میں دیکھتے تو فوراً اس کی مالی مدد فرماتے اور یوں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشنودی حاصل کرتے اور ایمان کو تازگی بخشتے۔
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وبارک وسلم آپ رضی اللہ عنہ سے بہت پیار اور محبت فرماتے یہ پیار اور محبت دنیا میں بھی قائم و دائم رہا اور دنیا سے تشریف لے جانے کے بعد بھی قائم و دائم ہے۔اس بات کا واضح ثبوت یہ ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے یار غار ہونے کے ساتھ ساتھ یار مزار بھی ہیں۔
مجاہدین اسلام کو جب بھی مالی مشکلات کا سامنا ہوا آپ رضی اللہ عنہ نے سب کچھ لا کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وبارک وسلم کے مبارک قدموں میں ڈھیر کر دیا یہاں تک کہ مال و اسباب سے اپناگھر خالی کردیا۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وبارک وسلم نے ایک موقع آپ رضی اللہ عنہ سے دریافت فرمایا کہ آپ گھر میں بھی کچھ چھوڑ کر آئے ہیں یا کہ نہیں۔
آپ رضی اللہ عنہ نے بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں دست بستہ عرض کی کہ اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اسم مبارک چھوڑ کر آیا ہوں۔
شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے اس موقع پر آپ رضی اللہ عنہ کو شاندار خراج تحسین پیش کرتے ہوئے فرمایا۔
پروانے کو چراغ ہے بلبل کو پھول بس
صدیق کے لئے ہے خدا اور خدا کا رسول بس
ابودجانہ رضى اللہ عنہ كى ہر روز كوشش ہوتى كہ وہ نماز فجر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم كے پيچھے ادا كريں، ليكن نماز كے فورى بعد يا نماز كے ختم ہونے سے پہلے ہى مسجد سے نكل جاتے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم كى نظريں ابودجانہ رضی اللہ عنہ كا پيچھا كرتيں ، جب ابودجانہ رضی اللہ عنہ كا يہى معمول رہا تو ايک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ابودجانہ رضی اللہ عنہ كو روک كر پوچھا :

’’ابودجانہ! كيا تمہيں اللہ سے كوئى حاجت نہيں ہے؟
ابودجانہ رضی اللہ عنہ گويا ہوئے: كيوں نہيں اے اللہ كے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، ميں تو لمحہ بھر بھى اللہ سے مستغنى نہيں ہوسكتا۔۔۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرمانے لگے، تب پھر آپ ہمارے ساتھ نماز ختم ہونے كا انتظار كيوں نہيں كرتے، اور اللہ سے اپنى حاجات كے لئے دعا كيوں نہيں كرتے۔۔۔

ابودجانہ كہنے لگے اے اللہ كے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وبارک وسلم! در اصل اس كا سبب يہ ہے كہ ميرے پڑوس میں ايک يہودى رہتا ہے، جس كے كھجور كے درخت كى شاخيں ميرے گھر كے صحن ميں لٹكتى ہيں، اور جب رات كو ہوا چلتى ہے تو اس كى كھجوريں ہمارے گھر ميں گرتى ہيں، ميں مسجد سے اس لئے جلدى نكلتا ہوں تا كہ ان گرى ہوئى كھجوروں كو اپنے خالى پيٹ بچوں كے جاگنے سے پہلے پہلے چُن كر اس يہودى كو لوٹا دوں، مبادا وہ بچے بھوک كى شدت كى وجہ سے ان كھجوروں كو كھا نہ ليں۔۔۔

پھر ابودجانہ رضی اللہ عنہ قسم اٹھا كر كہنے لگے اے اللہ كے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وبارک وسلم! ايک دن ميں نے اپنے بيٹے كو ديكھا جو اس گرى ہوئى كجھور كو چبا رہا تھا، اس سے پہلے كہ وہ اسے نگل پاتا ميں نے اپنى انگلى اس كے حلق ميں ڈال كر كھجور باہر نكال دى۔ ۔۔
اللہ كے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وبارک وسلم! جب ميرا بيٹا رونے لگا تو ميں نے كہا اے ميرے بچے مجھے حياء آتى ہے كہ كل قيامت كے دن ميں اللہ كے سامنے بطور چور كھڑا ہوں۔۔۔

سيدنا ابوبكر صدیق رضى اللہ عنہ پاس كھڑے يہ سارا ماجرا سن رہے تھے، جذبہ ايمانى اور اخوت اسلامى نے جوش مارا تو سيدھے اس يہودى كے پاس گئے اور اس سے كھجور كا پورا درخت خريد كر ابو دجانہ رضی اللہ عنہ اور ان كے بچوں كو ہديہ كر ديا۔۔۔
پھر كيوں نہ اللہ سبحانہ وتعالىٰ ان مقدس ہستيوں كے بارے يہ سند جارى كرے:
﴿رَّضِىَ اللّـٰهُ عَنْـهُـمْ وَرَضُوْا عَنْهُ﴾
"اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے-”

چند دنوں بعد جب يہودى كو اس سارے ماجرے كا پتہ چلا تو اس نے اپنے تمام اہل خانہ كو جمع كيا، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم كے پاس جا كر مسلمان ہونے كا اعلان كر ديا۔

Leave a reply