جنسی زیادتی کے بڑھتے ہوئے واقعات تحریر: سویرااشرف

0
50

آپ سب کو یاد ہو گا قصور کی زینب سے زیادتی کے بعد اسمبلی میں ایک بل زینب الرٹ کے نام سے منظور ہوا اور یہ امید بڑھ گٸی کہ اب زیادتی کے مجرموں ک سزا ملے گی اور لوگ انصاف حاصل کر سکیں گے لیکن سب بے سود۔۔

حالیہ دنوں میں ہمارے ملک میں عورتوں سے زیادتی اور تشدد کے واقعات میں تشویس ناک حد تک اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔ روزانہ سماجی رابطوں کی ویب ساٸٹس پر کسی کے لیے انصاف مانگنے کا ٹرینڈ چل رہا ہوتا ہے۔۔ واقعہ ہوتا ہے۔عوام جذبات کا اظہار کرتی ہے ٹرینڈ بنتے ھیں کاغذی کارواٸی کیجاتی ہے اور پھر اگلے واقعے کا انتظار کیا جاتا ہے لیکن کوٸی موثر اور عملی اقدامات دیکھنے کو نہیں ملتے۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر جسٹس فار ںسیم آج کا ٹاپ ٹرینڈ ہے۔ نسیم بی بی اور اسکے 14 ماہ کے بیٹے کا قتل صرف اس وجہ سے کیا گیا گہ نسیم نے واجد نامی شخص کو اپنے ساتھ زیادتی کرنے سے روکا جس کی وجہ سے واجد نامی درندے نے پہلے نسیم کے چودہ ماہ کے بیٹے کو چاقو سے قتل کیا پھر ریپ کرنے کے بعد نسیم کو بھی قتل کردیا لیکن سوشل میڈیا پر ملزم کی تصاویر اور ویڈیوز ہونے کے باوجود وہ اابھی تک آزاد ہے
اسلام آباد، کراچی اورلاہور سمیت ملک بھر کے مختلف شہروں میں جنسی زیادتی کے واقعات بڑھ رہے ہیں جو ہماری تباہ حال معاشرتی اقدار پر ایک سوالیہ نشان بن چکے ہیں۔ علمائے دین، اساتذہ اور خونی رشتے جب ایسے واقعات میں ملزمان قرار پاتے ہیں تو مختلف نوعیت کے سوالات جنم لیتے ہیں

زیادتی کے چند واقعات
لاہور میں حال ہی میں موٹر وے پر جنسی زیادتی کا واقعہ ہوا۔ ثنا نامی ایک خاتون جو بہن سے ملنے کیلئے لاہور آئی تھیں، انہیں 2 ملزمان نے جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا۔

20 جولاٸی کو جٹس فار نور مقدم ٹاپ ٹرینڈ رہا۔نور پاکستان کے ایک سابق سفیر کی بیٹی یہ واقعہ دارلحکومت اسلام آباد میں پیش آیا۔ جسے ظاہر نامی ملزم جو کہ ذہنی مریض تھا نے اسے تشدد کا نشانہ بنایا جب نور نے اس سے جان بچانے کیلیے بھاگنے کی کوشش کی تو اس نے نور کو فاٸر کر کے جان سے مار دیا بعد میں چاقو سے اسکے سینے اور کنپٹی پروار کیا اور اسکا سر تن سے جدا کردیا۔ ملزم چونکہ ایک مشہور و معروف بزنس مین کا بیٹا ہے اسلیے وہ سزا سے بچ جاۓ گا۔

15 جولاٸی کو بھی قرة العین کے لیے ایک ٹرینڈ ٹاپ ٹرینڈ بنا ۔ ٹرینڈ کا مقصد حیدرآباد کی 32 سالہ قرة العین جو کہ چار بچوں کی ماں تھی اسکے لیے انصاف مانگنا تھا۔۔ قرة العین کا قاتل وزیر آبپاشی سندھ کا بیٹا اور اسکا اپنا شوہر تھا۔جس نے غصے میں بیوی کو قتل کردیا۔۔۔ ملزم گرفتار ہو چکا ہے لیکن اس ملک میں جلد انصاف ملنا ایک نا ممکن سی بات ہے۔۔
اسی طرح روز ایک نیا دن آتا ہے، اپنے ساتھ ظلم کی ایک نٸی داستان لاتا ہے۔ کبھی کسی بچے سے زیادتی ہوتی ہے کبھی کسی عورت کا قتل ہوتا ہے۔ ٹرینڈ چلتا ہے شور اٹھتا ہے اور پھر سالوں عدالتوں می کیس چلتے ہیں

ایک سروے کے مطابق پاکستان میں موجود 72 فیصد خواتین جسمانی یا جنسی تشدد کا نشانہ بنتی ہیں جو ایک انتہائی خطرناک شرح ہے۔

آئینِ پاکستان میں جنسی زیادتی بطور جرم
اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کے تحت جنسی زیادتی ایک قابلِ سزا جرم ہے۔ قانون کے تحت ایسے مجرموں کو سزائے موت اور 10 سے 25 سال تک قید کی سزا دی جاسکتی ہے۔
دوسری جانب اجتماعی زیادتی کے کیسز میں سزا صرف سزائے موت یا عمر قید ہوسکتی ہے جبکہ سزا دینے سے قبل ڈی این اے ٹیسٹ اور دیگر طبی ثبوت سامنے رکھے جاتے ہیں تاکہ مجرم پر جرم ثابت ہوجائے۔
گزشتہ برس حکومتِ پاکستان نے ملک بھر میں خصوصی عدالتیں قائم کیں جن کا مقصد خواتین کے خلاف ظلم و تشدد اور جنسی زیادتی جیسے واقعات پر فوری انصاف کی فراہمی ہے۔

عمومی رویے
یہ بڑی تکلیف دہ بات ہے کہ کسی شخص کے ساتھ جنسی زیادتی یا ظلم ہوا ہو اور آپ اسے مختلف نصیحتیں کرنا شروع کردیں۔ بلا شبہ سادہ لباس پہننا اور پردہ کرنا شرعی اصول ہیں لیکن ان اصولوں کی تبلیغ کو جنسی زیادتی کیلئے اخلاقی جواز کے طور پر پیش کرنا خود کسی جرم سے کم نہیں۔
ہمارے مذہب اسلام نے ہمیں بہت سی باتیں سمجھائی ہیں جن میں سے اہم ترین بات اخلاقیات اور معاشرتی رویوں میں اعتدال ہے۔ ضروری نہیں ہے کہ پاکستان میں رہنے والا ہر شخص مسلمان ہو یا پھر اِسلامی اصولوں پر اتنا ہی عمل کرتا ہو جتنا کہ معاشرے کو ضروری لگتا ہے ، چاہے کسی کو اچھا لگے یا برا لگے۔
جب کسی کے ساتھ جنسی زیادتی کا کوئی واقعہ پیش آتا ہے تو لوگ یہ رائے دینے لگتے ہیں کہ متاثرہ خاتون نے شاید پردے کی پابندی نہیں کی تھی یا ان کو رات کے اندھیرے میں گھر سے نہیں نکلنا چاہئے تھا۔ ایسی تمام آراء جنسی زیادتی کے مجرموں کو شہ دیتی ہیں۔ہمیں مظلوم کو مشورے دینے کی بجاۓ ظالم کی سزا پر زور دینا چاہیے

سب سے پہلی بات یہ ہے کہ جرم کوجرم سمجھا جائے اور اس کی رپورٹ کی جائے۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے اپنا کام فرض شناسی کے ساتھ سرانجام دیں۔ عدلیہ فیصلے سنانے میں تاخیر سے کام نہ لے کیونکہ بعض اوقات دیر سے انصاف مہیا کرنا بھی ایک جرم بن جاتا ہے اور پاکستان میں جراٸم کی بڑھتی وجہ ہی کیسیز کا سالوں عدالتوں میں چلتے رہنا ہے
بہت سے بچوں، لڑکوں اور لڑکیوں کو جنسی زیادتی کے بعد قتل کردیا جاتا ہے۔اسلام ایسے جرائم کیلئے سخت سے سخت سزا کی حمایت کرتا ہے جبکہ آئینِ پاکستان میں ایسے جرائم کیلئے مناسب سزائیں موجود ہیں۔
بدقسمتی سے اس کے باوجود جرائم بڑھ رہے ہیں تو یہ ساری ذمہ داری قانون نافذ کرنے والے اداروں، حکومتِ وقت اور عدلیہ پر عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے فرائض کا احساس کریں اور عدالتیں جلد از جلد سزاٸیں دیں تا کہ مجرموں کی حوصلہ شکنی ہو سکے
@IamSawairaKhan1

Leave a reply