کہیں نہیں کہا گیا کہ بغیر سنے نااہل ہو گی، سپریم کورٹ

0
38
نیب ترامیم کیخلاف درخواست،فیصلہ کرنے میں کوئی عجلت نہیں کرینگے،چیف جسٹس

کہیں نہیں کہا گیا کہ بغیر سنے نااہل ہو گی، سپریم کورٹ

سپریم کورٹ میں آرٹیکل 63اے کی تشریح کیلئے صدارتی ریفرنس پر سماعت ہوئی

مسلم لیگ ن کے وکیل مخدوم علی خان نے دلائل دیئے، جسٹس جمال مندو خیل نے کہا کہ کیا صدر اسمبلی کارروائی کے بارے میں رائے لے سکتے ہیں؟ کیا عدالتی رائے کی اسمبلی پابند ہے؟ کیا اسپیکر کی ایڈوائس پر صدر نے ریفرنس بھیجا ہے؟ اسمبلی کارروائی کے کسٹوڈین تو اسپیکر ہوتے ہیں، مخدوم علی خان نے کہا کہ انکے سوالات کے جواب اٹارنی جنرل ہی دے سکتے ہیں،صدر نے عدالت سے پوچھا ہے ہارس ٹریڈنگ کیسے روکی جاسکتی ہے ہارس ٹریڈنگ روکنے کے سوال کا جواب رائے نہیں بلکہ آئین سازی کے مترادف ہو گا، صدر نے ہارس ٹریڈنگ روکنے کے لیے کسی طریقہ کار پر رائے نہیں مانگی،ریفرنس میں سینیٹ الیکشن میں خریدو فروخت کا حوالہ دیا گیا،

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آرٹیکل 63اے میں واضح ہے کہ پارٹی سے انحراف غیر آئینی ہو گا،آپکی گفتگو سے لگ رہا ہے پارٹی سے انحراف غلط کام نہیں، مخدوم علی خان نے چیف جسٹس عمر عطا بندیال سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ شاید میں اپنی بات سمجھا نہیں سکا،جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ایک نقطہ نظر تو یہ ہے کہ پارٹی سے انحراف جمہوریت کا حصہ ہے، دوسرا نقطہ نظر یہ ہے کہ پارٹی سے انحراف جان بوجھ کر دیا گیا دھوکہ ہے، آرٹیکل 63 اے پارٹی سے انحراف کو غلط کہتا ہے، سوال یہ ہے کہ پارٹی سے انحراف کیا اتنا غلط ہے کہ تاحیات نااہلی ہو؟ مخدوم علی خان نے کہا کہ صدر کے بقول سینیٹ الیکشن میں غلط کام ہوا اور شواہد بھی ہیں، صدر اور وزیراعظم کو ہارس ٹریڈنگ کا علم تھا لیکن کوئی کارروائی نہیں کی،

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ سینیٹ الیکشن میں پیسے کے لین دین کا ذکر تھا، پیسوں کے معاملے میں ثابت کرنا لازمی ہے، آرٹیکل 63اے میں کسی ثبوت کی ضرورت نہیں ہوتی،چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ سینیٹ الیکشن پر آرٹیکل 63 اے کا اطلاق نہیں ہوتا، اٹارنی جنرل نے کہا کہ مفروضہ پر بات کررہا ہوں اگر ایک ممبر اپنے ضمیر پر ووٹ دیتا ہے تو وہ ڈی سیٹ ہو گا،صرف 4 شرائط پر عمل کرنے کے بعد ہی آرٹیکل 63اے لگے گا، جسٹس منیب اختر نے کہا کہ سینیٹ الیکشن میں ممبر نے ووٹر کے طور پر ووٹ ڈالتا ہے،اگرچہ سینیٹ الیکشن میں بھی پیسے لے کر ووٹ ڈالنا جرم ہے ، جسٹس جمال خان نے کہا کہ آرٹیکل 63اے کے مطابق پارٹی سربراہ انحراف کا ڈکلیئریشن دیتا ہے، کہیں نہیں کہا گیا کہ بغیر سنے نااہل ہو گی موقع نہیں دیا جائے گا،، مخدوم علی خان نے کہا کہ میرا کہنا ہے آرٹیکل 63اے کہ نتائج آئین میں دیئے گئے ہیں جسٹس اعجاز الاحسن کی آبزرویشن سے متفق ہوں کہ انحراف کا کوئی مثبت منفی کسی ڈکشنری میں نہیں لکھا گیا،

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے استفسار کیا کہ صرف اس دفعہ ہارس ٹریڈنگ تو نہیں ہورہی پہلے بھی ہوتی رہی ہے،کیا کیا گیا؟ انحراف کرنے والے واپس اپنی پارٹیوں میں لیے جاتے رہے ہیں ممکن ہے پارٹی لائن کے خلاف ووٹ دینے والے کو پارٹی معاف کردے،عدالت آئین پر عمل کے لیے ہے،آئین کے آرٹیکل کو موثر ہونا ہے،سسٹم کمزور ہو تو آئین بچانے کے لیے سپریم کورٹ کو آنا پڑتا ہے،مخدوم علی خان نے کہا کہ پارٹی سے انحراف لازمی نہیں غیر اخلاقی یا کرپشن کی بنیاد پر ہو، پارٹی سے انحراف اچھے مقصد کے لیے بھی کیا جاسکتا ہے،تاریخ نے سیا ست کو اک برا لفظ بنا دیا ہے، شوکاز کے جواب میں منحرف رکن پارٹی سربراہ کو جواب دے گا، پارٹی سربراہ مطمئن ہو ں تو شوکاز نوٹس واپس ہو جائے گا، عدالتی جواب شاید سیاسی معاملات کو مطمئن نہ کر سکے،برطانیہ میں اپوزیشن کو بھی خصوصی معاملات میں شامل کیا جاتا ہے،اپوزیشن کو آن بورڈ رکھنے کے اچھے نتائج سامنے آتے ہیں، صدارتی ریفرنس کی ٹائمنگ بھی دیکھنے کی ضرورت ہے،صدر نے تحریک عدم اعتماد آنے پر ہی ریفرنس کیوں دائر کیا،فاروق ایچ نائک نے کہا کہ او آئی سی کی وجہ سے اسپیکر نے قومی اسمبلی کا اجلاس 25 مارچ کو طلب کیا تھا 20مارچ کو اسپیکر نے بذریعہ نوٹیفکیشن 25 مارچ کا اجلاس بلایا ، مخدوم علی خان نے کہا کہ آئینی طور پر 8 مارچ کے بعد 14 دن میں اجلاس بلانا ضروری تھا ،عدالت کو صرف حقائق بتا رہا ہوں سیاسی بات نہیں کرونگا ، ججز کو عدالت کے باہر ہونے والے معاملات سے متاثر نہیں ہونا چاہیے،عدالت سے سوال خلا میں نہیں پوچھے جاتے عدالت نے سوالات پوچھتے وقت اور حالات کو بھی دیکھنا ہوتا ہے،

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آپکے مطابق سماعت کا سیاسی معاملے پر اثر پڑ سکتا ہے؟ آپ کہنا چاہتے ہیں ان حالات میں ایڈوائزری اختیار استعمال نہ کیا جائے،جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آپ چاہتے ہیں عدالت آئینی سوال کے جواب سے پہلے حالات دیکھا کرے، آپکو سمجھا چاہیے عدالت آئین کی تشریح حالات دیکھ کر نہیں کرتی،عدالتی تشریح کے اثرات حال کیساتھ مستقبل کیلئے بھی ہوتے ہیں، جسٹس منیب اختر نے کہا کہ کیا سینیٹ الیکشن کو ایک سال گزرنے کے بعد صدر سوال نہیں کر سکتے، جسٹس جمال خان نے کہا کہ آرٹیکل 63اے پر عمل ووٹ ڈالنے سے شروع ہو گا،صدر کو کیسے معلوم ہو کہ حکومتی جماعت کے لوگ منحرف ہورہے ہیں، مخدوم علی خان نے کہا کہ اس سوال کا جواب پی ٹی آئی کے وکیل دے سکتے ہیں، ریفرنس میں پوچھے گئے سوالات مفروضوں اور افواہوں پر مبنی ہیں، جسٹس مظہر عالم نے کہا کہ پارٹی سربراہ کس قسم کی ہدایات دے سسکتا ہے؟ ایک پارٹی سربراہ کی ہدایت کی کاپی میرے پاس ہے، جسٹس مظہر عالم نے عمران خان کی پارٹی اراکین کو دی گئی ہدایات کی کاپی مخدوم علی خان کو فراہم کر دی

اٹارنی جنرل نے کہا کہ جسٹس مظہر عالم نے مخدوم علی خان کو ایک دستاویز دی تھی،جاننا چاہتا ہوں کہ یہ دستاویز کیا تھی؟ کیا یہ کوئی پبلک دستاویز تھی، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ دستاویز چھوڑیں ہم واپس لیتے ہیں،وقت کم ہے اس معاملے کو چھوڑ دیں، جسٹس جمال خان نے کہا کہ یقینی بنائیں عدالتی کارروائی کی بنیاد پر کچھ ایسا ویسا نہ ہو،

ہمارا ساتھ دو، خاتون رکن اسمبلی کو کیا آفر ہوئی؟ ویڈیو آ گئی

بریکنگ، وزیراعظم کیخلاف عدم اعتماد، قومی اسمبلی کا اجلاس طلب

آئین کے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے لیے ریفرنس، اٹارنی جنرل سپریم کورٹ پہنچ گئے

پیکا ترمیمی آرڈیننس کے خلاف درخواستوں پر سماعت ملتوی

کسی کو ووٹ دینے سے روکا نہیں جاسکتا،سپریم کورٹ

صدارتی ریفرنس کی سماعت کیلیے لارجر بینچ کی تشکیل ،جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا چیف جسٹس کو خط

عدلیہ اورججز پرانگلیاں اٹھانا، ججز پر الزامات لگانا بند کریں،جس پراعتراض ہے اس کا نام لیں،چیف جسٹس

کیا کوئی بھی رکن وزیراعظم پر عدم اعتماد کا اظہار کر سکتا ہے؟ سپریم کورٹ

سندھ ہاوس حملے کے ملزمان کو گرفتار کرنے کا حکم

کیا وزیراعظم کو غیر ذمہ دارانہ بیانات سے نہیں روکا جاسکتا؟ سپریم کورٹ

کیا آپ نے کبھی سوچا کہ یہ منحرف اراکین منحرف کیوں ہوتے ہیں؟ سپریم کورٹ

Leave a reply